وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اٴُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ۔
امت اصل میں مادہ ” ام “ سے ہے جس کا معنی ہر وہ چیز جس کا دووسری چیزیں ضمیمہ ہوں ۔ اسی بناپر ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے جن کے درمیان وحدت کا پہلو ہو ۔ اس میں فرق نہیں کہ وحدت زمانی ہویا مکانی یا مقصد میں وحدت ہو، لہٰذا متفرق اور پراکندہ اشخاص کو امت نہیں کہا جاسکتا ۔
گذشتہ آیات اخوت و وحدت کے بارے میں ہیں ۔ اب اس آیت میں امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر کی طرف اشارہ کیا گیاہے جو حقیقت میں ایک اجتماعی زرہ کے مانند ہے اور جو جمیعت کی حفاظت کرتی ہے ۔ کیونکہ اگر امر بال معروف اور نہی عن المنکرنہ ہو تو مختلف عوامل جو ” اجتماعی وحدت“ کی بقا ء کے دشمن ہیں دیمک کی طرف اندر سے معاشرے کی جڑوں کو کھاتے رہتے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیتے ہیں ۔ اسی لئے وحدتِ اجتماعی کی حفاظت عوام کی نگرانی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
آیت بالا میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان ایک ایسا گروہ ہونا چاہئیے جو ان دو اجتماعی عظیم ذمہ داریوں کو انجام دے ۔
لوگوں کو نیکی کی دعوت دے اور برائیوں سے منع کرے اور آیت کے آخری حسے میں با قاعدہ تصریح ہوئی ہے کہ فلاح و نجات صرف اسی راستے سے ممکن ہے ۔