کیا ہم سابقہ حالت کی طرف پلٹ جائیں ۔

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
صر ف وہی ذات کہ جو مبداء عالم ہستی ہے، دین حق کو کھیل بنانے والے

یہ آیت اس اصرار کے مقابلہ میں ہے جو مشرکین مسلمانوں کو کفروبت پرستی کی دعوت کے لئے کرتے تھے، پیغمبر کو حکم دے رہی ہے کہ ایک دندان شکن دلیل کے ساتھ انھیں جواب دیں اور ایک استفہام انکاری کی صورت میں ان سے پوچھیں کہ : کیا تم یہ کہتے ہو ہم کسی ایسی چیز کو خدا کا شریک قرار دیں کہ جو نہ ہمارے لئے فائدہ رکھتی ہے کہ اس فائدہ کی خاطر ہم اس کی طرف جائیں اور نہ ہی کوئی ضرر رکھتی ہے کہ ہم اس کے نقصان سے ڈریں

 

( قُلْ اٴَنَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّہِ مَا لاَیَنفَعُنَا وَلاَیَضُرُّنَا ) ۔
یہ جملہ حقیقت میں اس جملہ کی طرف اشارہ ہے کہ عام طور سے انسان کے تمام کام انھیں دونوں سرچشموں میں سے کسی ایک سر چشمہ سے پیدا ہوتے ہیں، یا تو نفع کے حصول کی خاطر ہوتے ہیں ( خواہ وہ مادی نفع ہو یا معنوی) اور یا وہ دفع ضرر کی خاطر ہوتے ہیں (ضرر بھی خواہ معنوی ہو یامادی) ۔
کوئی عاقل کیسے کوئی ایسا کام کرے گا کہ جس میں ان دونوں میں سے کوئی سا عامل بھی موجود نہ ہو؟ ۔
اس کے بعد مشرکین کے مقابلے میں ایک اور استدلال پیش کیا گیا ہے اور یوں ارشاد ہوتا ہے:اگر ہم بت پرستی کی طرف پلٹ جائیں اور ہدایت الٰہی کے بعد شرک کی راہ میں گامزن ہوجائیں( تو اس طرح) تو ہم پیچھے کی طرف لوٹ جائیں گے اور یہ بات قانون ارتقاء کے خلاف ہے کہ جو عالم حیات کا ایک عمومی قانون ہے
(وَنُرَدُّ عَلَی اٴَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ ھَدَانَا اللَّہُ) ۔ (۱)
اس کے بعد ایک مثال کے ذریعہ اس مطلب کو اور زیادہ واضح اور روشن کیا گیا ہے اور قرآن یوں کہتا ہے: (توحید سے شرک کی طرف بازگشت) مثل اس کے ہے کہ کوئی شخص شیطانی وسوسوں سے ( یا غولہائے بیابانی سے کہ جو جاہلیت کے عربوں کے خیال کے مطابق راستوں میں گھات لگا کر بیٹھے ہوا کرتے تھے اور مسافروں کو ان کی راہ سے بے راہ کردیا کرتے تھے) راہ مقصد گم کردے اور بیابان میں حیران وسرگرداں رہ گیا ہو

 

( کَالَّذِی ُ اسْتَھْوَتْہُ الشَّیَاطِینُ فِی الْاٴَرْضِ حَیْرَانَ) ۔
حالانکہ اس کے ایسے دوست بھی ہیں کہ جو اسے ہدایت اور شاہراہ ( حق) کی طرف بلاتے ہیں اور اسے آوازیں دے رہیں ہیں کہ ہماری طرف آؤ۔ لیکن وہ اس طرح سے حیران وسرگرداں ہیں کہ جیسے وہ ان کی باتوں کو سن ہی نہیں رہا ہے، یا وہ قوت ارادی نہیں رکھتا
(لَہُ اٴَصْحَابٌ یَدْعُونَہُ إِلَی الْھُدَی ائْتِنَا ) ۔ (۲)
اور آیت کے آخر میں پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے کہ تم صراحت کے ساتھ یہ کہہ دو کہ : ”ہدایت صرف خدا کی ہدایت ہے اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم صرف عالمین کے پروردگار کے سامنے سرتسلیم خم کریں
“(قُلْ إِنَّ ھُدَی اللَّہِ ھُوَ الْھُدَی وَاٴُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ) ۔
یہ جملہ حقیقت میں مشرکین کی مذہب کی نفی پر ایک اور دلیل ہے کیوں کہ صرف ایسی ذات کے سامنے ہی سرتسلیم خم کرنا چاہئے کہ جو مالک خالق اور مربی عالم ہستی ہو ، نہ کہ بتوں کے سامنے کہ جو اس جہاں کی ایجاد وتخلیق میں کوئی نقش و اثر نہیں رکھتے ۔

 

ٰٓایک سوال اور اس کا جواب

 

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم بعثت سے پہلے مشرکین کے مذہب کے پیرو تھے کہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ :
”رَدُّ عَلَی اٴَعْقَابِنَا ب“
کیا ہم سابقہ حالت کی طرف پلٹ جائیں ۔
حالانکہ کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے کبھی بھی بت سے سامنے سجدہ نہیں کیا اور کسی بھی تاریخ میں اس قسم کی کوئی چیز لکھی ہوئی نہیں ہے پھر اصولی طور پر مقام عصمت بھی ایسے کسی امر کی اجازت نہیں دیتا ۔
یہ لفظ حقیقت میں مسلمانوں کی ایک جماعت کی زبان سے ادا ہوا ہے ناکہ ذات پیغمبر کی زبان سے اسی لئے جمع کے صیغہ اور ضمیروں کے ساتھ اداہوا ہے ۔
بعد والی آیت میں دعوت الٰہی کے بعد عائد ہونے والے فرائض کی یوں تشریح کی گئی ہے کہ ہم نے توحید کے علاوہ یہ حکم دیا ہے کہ ”نماز قائم کرو اور تقوی اختیار کرو
“(واقم الصلاة واتقوہ) ۔
اور آخر میں مسئلہ معاد و قیامت کی طرف توجہ کرواتے ہوئے اور یہ کہ تمھارا حشرونشر اور بازگشت خدا کی طرف ہے اس بحث کو ختم کردیا گیا ہے

 

(وھوالذی الیہ تحشرون) ۔
حقیقت میں ان چند مختصر جملوں وہ پروگرام جس کی طرف پیغمبر دعوت دیا کرتے تھے اور جس کا سرچشمہ عقل اور فرمان خدا تھا، چار اصولوں کے پروگرام کی صورت میں جس کا آغاز توحید اور انجام معادوقیامت تھا اور اس کے درمیانی مراحل خدائی رشتوں کو محکم کرنا اور ہرگناہ سے پرہیز کرنا تھا، پیش کیا گیا ہے ۔

 

۷۳ وَھُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ بِالْحَقِّ وَیَوْمَ یَقُولُ کُنْ فَیَکُونُ قَوْلُہُ الْحَقُّ وَلَہُ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنفَخُ فِی الصُّورِ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ وَھُوَ الْحَکِیمُ الْخَبِیرُ۔
ترجمہ
۷۳۔ اور وہی ہے وہ ذات کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا، اور اس دن وہ کہے گا’ہوجاتو (جس بات کا ارادہ کیا ہے) وہ ہوجائے گا، اس کاقول حق ہے، اور جس دن صور میں پھونکا جائے گا اس دن تو حکومت اسی کے ساتھ مخصوص ہوگی، وہ( تمام )پوشیدہ اور ظاہر وآشکار( چیزوں )سے باخبر ہے اور وہ حکیم وخبیر ہے ۔

 

 

 
۱۔” اعقاب“جمع ”عقب“ (بروزن خشم) ایڑی کے معنی میں اور ایڑی پر پھرنے کو پیچھے کی طرف پھرنا کہتے ہیں اور یہ ہدف ومقصد سے انحراف اور پھر نے کی طرف اشارہ ہے اور یہ وہی چیز ہے کہ جسے آجکل ارتجاع (یعنی رجعت پسندی) سے تعبیر کرتے ہیں ۔
۲۔ ”اسْتَھْوَتْہُ“ ”ھوی“ کے مادہ سے ہے اور یہ لفظ کسی کو ہوا وہوس کی پیروی پر آمادہ کرنے کے معنی میں ہے” حیران“ لغت میں آمد ورفت کے معنی میں ہے اور عام طور سے سرگردانی سے کنایہ ہے، کیوں کی لوگ سرگردانی سے کچھ راستہ چلتے ہیں پھر پلٹ آتے ہیں اس بنا پر یہ آیت ان افراد کو جو ایمان سے شرک کی طرف پلٹ جائیں سرگرداں ہوا پرستوں سے تشبیہ دیتی ہے جو اپنا اصل پروگرام شیطانی الہام کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں ۔
صر ف وہی ذات کہ جو مبداء عالم ہستی ہے، دین حق کو کھیل بنانے والے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma