چند مزید نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
یہ میری صراط مستقیم ہےچند اہم نکات

چند مزید نکات

۱۔ ”جاء بہ“ سے مراد: گزشتہ جملے کے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ کلمہ ”جاء بہ“ سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے نیک یا بد عمل کو اپنے ہمراہ لائے گا، یعنی جب بندہ عدل الٰہی کی عدالت میں آئے گا تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ خالی ہاتھ اور تنہا آئے بلکہ اپنے عقیدہ اور نیک عمل لائے گا یا غلط عقیدہ اور عمل بد کے ساتھ آئے گا یہ ہر حالت میں اس کے ساتھ اس عقیدہ سے جدا نہ ہوں گے اور آخرت کی ابدی زندگی میں اس کے ساتھی اور ہمدم ہوں گے ۔
قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی یہ تعبیر اسی معنی میں نظر آتی ہے، چنانچہ سورہٴ ق کی آیت ۳۳ میں ہم پڑھتے ہیں:
<مَنْ خَشِیَ الرَّحْمَانَ بِالْغَیْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِیبٍ
”بہشت ان لوگوں کے لئے ہے جو خدا کو ایمان بالغیب کے ذریعہ پہچانیں اور اس سے ڈریں اور توبہ کرنے والا دل جو احساس فرض سے بھرا ہوا ہوبروزِ محشر اپنے ساتھ لے کر آئیں “
۲۔ جزا کے مختلف درجے : مذکورہ آیت میں ہم نے پڑھا کہ ”حسنہ“ کی جزا دس گُنا ہے حالانکہ قرآن کی بعض دوسری آیتوں میں صرف ”اضعافاً کثیرہ“ (بہت زیادہ بڑھ چڑھ کر) پر اکتفا کی گئی ہے (جیسے سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۴۵) نیز بعض دوسری آیتوں میں راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کا بدلہ سات سو ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بیان کیا گیا ہے جیسے (آیت ۲۶۱ سورہٴ بقرہ) ایک آیت میں تو اجر وجزا کو الله تعالیٰ نے بے حساب فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
<اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ اَجْرَہُم بِغَیرِ حِسَابٍ
”وہ لوگ جن کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی ان کو بے حساب اجر دیاجائے گا“(سورہٴ زمر/۱۰)
یہ بات واضح ہے کہ ان تین آیتوں میں کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے، واقعہ یہ ہے کہ نیکو کاروں کو کم ازکم جو اجر ملے گا وہ دس برابر ہوگا، پھر اس کے بعد اہمیتِ عمل ، درجہٴ اخلاص، اس عمل کے کرنے میں جو زحمتیں اٹھانا پڑی ہیں اور جو کوششیں اس نیک کام کے کرنے میں کی ہیں ان سب کا لحاظ کیا جائے گا اور اسی اعتبار سے اجر میں اضافہ ہوتا جائے گا یہاں تک کہ بندے کا یہ اجر اتنا بڑھ جائے گا کہ حساب کتاب کی سرحد سے گزر جائے گا اور سوائے خدا کے کسی کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ وہ کتنا ہے ۔
مثلاً انفاق (راہ خدامیں خرچ کرنا)جس کی اسلام میں بہت اہمیت بیان کی گئی ہے، اس کا اجر عملِ خیر کے معمولی اجر (دس گُنا) سے بڑھ گیا اور ”اضعافاً کثیرہ“ یا ”سات سوگُنا“ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر قرار دیا گیا ہے اور ”استقامت“ (ثبات قدمی) کہ جو تمام کامیابیوں اور خوش بختیوں کی جڑ ہے اور کوئی عمل نیک اس کے بغیر پورا نہیں ہوسکے گا، اس کا اجر وثواب بے حساب مذکور ہوا ہے ۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر بعض روایات میں نیک اعمال کے لئے اجر وثواب دس گنا سے زیادہ بیان کیا گیا ہے تو یہ مذکورہ آیت(مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ عَشْرُ اٴَمْثَالِھَا)کے مخالف ہے ۔
اسی طرح سورہٴ قصص کی آیت ۸۴ میں جو ہم پڑھتے ہیں:
<مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ خَیْرٌ مِنْھَا
”جو عمل نیک کرے گا اسے اس سے بہتر صلہ ملے گا“
یہ آیت بھی مذکورہ بالا آیت سے اختلاف نہیں رکھتی کہ اس میں نسخ کا احتمال پیدا ہو، کیونکہ لفظ ”بہتر“ کے ایک وسیع معنی ہیں جو (دس گنا)پر صادق آتے ہیں ۔
۳۔ ویسی ہی سزا کا مفہوم: ممکن ہے بعض افراد یہ خیال کریں کہ ماہ رمضان کے روزہ کو عمداً ترک کرنے کاکفارہ ساٹھ روزے قرار دیا گیا ہے اور اسی طرح کی دیگر سزائیں جو کئی گنا بڑھ چڑھ کر دنیا وآخرت میں مجرموں کو دی جائیںگی، یہ مذکورہ بالا آیت (وَمَنْ جَاءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَایُجْزیٰ إِلاَّ مِثْلَھَا)کے منافی ہے ۔
لیکن اگر ایک نکتے کی طرف توجہ کی جائے تو اس بات کا بھی جواب مل جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ:
مذکورہ آیت (مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ  ....)میں جس مساوات (برابری) کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد مساوات عددی نہیں ہے بہ این معنی کہ اگر ایک گناہ کیا ہے تو ایک تازیانہ مارا جائے گا دو گناہ کیا ہے تو دو تازیانے، بلکہ کیفیت عمل کا لحاظ کرنا چاہیے، ماہ رمضان کے ایک روزہ کو ترک کردینا جبکہ اس کی اتنی اہمیت بیان کی گئی ہے،اس کی سزا صرف ایک روز کا روزہ نہیں ہوگا، بلکہ چھوڑنے والا اتنے پے در پے روزے رکھے کہ وہ ماہ مبارک رمضان کے روزے کے برابر ہوجائے، یہی وجہ ہے کہ ہم بعض احادیث میں پڑھتے ہیں کہ ماہ رمضان میں گناہ کرنے کا عذاب بھی عام ایام سے زیادہ ہے، جس طرح کہ ثواب زیادہ ہے، یہاں تک کہ ماہ رمضان میں ثواب ختم قرآن، دوسرے ایام میں ختم کرنے سے ستر گناہ زیادہ ہے ۔
۴۔نہایت لطف و کرم : ایک اور جالب نظر نکتہ یہ ہے کہ آیہ بالا خداوند کریم کے نہایت لطف و کرم کو بیان کررہی ہے جو اس نے اس بندہ ناچیز کے حال پر کیا ہے ۔
کیا کوئی ایسی ہستی ہے جو کام کرنے کے تمام آلات و اوزار انسان کو دے دے، ہر طرح کی آگاہی و علم بھی اسے عطا کرے، معصوم رہبر بھی اس کی ہدایت کے لئے بھیجے، تاکہ انسان خدا داد قوت و طاقت سے اور اسی کے فرستادہ رہبروں کی رہنمائی سے کوئی نیک کام انجام دے، پھر اس کے بعد اس عمل کا دس گناہ بدلہ بھی عطا کرے لیکن اس سے جو لغزشین اور خطائیں ہوں ان پر سزا دے وہ برابر کی ہو، علاوہ براین اس کے لئے راہ توبہ اور عذر خواہی بھی ہمیشہ کے لئے کھلی ہوئی ہو، یعنی اگر تو بہ کرے تو پھر کوئی سزا نہ ملے ۔
حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ صادق مصدق (یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ عیہ و آلہ  و سلم) نے فرمایا:
”ان اللّٰہ تعالی قال الحسنة عشرا و ازید و السیئة واحدة او اغفر فالویل لمن غلبت احادہ اعشارہ“۔
اللہ تعالے فرماتا ہے کہ نیک کاموں کا دس گنا بدلہ دوں گا یا اس سے زیادہ، اور بُرے کام کا ایک ہی بدلہ دوں گا، پس وائے ہو اس پر جس اکائیں اس کی دہائیوں پر غالب آجائیں (یعنی اس کے گناہ اطاعتوں سے سوا ہوجائیں) ۔ (1)

۱۶۱ قُلْ إِنَّنِی ھَدَانِی رَبِّی إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ دِینًا قِیَمًا مِلَّةَ إِبْرَاھِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ-
۱۶۲ قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَای وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ-
۱۶۳ لَاشَرِیکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ اٴُمِرْتُ وَاٴَنَا اٴَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ-
ترجمہ
۱۶۱۔(اے ہمارے نبی) کہہ دیجئے: میرے رب نے مجھے راہ راست کی ہدایت کی ہے (وہ راہ راست جو) ایک مضبوط اور ثابت رہنے والا آئیں ہے یہ اس ابراہیم کا آئیں ہے جس نے اپنے ماحول کے تمام خرافاتی آئینوں سے روگردانی کی تھی اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے ۔
۱۶۲۔ کہہ دیجئے: میری نماز، میری تمام عبادتیں، میری زندگی، میری موت، یہ سب تمام جہانوں گے پالنے والے کے لئے ہے ۔
۱۶۳۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی طرف سے مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں ۔
تفسیر


1۔ تفسیر ممجمع البیان جلد ۴ ص۳۹۰۔
 
یہ میری صراط مستقیم ہےچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma