جنگ کا خطرناک مرحلہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
یہ گروہ کیسے فلاح پائے گاکون پکارا کہ محمد قتل ہو گئے ہیں

جنگ ا حد کے اختتام پر مشرکین کا فتحیاب لشکر بڑی تیزی کے ساتھ مکہ کی طرف پلٹ گیا لیکن راستہ میں انہیں یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ انہوں نے اپنی کامیابی کو ناقص کیوں چھوڑ دیا ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مدینہ کی طرف پلٹ جائیں اور اسے غارت وتاراج کر دیں اور اگر محمد زندہ ہوں تو انہیں قتل کر دیں تا کہ ہمیشہ کے لئے اور مسلمانوں کی فکر ختم ہو جائے ۔ اسی بناء پر انہیں واپس لوٹنے کا حکم دیا گیا اور در حقیقت جنگ احد کا یہ خطرناک مرحلہ تھا کیونکہ کافی مسلمان شہید اور زخمی ہو چکے تھے اور فطری طور پر وہ از سر نو جنگ کرنے پر آمادہ نہیں تھے ۔ جبکہ اس کے بر عکس اس مرتبہ دشمن مضبوط جذبہ کے ساتھ جنگ کر سکتا تھا اور اس کا حتمی نتیجہ حاصل کر سکتا تھا ۔ اس بات کی اطلاع جلد ہی آپ تک پہنچ گئی۔
اگر اس موقعے پر آپ غیر معمولی جراٴت اور بے مثال ہممت کا مظاہرہ نہ کرتے تو تاریخ اسلام یہیں پر ختم ہو جاتی یہ آیات اس نازک مرحلہ پر نازل ہوئیں اور ان سے مسلمانوں کے جذبے کع تقویت پہنچی ۔ اس کے فوراً بعد آپ کی طرف سے مشرکین جانے کا ایک حکم ہوا ۔ یہاں تک کہ جنگ کے زخمی

( جن میں حضرت علی (ع) بھی تھے جنہیں ساٹھ سے زیادہ زخم آئے تھے ) بھی دشمن سے لڑنے کے لئے آمادہ ہو گئے اور مدینہ سے چل پڑے یہ خبر سرداران قریش تک پہنچی اور وہ مسلمانوں کے اس عجیب و غریب جذبہ سے وحشت زدہ ہوئے اور سوچنے لگے کہ شاید تازہ دم فوج مدینہ سے مسلمانوں کے ساتھ آملی ہے اور ہو سکتا ہے کہ نئی جنگ کا نتیجہ ان کے لئے نقصان کا باعث ہو ۔ لہذا انہوں نے اپنی سابقہ کامیابی پر اکتفا کرنے اور مکہ کی طرف پلٹ جانے میں ہی بہتری سمجھی اور وہ تیزی کے ساتھ مکہ کی طرف چل پڑے ۔
” وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللَّہُ بِبَدْرٍ وَ اٴَنْتُمْ اٴَذِلَّةٌ ۔ “
جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ آیات مسلمانوں کے جذبے کو تقویت دینے کے لئے نازل ہوئےں اور ان میں پہلے مسلمان کی میدان ۱ #
بدر کی کامیابی طرف اشارہ کیا گیا تا کہ اس کے ذکر سے ان کے دلوں میں آئندہ کے لئے جوش و جذبہ بڑھ جائے ۔ ارشاد ہو ہے کہ خدا نے تمہیں بدر میں کامیابی سے سرفراز فرمایا جب کہ تم دشمن کی بنسبت کمزور تھے تو تعداد اور جنگی ساز و سامان کے لحاظ سے تمہارا اور دشمن کا کوئی تقابل ہی نہ تھا (تمہاری تعداد ۳۱۳ اور بہت کم ساز و سامان تھا جب کہ مشرکین کے پاس بہت زیادہ سامان تھا اور ان کی تعداد ایک ہزار سے زیدہ تھی ) ان حالات میں تم خدا سے ڈرو اور اپنے پیشوا (پیغمبر اکرم ) کی حکم عدولی کو نہ دہراوٴ تاکہ اس طرح سے اس کی گونا گوں نعمات کا شکر بجا لاوٴ ( فَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ )۔
”إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنینَ اٴَ لَنْ یَکْفِیَکُمْ اٴَنْ یُمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِکَةِ ۔۔۔۔۔ ۔“
بعد از آں میدان بدر میں فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کرنے کے واقعہ کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اس دن کو فراموش نہ کرو جب پیغمبر نے تم سے کہا تھا کہ کیا تمہاری مدد کے لئے تین ہزار فرشتے کافی نہیں ہیں ۔
” بَلی إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا وَ یَاٴْتُوکُمْ مِنْ فَوْرِہِمْ ۱ # ہذا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ۔۔۔۔۔ ۔“
۱ #۔” فور “ کا صلی معنیٰ ہے دیگ وغیرہ کا جوش اور ابال ۔ اسی منا سبت سے تیزی سے انجام پذیر ہونے والے کاموں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے یعنی جیسے دیگ میں ابال سے کھانے والی چیز تیزی سے اوپر نیچے آتی ہے یہ کام بھی اسی طرح انجام پذیر ہوا ہے ۔
ہاں ! اگر آج بھی پائداری اور استقامت کا مظاہرہ کرو ، قریش کے مقابلہ میں نکلو، تقوی ٰ و پرہیزگاری اختیار کرو اور گذشتہ کی طرح فرمان رسول کی مخالفت نہ کرو تو اس صورتحال میں اگر مشرکین تیزی کے ساتھ تمہاری طرف پلٹ آئیں تو خدا پانچ ہزار مخصوص نشانیوں والے فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا ۔
”وَ ما جَعَلَہُ اللَّہُ إِلاَّ بُشْری لَکُمْ وَ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُکُمْ بِہِ وَ مَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ ۔۔۔۔۔۔۔۔“
لیکن یہ بات یاد رہے کہ تمہاری مدد کے لئے ملائکہ کی آمد تو صرف تمہاری تشویق ، اطمینان قلب اور تقویت جذبہ کے لئے ہے۔ ورنہ کامیابی تو سرف خدا کی طرف سے ہے جو ہر چیز پر قادر ہے اور تمام کاموں میں اس کی حکمت کار فرما ہے ۔ وہ کامیابی کے راستے بھی جانتا ہے اور اسے جاری کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔
” لِیَقْطَعَ طَرَفاً مِنَ الَّذینَ کَفَرُوا اٴَوْ یَکْبِتَہُمْ فَیَنْقَلِبُوا خائِبینَ ۔“
اگر چہ مفسرین حضرات اس آیت کی تفسیر میں اختلافات کے شکار ہیں لیکن اگر سابقہ آیات کی طرح خود آیات اور موجودہ تاریخ سے مدد لی جائے تو اس آیت کی تفسیر بھی واضح ہوتی ہے ۔ ارشاد خدا وندی ہے کہ یہ جو دشمن سے نئی جنگ کرنے کی صورت میں فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کا وعدہ کیا گیا ہے یہ اس بناء پر ہے کہ لشکر مشرکین کے حصہ کو قطع کر دے اور انہیں ذلت کے ساتھ پلٹا دے ۔ آیت میں ” طرف “ کا معنی ٹکڑا ہے اور ”یکبتھم“کبت سے ہے جس کے معنی کسی کو زبر دستی اور ذلیل کر کے واپس کرنے کے ہیں۔
اس مقام پر فرشتوں کا مسلمانوں کی مدد کرنا ، اس کی کیفیت اور اس کی ضرورت کے سلسلہ میں چند سوالات ہو سکتے ہیں جن کا جواب شرح و بسط کے ساتھ سورہٴ انفال آیت ۷ تا ۱۲ کے ذیل میں پیش کیا جائے گا ۔

 ۱۲۸۔ لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاٴَمْرِ شَیْء ٌ اٴَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ اٴَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظالِمُونَ ۔
ترجمہ
۱۲۸۔ کسی قسم کا ختیار (کفار اور جنگ سے فرار کرنے والے مسلمانوں کے فیصلہ کے بارے میں) تمہیں نہیں ہے مگر یہ کہ خدا چاہے کہ انہیں در گذر کردے یا سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں ۔


۱ #۔”بدر “ ایک شحص کا نام تھا ۔ وہ مکہ و مدینہ کے درمیانی علاقہ میں رہتا تھا ۔ اس کا ایک کنواں تھا ۔ اسی کے نام سے اس علاقے کا نام بھی ” بدر “ ہو گیا لغوی لحاظ سے ”بدر “ ” پر “ اور ” کامل “ کو کہتے ہیں ، اسی لئے چودھویں کے چاند کو بھی بدر کہتے ہیں ۔ 
یہ گروہ کیسے فلاح پائے گاکون پکارا کہ محمد قتل ہو گئے ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma