زمانہ جاہلیت کے وسوسے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
منافقین کی مفاد پرستی کامیابی کے بعد شکست

زمانہ جاہلیت کے وسوسے

 

ثُمَّ اٴَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ اٴَمَنَةً نُعاساً 1#
واقعہ احد کی بعد والی رات بہت درد ناک اور اضطراب انگیز تھی ۔ مسلمان سمجھتے تھے کہ قریش کے فاتح سپاہی دوبارہ مدینہ کی چعف پلٹ آئےں گے اور مسلمانوں کے باقی ماندہ مقابلہ کی طاقت ختم کر دیں گے اور شاید کسی طور پر بت پرستوں کے واپس آنے کی خبر بھی انہیں آ پہنچی تھی اور یہ مسلم تھا کہ اگر وہ پلٹ آتے تو جنگ کا خطرناک ترین مرحلہ پیش آتا ۔ اس دوران مجاہدین اور فرار کرنے والوں میں سے پشیمان افراد جنہوں نے توبہ کر لی تھی اب پر ور دگار کے لطف و کرم پر اعتماد رکھتے تھے اور آئندہ کے لئے پیغمبر اکرم کے وعدوں پر مطمئن تھے۔
اس حالت وحشت میں وہ آرام کی نیند سو گئے تھے جبکہ جنگی لباس میں ملبوس اور ہتھیاروں سے لیس تھے لیکن منافق ، ضعف الایمان اور بز دل گروہ ساری رات فکر و پریشانی میں مبتلا رہا اور با دل نخواستہ حقیقی مومنین کی پہرہ داری کرتا رہا ۔ درج بالا آیت رات کی اس کیفیت کی تشریح کرتے ہوئے کہتی ہے کہ پھر احد کے دن ان تمام غم و اندوہ کے بعد تم پر امن و امان اور راحت و آرام نازل کیا اور یہ وہی ہلکی پھلکی نیند تھی جو تم میں سے ایک گروہ کو آئی ۔ لیکن ایک ایسا گروہ بھی تھا کہ جسے صرف اپنی جان کی فکر تھی وہ لوگ سوائے اپنی جانیں بچانے کے اور کوئی چیز نہیں سوچتے تھے ۔ اس لئے وہ راحت و آرام سے محروم ہو گئے تھے ۔
یہ ایمان کاایک اہم تریں ثمرہ ہے کہ مر د مومن اس دنیا میں بھی راحت و آرام سے رہتا ہے جبکہ بے ایمان یا منافق اور کمزور ایمان والے افراد کبھی بھی اس کا ذائقہ نہیں چکھتے ۔ بعد ازاں قرآن منافقین اور کمزور ایمان والے افراد کی گفتگو اور طرز فکر کی تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے :
یظنون بااللہ غیر الحق ظن الناہیة ۔
وہ خدا کے بارے میں زمانہ جا ہلیت کا غلط اور نا حق گمان رکھتے اور اپنی گفتگو میں کہتے شاید پیغمبر کے وعدہ غلط ہی ہوں ۔ اپنے آپ کو یا ایک دوسرے کو کہتے تھے ۔” ھل لنا من الامر من شیءٍ “ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ اس دل خراش کیفیت کے بعد ہمیں کامیابی نصیب ہو یعنی بہت ہی بعید یا ناممکن ہے قرآن ان کو جواباً کہتا ہے :” قل ان الامر کلہ للہ“ کہ دو ، جی ہاں ! کامیابی تو خدا کے ہاتھ میں ہے ، اگر وہ چاہے اور تمہیں اس لائق سمجھے تو کامیابی نصیب کرے ۔ وہ اب بات کو ظاہر کرنے کے لئے تیار نہیں تھے جو وہ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے تھے کیونکہ وہ اس سے ڈرتے تھے کہ کہیں کفار کی صف میں ان کا شمار نہ ہو۔
یخفون فی انفسھم مالا یبدون لَکََ
اسی لئے خدائے تعالیٰ فر ماتا ہے کہ : وہ لوگ جو میدان احد سے فرار کر گئے شیطان نے انہیں چند ایک گناہوں کی وجہ سے پھیلا دیا مگر خدا نے انہیں بخش دیا اور خدا بخشنے والا اور حلیم ہے ۔ یوں خدا ان کی آزمائش کرتا ہے تا کہ وہ آئندہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے کوشش کریں وہ پہلے اپنے دل کو گناہ سے پاک کریں ۔ اس بات کا امکان ہے کہ اس گناہ مراد وہی دنیا پرستی ، مال غنیمت کو جمع کرنا اور دوران جنگ پیغمبر کی حکم عدولی کرنا ہو یا دوسرے گناہ مراد ہوں جن کے وہ جنگ احد سے پہلے مرتکب ہوئے تھے اور انہوں نے ان کی ایمانی قوت کمزور کر دی تھی ، مفسر عظیم مرحوم طبرسی اس آیت کے ذیل میں ابوالقاسم بلخی سے نقل کرتے ہیں کہ جنگ احد کے دن (پیغمبر کے علاوہ ) سوائے تیرہ افراد کے تمام بھاگ گئے تھے اور ان تیرہ میں سے آٹھ انصار اور پانچ مہاجر تھے ۔ جن میں سے حضرت علی (ع) اور طلحہ کے علاوہ باقی ناموں میں اختلاف ہے البتہ دونوں کے بارے میں تمام کا اتفاق ہے کہ انہوں نے فرار نہیں کیا ۔

  ۱۵۶۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَکُونُوا کَالَّذینَ کَفَرُوا وَ قالُوا لِإِخْوانِہِمْ إِذا ضَرَبُوا فِی الْاٴَرْضِ اٴَوْ کانُوا غُزًّی لَوْ کانُوا عِنْدَنا ما ماتُوا وَ ما قُتِلُوا لِیَجْعَلَ اللَّہُ ذلِکَ حَسْرَةً فی قُلُوبِہِمْ وَ اللَّہُ یُحْیی وَ یُمیتُ وَ اللَّہُ بِما تَعْمَلُونَ بَصیرٌ ۔

۱۵۷۔وَ لَئِنْ قُتِلْتُمْ فی سَبیلِ اللَّہِ اٴَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّہِ وَ رَحْمَةٌ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ۔
۱۵۸۔وَ لَئِنْ مُتُّمْ اٴَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَی اللَّہِ تُحْشَرُونَ۔
ترجمہ
۱۵۶۔ اے ایماندارو ! تم کفار کی مانند نہ ہو جاوٴ کہ جب ان کے بھائی سفر پر یا جنگ کے لئے جاتے ہیں (اور مر جاتے ہیں یا قتل ہو جاتے ہیں )تو وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور قتل نہ ہوتے (تم ایسا نہ کہو ) تا کہ خدا یہ حسرت ان کے دلوں میں رکھ دے اور زندہ کرنے والا اور مارنے والا خدا ہے (اور زندگی اور موت اس کے ہاتھ میں ہے ) اور وہ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے ۔
۱۵۷۔ (اب) اگر راہ خدا میں قتل ہو جاوٴ یا مر جاوٴ ( تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے ) کیونکہ خدا کی رحمت اور مغفرت ان تمام چیزوں سے جو انہوں نے (ساری زندگی میں)جمع کیا ہے بہتر ہے۔
۱۵۸۔ اور اگر تم مر جاوٴ یا قتل ہو جاوٴ تو خدا کی طرف پلٹ جاوٴ گے ( لہذا تم فنا نہیں ہو گے کہ اس سے تم پریشان ہو)۔

 

 
1 # ۔” امنہ “کا معنی ہے امن و امان اور نعاس کا مطلب ہے ہلکی سی نیند یا اونگھ۔
منافقین کی مفاد پرستی کامیابی کے بعد شکست
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma