خدانشناسان

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
یہ ایک بہت ہی بابرکت کتاب ہے تین اہم امتیاز

اس بارے میں کہ یہ آیت یہودیوں کے متعلق ہے یا مشرکین کے بارے میں، مفسرّین کے درمیان اختلاف ہے، لیکن اس لحاظ سے کہ پیغمبر اکرم کی مکہ میں یہود سے گفتگو اور ملاقات نہیں تھی اور جو کچھ اُن کے ساتھ معاملہ رہا وہ مدینہ میں تھا اور دوسری طرف یہ کہ سورہٴ انعام کہ یہ آیت جس کا جزء ہے مکی ہے، بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ آیت استثنائی طور پر مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور پیغمبر اکرم کے حکم سے کسی خاص مناسبت کی وجہ سے اس مکی سورہ کے وسط میں رکھی گئی ہے اور قرآن میں اس امر کے کئی نمونے موجود ہیں۔
حقیقت مطلب واضح ہونے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ آیت کی اجمالی تفسیر کو سمجھ لیں اور اس کے بعد اس بارے میں آیت کن لوگوں کے بارے میں گفتگو کررہی ہے اور اس کا ہدف و مقصد کیا ہے بحث کریں۔
آیت پہلے یہ کہتی ہے کہ: انھوں نے خدا کو جس طرح چاہیے اس طرح نہیں پہنچانا، کیونکہ انھوں نے یہ کہا ہے کہ خدا نے کوئی کتاب کسی انسان پر نازل نہیں کی ( وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہِ إِذْ قَالُوا مَا اٴَنزَلَ اللَّہُ عَلیٰ بَشَرٍ مِنْ شَیْءٍ)۔
خداوند تعالیٰ اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ تم اُن کے جواب میں یہ کہو کہ وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے اور جو لوگوں کے لیے نور وہدایت تھی وہ کس نے نازل کی تھی (قُلْ مَنْ اٴَنزَلَ الْکِتَابَ الَّذِی جَاءَ بِہِ مُوسَی نُورًا وَہُدًی لِلنَّاسِ)۔
وہی کتاب کہ جسے تم نے پرپراکندہ صفحات میں تبدیل کردیا ہے، اس کا کچھ حصّہ جو تمھارے مفاد میں ہے (لوگوں پر) ظاہر کرتے ہو اور اس کا بہت سا حصّہ جسے تم اپنے لیے مضر سمجھتے ہو (لوگوں سے) چھپاتے ہو (تَجْعَلُونَہُ قَرَاطِیسَ تُبْدُونَہَا وَتُخْفُونَ کَثِیرًا)۔
”اور اس آسمانی کتاب میں تمھیں ایسے مطالب کی تعلیم دی گئی ہے کہ جنھیں تم اور تمھارے آباؤ اجداد جانتے نہیں تھے اور خدائی تعلیم کے بغیر اُسے جان بھی نہیں سکتے تھے“ (وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا اٴَنْتُمْ وَلاَآبَاؤُکُمْ)۔
آیت کے آخر میں پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ: تم صرف خدا کو یاد کرو اور اُنھیں ان کی باطل باتوں، ہٹ دھرمی اور کھیل کود میں چھوڑدو کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے کتاب الٰہی اور اس کی آیات کو کھیل بنا رکھا ہے (قُلْ اللَّہُ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِی خَوْضِہِمْ یَلْعَبُونَ)۔
اب اگر یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہو اور روئے سخن یہودیوں کی طرف ہو تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ یہودیوں کی ایک جماعت تمام انبیاء پر آسمانی کتاب کے نزول کی منکر تھی تو کیا یہ ممکن ہے کہ یہودیوں اور تورات کی پیروی کرنے والے کتاب آسمانی کے نزول کا انکار کریں۔ جی ہاں! اگر آپ تعجب نہ کریں تو ایک خاص مطلب توجہ کرنے سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم کتب عہد جدید (اناجیل) اور کتب قدیم (تورات اور اس کے ساتھ وابستہ کتب) کا دقت نظر سے مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ان کتب میں سے کوئی بھی آسمانی لب ولہجہ نہیں رکھتی۔ یعنی خدا کے انسان سے گفتگو کرنے کا پہلو ان میں نہیں ہے، بلکہ ان سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کتابیں حضرت موسیٰ- اور حضرت عیسیٰ- کے شاگردوں اور غیر شاگرد پیروکاروں کی زبان سے تاریخ اور سیرت کی صورت میں لکھی گئی ہیں۔
اور ظاہراً موجودہ وقت کے یہودی اور عیسائی بھی اس مطلب کا انکار نہیں کرتے کیونکہ ان کتابوں میں حضرت موسی- اور حضرت عیسی- کی وفات کی داستان اور بہت سے ایسے واقعات جو ان کے بعد کے زمانے سے مربوط ہیں لکھے ہوئے ہیں یہ (واقعات) پیش گوئی کے طور پر نہیں بلکہ گزرے ہوئے زمانے کی ایک خبر کے طور پر ہیں۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ ایسی کتاب حضرت موسی- اور حضرت عیسی- پر نازل ہوئی ہو؟
زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ کتابیں چونکہ ایسے انسانوں کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہیں جو وحی آسمانی سے باخبر تھے لہٰذا یہ کتب مقدس، قابل اعتماد اور اشتباہ سے پاک ہیں۔
تو اس نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے وہ قرآن کے لب ولہجہ سے کہ جو خدا کے پیغمبر سے اور بندوں سے خطاب کی شکل میں ہے کیوں تعجب کرتے تھے؟ اور اُوپر والی شانِ نزول میں بھی ہم نے پڑھا ہے کہ انھوں نے تعجب کے ساتھ آپ سے پوچھا کہ کیا خدا نے آسمانی کتاب نازل کی ہے، اور پھر انھوں نے اس امر کا کلی طور پر انکار کیا ہے کہ کوئی کتاب خدا کی طرف کسی انسان پر حتّیٰ کہ موسی- پر بھی نازل ہوئی ہے۔
لیکن خدا ان کے جواب میں اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تم خود عقیدہ رکھتے ہوکہ الواح اور کچھ مطالب موسیٰ پر نازل ہوئے تھے ۔یعنی جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اگر وہ کتاب آسمانی نہیں ہے تو تم قبول کرتے ہو کہ اس قسم کی کوئی چیز خدا کی طرف سے نازل ہوئی تھی کہ جس کے کچھ حصہّ تو تم آشکار کرتے ہو اور زیادہ تر حصہّ چھپاتے ہو۔
اس طرح سے اس بارے میں کوئی اعتراض باتی نہیں رہتا کہ یہ کہا جائے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ یہودی کتاب آسمانی کے نزول کے منکر ہوں۔
اور اگر یہ آیت اس سورہ کی باقی آیات کی طرح مشرکین کے بارے میں ہو تو پھر اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ ہر قسم کی آسمانی کتاب کے نزول کے منکر ہوگئے تھے تا کہ پیغمبر اکرم الله علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کا انکار کرسکیں، لیکن خدا ان کے لیے یہ استدلال پیش کرتا ہے کہ یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس قسم کا دعویٰ کریں حالانکہ خدا نے تورات موسی - پر نازل کی ، اور مشرکین اگر چہ دین یہود قبول نہیں کرتے تھے لیکن وہ گذشتہ انبیاء اور حضرت ابراہیم - کو یہاں تک کہ حضرت موسیٰ کو احتمالاً ایک خاص علاقے اور زمانے کے پیغمبر کے طور پر قبول کرتے تھے اور خود کو دین ابراہیم - کا پیروکار سمجھتے تھے۔ اسی لیے جب پیغمبر اسلام نے ظہور کیا تو وہ ان کی علامات کی جستجو کے لیے اہل کتاب کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی کتب کا مطالعہ کریں اور تحقیق کریں کہ کیا وہ اس قسم کے پیغمبر کی خبر دیتی ہیں، تو اگر وہ ان کتب کو بالکل قبول نہ کرتے ہوئے تو کس طرح ممکن تھا کہ وہ اس قسم کی درخواست کریں لہٰذا وہ یہود سے سوال کرنے کے بعد جو کچھ اُن کے فائدے میں تھا اُسے ظاہر کرتے اور جو اُن کے لیے مضر تھا اُسے مخفی رکھتے (مثل پیغمبر کی اُن نشانیوں کے جو گذشتہ کتب میں آئی تھیں) لیکن پہلی تفسیر آیہ کے لب ولہجہ، شان نزول اور اُن ضمائر کے ساتھ جو آیت میں ہیں زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔

 

چند قابلِ توجہ نکات

 

۱۔ قراطیس: یہ جمع ہے ”قرطاس“ کی اور اس کی اصل جیسا کہ بعض نے کہا ہے یونانی زبان سے لی گئی ہے۔ اس کا معنی جیسا کہ راغب ”مفردات“ میں کہا ہے ”وہ چیز ہے کہ جس کے اوپر لکھا جائے“ اس بناپر یہ لفظ عام خطکاغذ، جانوروں کے چمڑے، درختوں کی چھال اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کے لیے بھی کہ جن پر قدیم ایّام میں خط اور کتابیں لکھتے تھے، استعمال ہوتا ہے۔
۲۔ کاغذ پر لکھنے کی مذمت؟ ممکن ہے یہ سوال ہو کہ آیت میں یہودیوں کی مذمت کیوں کی گئی ہے کہ انھوں نے وحی آسمانی کو کاغذ وغیرہ پر لکھا تھا، یہ تو کوئی مذمت کی بات نہیں ہے۔
ہم اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ مذمت اس لحاظ سے نہیں ہے بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ مطالب تورات کو پراکندہ کاغذات اور اسی کی مانند دوسری چیزوں کے اُوپر لکھتے تھے، پھر جو کچھ اُن کے فائدہ میں ہوتا تھا اُس کو تو وہ دوسرے لوگوں کو دکھاتے تھے اور جو اُن کے نقصان میں ہوتا تھا اُسے مخفی رکھتے تھے۔
۳۔ ”وما قدروا الله حق قدرہ“ (خدا کو جس طرح چاہیے انھوں نے نہیں پہچانا اور اس کے اوصاف کو سمجھا نہیں) حقیقت میں اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص خدا صحیح طریقے سے پہچان لے وہ انکار نہیں کرسکتا کہ اس کی طرف سے رہبر ورہنما کتبِ آسمانی کے ساتھ نوع بشر کے لیے بھیجے گئے کیونکہ حکمتِ خدا کا تقاضا یہ ہے کہ:
اوّل تو اس نے انسان کو جس ہدف ومقصد کے لیے پیدا کیاہے یعنی ہدفِ ارتقا، اس کے لیے جو پُر پیچ وخم راستہ اُس کے سامنے ہے اُس میں اس کی مدد کرے ورنہ بصورت دیگر اُس نے غرض تخلیق کا تقاضا پورا نہیں کیا اور یہ ہدف ومقصد وحی بھیجنے، کتاب آسمانی نازل کرنے اورہر قسم کی خطا واشتباہ سے خالی، پاک اور صحیح دتعلیمات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
دوسرے یہ بات کیسے ممکن ہے کہ خدا کی رحمت عامہ وخاصہ کا مقام ای بات کی اجازت دے دے کہ وہ انسان کو راہِ سعادت میں جہاں پر وہ ہزارہا رکاوٹوں سے دوچار ہے اور بہت سی پھلسنے کی جگہیں اس کی راہ میں موجود ہی، اکیلا چھوڑدے اور اس کی دستگیری اور رہنمائی کے لیے جامع تعلیمات کے ساتھ رہبر ورہنما بھیجے (اس بناپر اس کی حکمت بھی اور اس کی رحمت بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ کتب آسمانی بھیجے)۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوندتعالیٰ کی کنہ ذات اور کنہ صفات کی معرفت تو کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے اور زیرِبحث آیت میں ایسا کوئی نظریہ نہیں ہے بلکہ اصل مقصود یہ ہے کہ خدا کی ذات اور صفات کی جتنی مقدار انسان کے لئے ممکن ہے اگر وہ حاصل ہوجائے تو اس بات میں کوئی تردّد باقی نہیں رہے گا کہ اس قسم کا خدا اپنے بندوں کو بغیر سرپرست اور بغیر کتاب آسمانی کے نہیں چھوڑے گا۔ 
۹۲ وَہٰذَا کِتَابٌ اٴَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ مُصَدِّقُ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ وَلِتُنذِرَ اٴُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَہَا وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَہُمْ عَلیٰ صَلاَتِہِمْ یُحَافِظُونَ-
ترجمہ
۹۲۔ اور یہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، یہ ایک ایسی بابرکت ہے کہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہیں اُن سب کی تصدیق کرتی ہے (اسے ہم نے اس لیے بھیجا ہے تاکہ تم لوگوں کو خدائی جزاؤں کی بشارت دو) اور اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم امّ القریٰ (مکہ) اور اس کے اِردگِرد کے لوگوں کو ڈارؤ ۔ جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت ونگرانی کرتے ہیں۔

یہ ایک بہت ہی بابرکت کتاب ہے تین اہم امتیاز
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma