ایک سوال اور اس کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
ایک ادبی نکتہ ججن پر بھاری بوجھ ہے

یہ سوال بہت سے ذہنوں میں موجود ہے کہ بہت سے ستمگر ، گنہگار اور آلودہ دامن لوگ اس طرح نعمات میں کیوں مستغرق ہیںاورانہیں سزا کیوں نہیں ملتی ۔ زیر نظر آیت سے ضمنی طور پر اس کا جواب بھی حاصل ہو جاتا ہے ۔
قرآن کہتا ہے کہ ایسے لوگ ہیں جو قابل اصلاح نہیں اور انہیں سنت آفرینش اور آزادیٴ ارادہ و اختیار کے اصول کے مطابق ان کی حالت پر چھوڑ دیا گیا ہے تا کہ یہ سقوط کے آخری مرحلے تک پہنچ جائیں اور زیادہ سے زیادہ سزا کے مستحق ہو جائیں ۔
علاوہ ازیں قرآن کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات خدا ایسے لوگوں کو فراواں نعمتیں دیتا ہے اور جب وہ کامیابی اور مسرت کی لذت میں غرق ہوتے ہیں تو اچانک تمام چیزیں ان سے چھین لیتا ہے تا کہ اسی دنیا میں زیادہ سے زیادہ عذاب اور سزا کا مزہ چکھ لیں کیونکہ ایک دم خوشحال زندگی کا چھن جانابہت تکلیف دہ ہوتا ہے ، جیسا کہ ارشاد الہی ہے :
فلما نسوا ماذکروا بہ فتحنا علیھم ابواب کل شیءٍ ۔حتی اذا فرحوا بما اوتوا اخذنا ھم بغتة فاذا ھم مبسلون
جب انہوں نے وہ نصیحتیں جو انہیں کی گئی تھیں فراموش کر دیں ، تو ہم نے ہر اچھائی اور خیر کے دروازے ان کے لئے کھول دئے تا کہ وہ خوش ہو جائیں ۔ پھر اچانک جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا تھا واپس لے لیا لہذا وہ انتہائی تکلیف اور غم میں مبتلا ہو گئے ۔ (انعام ۔ ۴۴ )
در حقیقت ایسے اشخاص ان لوگوں کی طرح ہیں جو ظلم و تشدد سے کسی درخت پر چڑھ جاتے ہیں ، وہ جتنا اوپر جا تے ہیں زیادہ خوش ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ درخت کی چوٹی پر جا پہنچے ہیں ۔ اچانک سخت آندھی آتی ہے جو انہیں اوپر سے نیچے گرا دیتی ہے جس سے ان کی سب ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں ۔

ایک ادبی نکتہ ججن پر بھاری بوجھ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma