چند قابل توجہ نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
پیغمبر مجبور نہیں کرتےتمام چیزوں کا خالق وہی ہے

چند قابل توجہ نکات

 

۱۔ آنکھیں خدا کو نہیں دیکھ سکتیں :عقلی دلائل گواہی دیتے ہیں کہ خدا کو آنکھوں کے ساتھ ہرگز نہیں دیکھا جاسکتا، کیون کہ آنکھیں صرف اجسام کو یا زیادہ صحیح طور یہ کہ وہ ان کی بعض کیفیات کو ہی دیکھ سکتی ہے اور وہ چیز کہ جو نہ جسم ہے اور نہ ہی جسم کی کوئی کیفیت، ہرگز آنکھ سے نظر نہیں آسکتی، دوسرے الفاظ میں اگر کوئی چیز آنکھ سے دیکھی جاسکے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی مکان میں ہو اور کسی جہت میں ہو اور ماسدہ رکھتی ہو جب کہ وہ ان تمام باتوں سے(پاک اور ) برتر ہے، وہ ایک ایسا وجودہے کہ جا نامحدود ہے اور وہ اسی دلیل سے جہاں مادہ سے بالاتر ہے، کیوںکہ جہاں مادہ میں تمام چیزیں محدود ہیں۔
قرآن کی بہت سی آیات میں جن سے وہ آیات ہیں کہ جو بنی اسرائیل کے بارے میں ہیں، اور ان کی طرف سے خدا وند تعالی کی رویت کا تقاضا کرنے کے متعلق گفتگو کرتی ہے، وہ کامل صراح کے ساتھ خدا کی رویت کے امکان کی نفی کرتی ہیں( جیسا کہ انشااللہ اس کی تفصیل سورہٴ اعراف کی آیہ ۱۴۳ کی تفسیر میں آئے گی ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ بہت سے اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا اگر اس جہاں میں نظر نہ آئے تو عالم قیامت میں اس کا دیدار ہوسکے گا، تفسیر المنار کے موٴلف کے بقول :
”ھذا مذاھب اھل السنة والعالم بالحدیث“
”یہ عقیدہ اہل سنت اور علماء حدیث کا ہے“۔(1)
اور اس کے بھی بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ محققین معاصرتک بھی یعنی ان کے روشن فکر حضرات بھی اسی نظریہ کی طرف مائل نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات تو وہ بڑی سختی کے اس عقیدہ پر جم جاتے ہیں۔
حالانکہ اس عقیدہ کا باطل ہونا اس قدر واضح ہے کہ بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیوںکہ دنیا وآخرت میں (معاد جسمانی کی طرف توجہ کرتے ہوئے) اس مسئلہ میں کوئی فرق نہیں، کیا وہ خدا جو ایک مافوق مادہ وجود ہے قیامت کے دن ایک مادی وجود میں تبدیل ہوجائے گا؟اور اس نامحدود مقام سے محدود مقام میں تبدیل ہوجائے گا؟ کیا وہ اس دن جسم یا عوارض جسم میں بدل جائے گا؟ کیا خدا کی رویت کے عدم امکان کے بارے میں دلائل عقلی دنیا وآخرت کے درمیان کسی قسم کا کوئی فرق ظاہر کرتے ہیں؟درانحالیکہ عقل کا فیصلہ اس بارے میں ناقابل تبدیل ہے۔
اور یہ عذر جو ان میں سے بعض نے اختیار کیا ہے کہ ممکن ہے کہ انسان دوسرے جہان میں ایک دوسرا ادراک اور نظر پیدا کرلے، ایک ایسا عذر ہے کہ جو کامل طور پر بلا دلیل ہے کیوں کہ اگر اس ادراک ونظر سے مراد فکری وعقلی نظر ہے ، تو وہ تو اس جہان میں وجود رکھتی ہے اور دل کی آنکھ اور عقل کی قوت سے خدا کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور اگر اس سے مراد کوئی ایسی چیز ہے کہ جس سے جسم کو دیکھا جاسکتا ہے تو ایسی چیز خدا کے بارے میں محال ہے چاہے وہ اس دنیا میں ہو یا دوسرے جہان میں، اس بنا ہر مذکورہ گفتگو کہ انسان اس جہان میں تو خدا کو نہیں دیکھتا ، لیکن مومنین قامت کے دن خدا کو دیکھیں گے، ایک غیر منطقی اور ناقابل قبول گفتگو ہے،غالبا تنہا ایک چیز جو اس بات کا سبب بنی ہے کہ جو اس عقیدہ کا دفاع کرے، یہ ہے کہ کچھ احادیث میں ان کی معروف کتابوں میں نقل ہوئی ہیں، قیامت میں خدا کی رویت کا امکان بیان ہوا ہےم لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ عقل کے فیصلہ کی رو سے اس موضوع کے باطل ہونے کو ان روایات کے جعلی ہونے اور ان کتابوں کے غیر معتبر ہونے کی دلیل سمجھیں کہ جن میں اس قسم کی روایات بیان کی نقل کی گئی ہیں، سوائے اس صورت کہ ان روایات کا معنی دل کی آنکھ سے مشاہدہ کرنا ہو ؟کیا یہ صحیح ہے کہ اس قسم کی احادیث کی وجہ سے عقل وخرد کے فیصلہ کو چھوڑ دیں اور اگر قرآن کی بعض آیات میں ایسی تعبیرات موجود ہیں جن سے ابتدائی نظر میں رویت خدا کے مسئلہ کا اظہار ہوتا ہے جیسے :
”وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ ، إِلَی رَبِّھَا نَاظِرَةٌ“
”اس دن کچھ چہرے پر تراوت اور پررونق ہوں گے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف دیکھ رہے ہوں گے“(2)
یہ تعبیرات ایسی ہے جیسے :
”یَدُ اللّٰہ فَوقَ اَیدِیْھِمْ“
”خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے“۔(3)
یہ تعبیرات کنایہ کا پہلو رکھتی ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کی کوئی آیت کبھی بھی عقل خرد کے حکم وفرمان کے خلاف نہیں ہوسکتی ۔
قابل وجہ بات یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں اس فضول عقیدہ کی شدت کے ساتھ نفی کی گئی ہے اور ایسے عقائد رکھنے والوں پر دنداں شکن تعبیرات کے ساتھ تنقید کی گئی ہے، منجملہ ان کے امام صادق علیہ السلام کے مشہور اصحاب میں سے ایک صحابی جن کانام ہشام ہے، فرماتے ہیں:
میں امام صادق - کے پاس موجود تھا کی معاویہ بن وہاب (آپ کے ایک اور صحابی) وارد ہوئے اور کہنے لگے :اے فرزند رسول! آپ اس حدیث کے متعلق کیا فرماتے ہیں کہ جو رسول خدا کے بارے میں وارد ہوئی ہے کہ انھوں نے خدا کودیکھا؟ تو آپ نے خداکو کس طرح دیکھا؟ اور اسی طرح ایک دوسری حدیث کے بارے میں کہ جو آنحضرت سے نقل ہوئی ہے کہ مومنین بہشت اپنے پروردگار کو دیکھیں گے، تو وہ کس طرح دیکھے گے؟۔
امام صادق علیہ السلام نے ایک (تلخ) تبسم کیا اور فرمایا: اے معاویہ بن وہاب! یہ بات کتنی بری ہے کہ انسان ستر اسی سال عمر گزرے خدا کے ملک میں زندگی بسر کرے اور اس کی نعمت کھاتا رہے اور اس کو صحیح طرح سے نہ پہچانے، اے معاویہ ! پیغمبر نے ہرگز خدا کو اس آنکھ سے نہیں دیکھا، مشاہدہ دو قسم کا ہوتا ہے ایک دل کی آنکھ سے دیکھنا اور (دوسرے) ظاہری آنکھوں سے دیکھنا، جو شخص دل کی آنکھ سے مشاہدہ کی بات کہتا ہے وہ تو صحیح کہتا ہے اور جو شخص ظاہری آنکھ سے خدا کے مشاہدہ کی بات کرتا وہ جھوٹ بولتا ہے اور خدا اوراس کی آیات کا کافر ومنکر ہے، کیوں کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا ہے کہ جو شخص خدا کو مخلوق کے مشابہ سمجھے وہ کافر ہے۔(4)
ایک اور روایت توحید صدوق میں اسماعیل بن فضل سے منقول ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا خدا قیامت کے دن نظر آئے گا؟ آپ - نے فرمایا:
خداوندا ایسی چیز سے منزہ ہے ، اور بہت ہی منزہ ہے ---(انّ الابصار لاتدرک الامالون ولکیفیة واللّٰہ خالق الالوان والکیفیات)آنکھیں نہیں دیکھتی مگر ایسی چیزوں کو کہ جو رنگ وکیفیت رکھتی ہیں جب کہ خدا رنگوں اور کیفیتوں کا خالق ہے۔(5)
توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس حدیث میں خصوصیت کے ساتھ ”لون“(رنگ) کا ذکر کیا گیا ہے اور آج کی دنیا میں ہم پر یہ مطلب واضح ہوچکا ہے کہ خود جسم نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کا رنگ دیکھا جاتا ہے، اور اگر کوئی جسم کسی قسم کارنگ نہیں رکھتا ہو تو وہ ہرگز دیکھا نہیں جائے گا(تفسیر نمونہ کی پہلی جلد میں سورہٴ بقرہ کی آیہ ۴۶کے ذیل میں بھی ہم اس سلسلہ میں ایک بحث کرچکے ہیں۔(6)
۱۲ ۲---۔ خدا ہی تمام چیزوں کا خالق ہے:بعض مفسرین اہل سنت نے جو عقیدہ کے لحاظ مذہب جبر کے قائل ہیں اوپروالی آیت کے ساتھ جو خدا نے تمام چیزوں کے خالق ہونے کو بیان کرتی ہے مسلک جبر پر استدلال کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال وافعال بھی اس جہاں کی اشیاء میں سے ہیں، کیوں کہ” شیء“ (چیز) ہر قسم کے وجود کو کہاجاتا ہے خواہ وہ مادی ہو یا غیر مادی، خواہ ذات ہو یا صفت، اس بنا پر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا ہر چیز کا خالق ہے تو ہمیں قبول کرنا چاہیے کہ وہ ہمارے افعال کا بھی خالق اور یہ جبر کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔
لیکن آزادیٴ ارادہ واختیار کے طرفدار اس قسم کے استدلال کا روشن اور واضح جواب رکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا وند تعالی کی خالقیت ہمارے افعال کے بارے میں بھی ہمارے مختار ہونے کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں رکھتی، کیوں کہ ہمارے افعال کو ہماری طرف بھی منسوب کیا جاسکتا ہے اور خدا کی طرف بھی ، اگر ہم ان کی خدا کی طرف نسبت دیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے اس کام کے تمام مقدمات ہمارے اختیار میں دے دئے ہیں، وہی ذات ہے جس نے ہمیں قدرت وطاقت اور ارادہ واختیار دیا ہے، اس بنا پر چونکہ تمام مقدمات اسی کی طرف سے ہیں لہٰذا ہمارے اعمال اس کی طرف بھی منسوب کئے جاسکتے ہیں اور اسے ان کا خالق جان سکتے ہیں، لیکن اس نظر سے کہ آخری ارادہ ہماری ہی طرف سے ہے ، وہ ہم ہی ہیں کہ جو خدا کی دی ہوئی قدرت واختیار سے استفادہ کرتے ہیں اور فعل یا ترک میں سے کسی ایک کا انتخاب ہم ہی کرتے ہیں تو اس سبب سے افعال کی نسبت ہماری طرف دی جاتی ہے اور ہم ان کے لئے جوابدہ ہیں ۔
فلسفی تعبیر کے مطابق یہاں دوخالق اور دوعلتیں ایک دوسرے کے عرض میں نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسرے کے طول میں ہیں، دوعلت تامہ کا ایک ہی عرض میں ہوناکوئی مفہوم نہیں رکھتا، لیکن اگر طولی ہوں تو کوئی مانع نہیں ہے ، چونکہ ہمارے افعال ان مقدمات کا لازمہ ہیں جو خدا نے ہمیں دئے ہیں، تو ان لوازم کی اس کی طرف بھی نسبت دی جاسکتی ہے اور اس شخص کی طرف بھی کہ جس نے افعا ل کو انجام دیا ہے ۔
اس گفتگو کی مثال ٹھیک اس طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنے کارندوں کو آزمانے کے لئے انھیں اپنے کام میں آزاد چھوڑ دے، اور انھیں مکمل اختیار دیدے اور کام کے تمام مقدمات انھیں مہیا کردے، اب یہ بات ظاہر ہے کہ جو کام وہ انجام دیں گے اہک لحاظ سے ان کے سربراہ کا کام شمار ہوگا لیکن یہ امرکارندوں سے آزادی واختیار کو سلب نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنے کام کے بارے میں جوابدہ ہیں، عقیدہ جبر واختیار کے بارے میں ہم انشاء اللہ متعلقہ آیات کے ذیل میں بحث کریں گے۔(7)
یہاں بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں آجائے، ہم سورہٴ بقرہ کی آیت ۱۱۷ کے ذیل میں(جلد اول تفسیر نمونہ صفحہ ۱۱۲، اردوترجمہ پر) تفصیل سے اس سوال کے جواب میں بحث کرچکے ہیں ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ جو ہم یہ کہتے ہیں کہ تمام موجودات کوخداسے عدم سے وجود میں لایا ہے اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ”عدم“ وہ مادہ ہے کہ جو موجودات عالم کو تشکیل دینے والاہے، جس طرح سے ہم یہ کہتے ہیں کہ بڑھئی نے میز کو لکڑی سے بنایا ہے، ایسی چیز یقینا محال ہے، کیوں کہ عدم وجود کا مادہ نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس جہان کی یہ تمام موجودات پہلے موجود نہیں تھیں اس کے بعد وجود میں آئی ہیں، یہ امر کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں رکھتا، اور سلسلے میں ہم نے جلد اول میں بھی کچھ مثالیں بیان کی ہیں اور یہاں پر مزید بیان کرتے ہیں کہ ہم اپنے فکروذہن میں کچھ ایسی موجودات کو پیدا کرسکتے ہیں جو پہلے کسی صورت میں بھی ہمارے ذہن میں نہیں تھیں، اس میں شک نہیں کہ یہ ذہنی موجودات اپنے لئے ایک قس، کا وجود وہستی رکھتی ہے ، اگر وہ وجود خارجی کی طرح نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ ہمارے افق میں موجود نہیں ہوتی ہے، اگر کسی چیز کا وجود عدم کے بعد محال ہوتو وجود ذہنی اور وجود خارجی کے درمیان کیا فرق ہے اس بنا پر جس طرح ہم اپنے ذہن میں ایجاد وخلق کرلیتے ہیں جو پہلے موجود نہیں تھیں، خدا وند تعالی بھی عالم خارج میں ایسا ہی کام کرتا ہے، اس مثال اور ان مثالوں میں جو ہم جلد اول میں بیان کرچکے ہیں تھوڑا سا غور کرنے سے یہ مشکل حل ہوجاتی ہے۔
۴۔ لطیف کا معنی کیا ہے: اوپر والی آیات میں خدا وند تعالی کی صفات میں سے ایک صفت ”لطیف“ کا ذکر ہواہے اور وہ مادہ لطف سے ہے، جب وہ اجسام کے بارے میں استعمال ہوتووہ ہلکاہونے کے معنی میں ہے ، جو بوجھل کے مقابلہ میں ہے، اور جس وقت حرکات کے بارے میں (حرکت لطیفہ) استعمال ہوتو ایک چھوٹی سی جلد گزرجانے والی حرکت مراد ہوتی ہے، اور کبھی ایسے موجودات اور کاموں پر بھی جو بہت دقیق اور باریک ہوتے ہیں اور جو قوت حس سے قابل ادراک نہیں ہوتے یہ لفظ بولاجاتا ہے، اور اگر ہم خدا کی لطیف کے نام توصیف کرتے ہیں تو وہ بھی اسی معنی میں ہے یعنی وہ ایسی نظر نہ آنے والی اشیاء کا خالق اور ایسے افعال کا موجد ہے کہ جو قوت سماعت کے دائرے سے باہر ہے، بہت ہی باریک ہے اور حد سے زیادہ دقیق ہے۔
اس سلسلے میں ایک قابل توجہ حدیث فتح بن یزید جرجانی کے واسطے سے امام علی بن موسیٰ رضا - سے نقل ہوئی ہے جو ایک علمی معجزہ شمار ہوتی ہے حدیث اس طرح ہے کہ امام - فرماتے ہیں:
یہ جو ہم کہتے ہیں کہ خدا لطیف ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے لطیف مخلوقات کو پیدا کیا اور اس سبب سے ہے کہ وہ لطیف وظریف اور نظر نہ آنے والی اشیاء سے آگاہ ہے، کیا تم اس کی صنعت کے آثار کو لطیف وغیر لطیف نباتات میں دیکھتے نہیں ہو؟ اور اسی طرح چھوٹی چھوٹی مخلوقات وحیوانات اور باریک باریک حشرات اور ان چیزوں میں جوان سے بھی چھوٹی ہیں، ایسی موجودات کو کہ جو ہرگز آنکھوں سے دیکھی نہیں جاسکتی، اور اس قدر چھوٹی ہیں کہ ان کے نر مادہ اور نئے اور پرانے بھی پہچانے نہیں جاتے، جب ہم اس قسم کے موضوعات کا مشاہدہ کرتے ہیں ----اور جو کچھ گہرے سمندروں میں، اور درختوں کی چھال کے نیچے اور بیابانوں اور صحراؤں میں موجود ہے ان پر نظر کرتے ہیں----اور یہ کہ ایسی ایسی موجودات بھی ہیں کہ جنھیں ہرگز ہماری آنکھیں نہیں دیکھتی اور اپنے ہاتھوں سے انھیں ہم چھو بھی نہیں سکتے تو ان تمام چیزوں سے ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا پیدا کرنے والا لطیف ہے۔(8)
اوپر والی حدیث جو جراثیم اور خردبینی حیوانات کی طرف اشارہ ہے اور پاسٹور کی پیدائش سے کئی ْسدیون پہلے بیان ہوئی ہے لطیف کی تفسیر کو واضح کرتی ہے۔
اس لفظ کی تفسیر میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ خدا کے لطیف ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کی ذات پاک ایسی ہے جو ہرگز کسی کے بھی حس سے ادراک نہیں ہوسکتی اس بنا پر وہ لطیف ہے کیوں کہ کوئی شخص بھی اس کی ذات سے آگاہ نہیں ہے اور خبیر ہے چونکہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے، اس معنی کی طرف بھی بعض روایات اہل بیت علیہم السلام میں اشارہ ہوا ہے،(9)اور اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ اس لفظ کے دونوں ہی معنی مراد لینے میں بھی کوئی امرمانع نہیں ہے۔

۱۰۴ قَدْ جَائَکُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ اٴَبْصَرَ فَلِنَفْسِہِ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْہَا وَمَا اٴَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیظٍ
۱۰۵ وَکَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ وَلِیَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَیِّنَہُ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ
۱۰۶ اتَّبِعْ مَا اٴُوحِیَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ وَاٴَعْرِضْ عَنْ الْمُشْرِکِینَ
۱۰۷ وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا اٴَشْرَکُوا وَمَا جَعَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیظًا وَمَا اٴَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیلٍ
ترجمہ
۱۰۴۔تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے لئے واضح دلیلیں آئی ہیں، جو شخص (اس کے ذریعہ سے حق کو) دیکھے تو یہ اسی کے فائدہ میں ہے اور جو شخص ان کو دیکھنے سے آنکھیں بند کرلے تو خوداسی کا نقصان ہے اور میں تمھیں مجبور نہیں کرتا۔
۱۰۵۔اور ہم آیات کو اس طرح مختلف شکلوں میں بیان کرتے ہیں ، اور انھیں کہنے دو کہ تونے سبق پڑھا ہے(اور تونے ان کو کسی دوسرے سے سیکھا ہے) ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم علم آگاہی رکھنے والوں کے لئے اسے واضح کردیں۔
۱۰۶۔ جو کچھ تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ پر وہی ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے، اور مشرکین سے منہ پھیرلو۔
۱۰۷۔اگر خدا چاہتا (تو سب جبری طور پر ایمان لے آتے اور کوئی بھی) مشرک نہ ہوتا ، اور ہم نے تجھے ان کے اعمال کا جوابدہ قرار نہیں دیا، اور تیری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ انھیں(ایمان لانے پر) مجبور کرتے۔
تفسیر

 

 


 
1۔ تفسیر المنار، جلد۷، صفحہ ۶۵۳۔
2۔ قیامت:۲۳و ۲۴۔
3۔فتح:۱۰۔
4۔ معانی الاخباربنابہ نقل المیزان جلد۸ ، صفحہ ۲۶۸۔
5۔ نورالثقلین جلداول، صفحہ ۷۵۳۔
6۔ دیکھئے اردوترجمہ صفحہ ۱۸۳۔
7۔ کتاب” خدا راچگونہ بشاسیم“کی فصل جبر واختیار کی طرف بھی رجوع فرماسکتے ہیں۔
8۔ بدیع کا کیا معنی ہے: جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے کہ لفظ”بدیع“ کا معنی کسی چیز کو بغیر سابقہ کے وجود میں لانے والے کے ہیں ، یعنی خدا وندتعالی نے آسمان وزمین کو کسی پہلے سے موجود مادہ یا بنیاد یا نقشہ ومنصوبہ کے بغیر ایجاد کیا ہے۔
9۔اصول کافی، جلد اول صفحہ ۹۳-
10۔تفسیر برہان، جلد اول ، صفحہ۵۴۸-
 
پیغمبر مجبور نہیں کرتےتمام چیزوں کا خالق وہی ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma