کامیابی کے بعد شکست

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
زمانہ جاہلیت کے وسوسے بار بار خطرے سے آگاہی

کامیابی کے بعد شکست

جنگ احد کے واقعات میں گزر چکا ہے کہ مسلمان ابتداء جنگ میں اتحاد اور بڑی دلیری کے ساتھ لڑے اور جلد ہی کامیاب ہو گئےاور دشمن کا لشکر پرا کندہ و منتشر ہو گیا جس سے سارے لشکر اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن کوہ عینین کے درے میں عبداللہ بن جبیر کی سر کردگی میں لڑنے والے تیر اندازوں کی نا فرمانی اور ان کے حساس مورچے کو چھوڑنے اور دوسرے لوگوں کی مال غنیمت جمع کرنے کی مشغولیت سے ورق ہی الٹ گیا اور لشکر اسلام زبر دست شکست سے دو چار ہوا۔
کافی شہید دے کر اور بہت نقصان اٹھا کر جب مسلمان مدینہ کی طرف پلٹ آئے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ کیا خدا نے ہم سے فتح کامیابی کاوعدہ نہیں کیا تھا ۔ پھر اس جنگ میں ہمیں کیوں شکست ہوئی ؟ اس پر مندرجہ بالا آیات میں جواب دیا گیا اور شکست کے اسباب کی بشاندہی کی گئی ۔ اب ہم آیات کی تفصیلی تفسیر کی طرف آتے ہیں ۔
۔وَ لَقَدْ صَدَقَکُمُ اللَّہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُمْ ۱ #بِإِذْنِہِ حَتَّی إِذا فَشِلْتُمْ ۔۲ #
اس جملہ میں ارشاد خدا وندی ہے کہ کامیابی کے بارے میں خدا کا وعدہ بالکل درست تھا اور اس کی وجہ ہی سے تم ابتداء جنگ میں کامیاب ہوئے اور حکم خدا سے تم نے دشمن کو تتر بتر کر دیا ۔ کامیابی کا یہ وعدہ اس وقت تک تھا جب تک تم اسقتامت وپامردی اور فرمان پیغمبر کی پیروی سے دست بردار نہیں ہوئے اور شکست کا دروازہ اس وقت کھلا جب سستی اور نا فرمانی نے تمہیں آ گھیرا ۔ یعنی اگر تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ کامیابی کا وعدہ بلا شرط تھا تو تمہاری بڑی غلط فہمی ہے بلکہ کامیابی کے تمام وعدہ فرمان خدا کی پیروی کے ساتھ مشروط ہیں ۔ البتہ یہ خدا نے مسلمانوں سے اس جنگ میں کامیابی کا وعدہ کب کیا تھا ، اس بارے میں دو احتمال ہیں ۔ پہلا یہ کہ مراد عمومی وعدے ہیں جو خدا کی طرف سے مسلمانوں کو دشمنوں پر کامیابی کے بارے مں دئے جا چکے تھے ۔ دوسرا یہ کہ پیغمبر خدا کی صریحی طور پر جنگ احد سے پہلے وعدہ دے چکے تھے اور ان کا وعدہ خدا کا وعدہ ہے ۔
وَ تَنازَعْتُمْ فِی الْاٴَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِنْ بَعْدِ ما اٴَراکُمْ ما تُحِبُّونَ ۔
اس میں کوہ عینین کے تیر اندازوں کی طرف اشارہ ہے اور ان کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ وہ تیر انداز جو پہاڑ کے درے پر تھے ان میں مورچہ چھوڑنے کے بارے میں اختلاف پڑ گیا اور ان میں بیشتر نے نا فرمانی اور مخالفت کی ۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ جیسی تمہاری آرزو تھی ویسی ہی نظروں میں سما جانے والی کامیابی دیکھ لینے کے بعد تم نے راہ عصیان اختیار کی اور حقیقت میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تم نے جو لازمی تھی وہ کوشش کی لیکن اس کو بر قرار رکھنے کے لئے تم نے استقامت اور پا مردی نہیں دکھائی اور ہمیشہ کامیابیوںکی حفاظت کرنا ان کے حصول سے زیادہ مشکل ہوا کرتا ہے ۔
مِنْکُمْ مَنْ یُریدُ الدُّنْیا وَ مِنْکُمْ مَنْ یُریدُ الْآخِرَةَ
اس موقع پر تم میں سے ایک گروہ دنیا چاہتا تھا وہ مال غنیمت اکھٹا مرنے لگا جبکہ دوسرا گروہ جس میں عبد اللہ بن جبیر اور دیگر تیر انداز شامل تھے جو ثابت قدم رہے وہ آخرت اور خدائی جزا و ثواب کے خواہاں تھے ۔
ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ
یہاں ورق الٹ گیا اور خدا نے تمہاری کامیابی کو شکست سے بدل ڈالا تا کہ تمہاری آزمائش کرے اور تمہیں تنبیہ کرے اور تمہاری تربیت کرے ۔
وَ لَقَدْ عَفا عَنْکُمْ وَ اللَّہُ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنینَ
اس کے بعد خدا نے تمہاری ان سب نا فرمانیوں سے در گذر کیا جب کہ تم سزا کے مستحق تھے کیونکہ خدا وند عالم مومنین کے لئے ہر قسم کی نعمتوں کو فرو گذار نہیں کرتا ۔
إِذْ تُصْعِدُونَ 3# وَ لا تَلْوُونَ عَلی اٴَحَدٍ وَ الرَّسُولُ یَدْعُوکُمْ فی اٴُخْراکُمْ 4#
اس آیت میں خدا تعالیٰ مسلمانوں کے لئے جنگ احد کے انجام کا نقشہ کھینچتا ہے اور فرماتا ہے : یاد کرو اس وقت کو جب تم ہر طرف منتشر تھے اور بھاگ رہے تھے اور پیچھے کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے تھے کہ تمہارے باقی بھائی کس حالت میں ہیں جبکہ پیغمبر پیچھے سے تمہیں پکار رہے تھے :
الیّ عباد اللہ الیّ عباد اللہ فانی رسول اللہ
خدا کے بندوں میری طرف پلٹ آوٴ میں خدا کا رسول ہوں لیکن تم میں سے کوئی ان کی پکار پر کان نہیں دھرتا تھا ۔
فاثابکم غما بغمٍّ
اس وقت یکے بعد دیگر غم و اندوہ تم پر ٹوٹے کیونکہ تم ایک طرف جنگ میں شکست ، کئی افسروں اور بہادر سپاہیوں کی شہادت اور کئی زخمیوں کے غم میں مبتلا تھے تو دوسری طرف پیغمبر اکرم کی خبر شہادت کے پھیل جانے کی پریشانی اور پھر ان کے زخمی ہونے کا غم تھا اور یہ سب کچھ مخالفتوں اور نا فرمانیوں کا نتیجہ تھا ۔
لِکَیْلا تَحْزَنُوا عَلی ما فاتَکُمْ وَ لا ما اٴَصابَکُمْ۔
غم و اندوہ کا یہ سیلاب اس لئے تھا کہ اب تم مال غنیمت ہاتھ سے جانے پر غمگین نہ ہونے پاوٴ اور کامیابی کی راہ میں جو مشکلات اور زخم تمہیں پہنچے ہیں ان کی فکر کرو۔
وَ اللَّہُ خَبیرٌ بِما تَعْمَلُونَ ۔
خدا تمہارے اعمال سے آگاہ تھا اور پوری طرح سے اطاعت کرنے والوں ، حقیقی مجاہدین اور اسی طرح بھاگنے والوں کی کیفیت جانتا تھا ۔بنا بریں تم میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو فریب نہ دے اور جو کچھ جنگ احد میں ہوا ہے اس کے بر خلاف دعویٰ نہ کرے اور اگر واقعاً تم پہلے گروہ میں داخل ہو تو خدا کا شکر ادا کرو ورنہ گناہوں سے توبہ کرو ۔


۱ # تحسونھم۔مادہ حس سے ہے ۔ اس کا معنی ہے کسی کسی کے حواس ختم کر دینا اور اسے قتل کر دینا۔یعنی تم انھیں قتل کرتے تھے ۔
۲ # ”اذا “یہاں پر شرطیہ نہیں ”حین “ اور ” وقت“ کے معنی میں ہے
3 #” تصدون “ مادہ اصعاد سے ہے ۔ مفردات میں راغب کے بقول اس کا معنی ہے زمینوں پر چلنا یا اوپر کیطرف جانا جبکہ صعود کا معنی صرف اوپر کی طرف جانا ہے ۔ آیت میں یہ لفظ شاید اس لئے آیا ہے کہ بھاگنے والوں میں کچھ پہاڑ پر چڑھ گئے تھے اور بعض بیاباں میں سر گرداں تھے ۔
4#۔”اخریکم“ یہاں ” ورائکم “ کے معنی میں ہے یعنی تمہارے پیچھے ۔
زمانہ جاہلیت کے وسوسے بار بار خطرے سے آگاہی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma