آیات قرآنی کا مسلمانوں کے دلوں پر اثر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
ابتداء میں یہ تمام اشیاء بنی اسرائیل کے لئے حلا ل و جائز تھیں سوائے ایمان کی ایک نشانی

قرآن کریم کی آیات کا مسلمانوں کے دلوں پر اتنا گہرا اثر ہوتا تھا کہ آیات کے نازل ہوتے ہی ان کے اثرات ظاہر ہوجاتے تھے ۔
اسی ضمن میں مذکورہ آیت کے متعلق تواریخ اور اسلام تفسیروں میں یہ واقعات لکھے گئے ہیں :
۱۔ ایک صحابیٴ رسول ابو طلحہ انصاری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ مدینہ منّورہ میں اس کا کھجوروں کا ایک بہت ہی صاف ستھرا اور خوبصورت باغ تھا۔
پورے مدینہ میں اس کا چرچا تھا ۔اس باغ میں صاف و شفاف پانی کا ایک چشمہ تھا ۔ جس وقت پیغمبر اکرم اس باغ میں تشریف لاتے تو وہ پانی نوش فرماتے اور اس سے چلو بھر تے ۔ ان تمام خصوصیات کے علاوہ ابو طلحہ اس سے بہت زیادہ آمدنی حاصل کرتا تھا ۔
اس آیت بر کے نزول کے بعد وہ آنحضرت کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ میرے اموال میں سے میرے نزدیک زیادہ محبوب صرف یہی باغ ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے راہ خدا میں خرچ کردوں تاکہ یہ میرے لئے توشہٴ اخرت بنے یہ سن کر آپ نے ارشاد فرمایا:
’بَخٍ بَخٍ لَکَ مَالٌ رابحٌ لک۔“
آفرین ۔ آفرین تمجھ پر یہ ایسی ثروت ہے کہ جو تیرے لئے نفع مند ہوگی۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا میرا مشورہ ہے کہ اسے اپنے رشتہ داروں کو دے دو ۔ ابو طلحہ نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردیا۔۱#
۲۔ ایک دن ابو ذر کے ہاں مہمان آیا ابوذر انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے ۔ انہوں نے مہمان سے معذرت طلب کی کہ میں اپنی ابتلاء کی وجہ سے خود تیری پذیرائی نہیں کرسکتا۔ میرے چند اونٹ فلاں مقام پر موجود ہیں زحمت کرکے ان میں سے ایک بہترین اونٹ لے آوٴ (تاکہ اسے تمہارے لئے نحر کردوں )۔ وہ ایک کمزور اونٹ لے آیا ۔ جناب ابو ذر نے اس سے کہا کہ تونے میرے ساتھ خیانت کی، یہ اونٹ کس لئے لے کر آئے ہو ؟ اس نے جواب میں یہ سوچا کہ دوسرے اونٹ کی کبھی آپ کو ضرورت پڑ جائے گی ۔ تو ابوذر نے کہا کہ مجھے ان کی اس وقت کے لئے ضرورت ہے جب میری آنکھیں اس جہان فانی سے بند ہوں گی) کیا ہی اچھا ہے کہ اس دن کے لئے سامان کرلوں)۔
خدا فرماتا ہے کہ :
” لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ “
۳۔ ہارون رشید کی زوجہ کے پاس قرآن مجید کا ایک بہترین قیمتی نسخة تھا جو جواہرات سے مزین و مرصّع تھا اور وہ اس کو بہت پسند کرتی تھی۔ ایک روز قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت ” لن تناالبر ...“پر پہنچی تو آیت پڑھتے ہیں وہ درطہٴ معیرت میں پڑ گئی اور اپنے دل میں خیال کر نے لگی کہ اس قرآن مجید سے میرے نزدیک کوئی چیز بہتر نہیں ہے لہٰذا اسے راہ خدا میں خرچ کرنا چاہئیے اس نے جواہر فروشوں کو بلواکر اس کی زیب و زینت کی چیزیں اور جواہرات فورخت کردئے اور ان کی قیمت سے مجاز کے بیابانوں میں بادیہ نشینوں کے لئے پانی مہیا کیا۔
کہا جاتاہے کہ آج بھی ان میں سے کچھ کنویں موجود ہیں اور اسی کے نام سے منسوب ہیں ۔

۹۳۔ کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِبَنِی إِسْرَائِیلَ إِلاَّ مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَی نَفْسِہِ مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَاٴْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوھَا إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ۔
۹۴۔ فَمَنْ افْتَرَی عَلَی اللهِ الکَذِبَ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ فَاٴُوْلَئِکَ ھُمْ الظَّالِمُونَ۔
۹۵۔ قُلْ صَدَقَ اللهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ۔
ترجمہ
۹۳۔تمام ( پاک ) غذائیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں سوائے ان کے جنہیں اسرائیل ( یعقوب ) نے تورات کے نزول سے پہلے اپنے لئے حرام قرار دیا تھا

( مثال کے طور پر اونٹ کو گوشت جو ان کے لئے ضرر رساں تھا)ان سے کہوتم (اپنے اعتراض میں ) سچّے ہو تو لاوٴ تورات اور اسے پڑھو( یہ غلط باتیںجو تم گذشتہ انبیاء کی طرف منسوب کرتے ہو تمہاری تحریف شدہ تورات میں بھی نہیں ہیں ۔ (مجمع البیان جلد ۲ صفحہ ۴۷۴۔)
۹۴۔اس کے بعد بھی جو اپنی گھڑی ہوئی جھوٹی باتیں خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں ( اور وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں ) وہی در حقیقت ظالم ہیں ۔
۹۵۔کہہ دو ، اللہ نے سچ فرمایا ( اور یہ ابراہیم کے پاک دین میں نہیں تھا )لہٰذا تم یکسو ہو کر ابراہیم ابراہیم کے آئین کی پیروی کرو جو حق پسند تھے اور یقینا ابراہیم شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے ۔

 

شان نزول

مفسرین کے اقوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودیوں نے پیغمبر اکرم پر خصوصیت کے ساتھ دو اعتراض کئے تھے:
۱۔ پیغمبر اسلام نے اونٹ کے گوشت اور دودھ کو حرام کیوں نہیں قرار دیا جبکہ یہ نہ صرف ابراہیم (ع) بلکہ حضرت نوح(ع) کے دین میں بھی حرام تھے اور ان کی پیروی کرتے ہوئے یہودی بھی اسے حرام سمجھتے تھے ۔
۲۔ رسول اکرم کیونکر گذشتہ انبیاء خصوصاً حضرت ابراہیم (ع) کے وفا دار ہوسکتے ہیں حالانکہ تمام پیغمبر بیت المقدس کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کی طرف نماز پرھتے تھے ۔ لیکن ختمی مرتبت نے اس کی بجائے کعبہ کو قبلہ بنا لیا ۔
مندرجہ بالا آیات میں ان کی پہلی بات کا جواب دیا گیا ہے اور آئندہ آیات ان کے دوسرے اعتراض کا جواب دیں گی ۔

 


۱# مجمع البیان ، صحیح مسلم و بخاری۔
 
ابتداء میں یہ تمام اشیاء بنی اسرائیل کے لئے حلا ل و جائز تھیں سوائے ایمان کی ایک نشانی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma