کیوں کہ یہ آیت وسیع مباحث اپنے پیچھے رکھتی ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
چند قابل غور باتیںایک اشکال اور اس کا جواب

کیوں کہ یہ آیت وسیع مباحث اپنے پیچھے رکھتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ پہلے آیت کے الفاظ معنی اور پھر اس کے اجمالی تفسیر ذکر کرکے، پھر باقی مباحث کو بیان کرے ۔
”دابة“”دیبب “کے مادہ سے آہستہ چلنے اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے کے معنی میں ہے عام طور پر زمین پر چلنے والے سب جانوروں کو ”دابة“کہا جاتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سخن چین اور چغل خور کو ”دیبوب“ کہاجاتا ہے اور حدیث وارد ہوا ہے ۔
”لا یدخل الجنة دیبوب“۔
کبھی چغل خور جنت میں نہیں جائے گا ۔
یہ بھی اسی لحاظ سے ہے کہ وہ آہستہ آہستہ دوافراد کے درمیان آمدورفت کرتا ہے تاکہ انھیں ایک دوسرے سے بد بین اور بدظن کردے ۔
”طائر“ ہر قسم کے پرندے کو کہا جاتا ہے، البتہ چونکہ بعض موقع پر ایسے امور معنوی وروحانی پر بھی جو پیشرفت اور پرواز رکھتے ہیں ، یہ لفظ بولا جاتا ہے ، لہٰذا زیر بحث اس آیت میں اس لحاظ سے کہ نگاہ صرف پرندوں پر مرکوز رہے (یطیر بجناحیہ) یعنی اپنے دوپروں کے ساتھ اڑتا ہے، کے جملہ کا اضافہ کیا گیا ہے ۔
”امم“ جمع ہے ”امت“ کی اور امت کا معنی ہے ”وہ جماعت جو ایک قدر مشترک رکھتی ہو“ مثلا ان کا دین ایک ہو یا زبان ایک ہو یا صفات اور افعال ایک جیسے ہوں ۔
”یحشرون “”حشر“ کے مادہ سے جمع کرنے کے معنی میں ہے لیکن قرآن میں عام طور پر روزقیامت کے اجتماع پر یہ لفظ بولا جاتا ہے خصوصا جب اس کے ساتھ ”الی ربھم“ کا ضمیمہ ہو ۔
گذشتہ آیات مشرکین کے بارے میں بحث کر رہی تھی اور انھیں اس انجام کی طرف جو انھیں قیامت میں پیش آئے گا متوجہ کررہی تھی، اب یہ آیت تمام زندہ موجودات اور تمام قسم کے حیوانات کے عام حشر ونشر اور قیامت میں اٹھنے کا بیان کر رہی ہے ، پہلے فرمایا گیا ہے: کوئی زمین پر چلنے والا جانور نہیں اور کوئی دوپروں سے اڑنے والاپرندہ نہیں مگر یہ کہ وہ بھی تمھاری طرح کی امت ہے
( وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَطَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلاَّ اٴُمَمٌ اٴَمْثَالُکُمْ) ۔
اور اس طرح سے تمام قسم کے جانور اور ہر قسم کے پرندے انسانوں کی طرح اپنے لئے ایک امت ہے لیکن یہ کہ یہ ایک جیسا ہونا اور یہ شباہت کس جہت سے ہے، اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔
بعض ان کی انسانوں نے شباہت خلقت کے تعجب خیز اسرار کی جہت سے سمجھتے ہیں کیوں کہ دونوں ہی خالق آفریدگار کی عظمت کی نشانیاں اپنے ساتھ لئے ہوئے ہیں ۔بعض سمجھتے ہیں کہ یہ شباہت زندگی کی مختلف ضروریات کہ جہت سے ہے یا ان وسائل کے لحاظ سے کہ جن کے ذریعے وہ اپنی طرح طرح کی حاجتوں کو پورا کرتے ہیں ۔
جب کہ کچھ دوسرے لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کی انسان کے کے ساتھ شباہت سے مراد ادراک اور فہم وشعور میں شباہت ے، یعنی وہ بھی اپنے عالم میں علم ،شعور اور ادراک رکھتے ہیں وہ خدا کی معرفت رکھتے ہیں اور اپنی توانائی کے مطابق اس کی تسبیح وتقدیس کرتے ہیں اگر چہ ان کی فکر، انسانی فکر وفہم سے بہت نچلی سطح پر ہے اور جیسا کہ آگے چل کر بیان ہوگا، آیت کا ذیل آخری نظریہ کو تقویت دیتا ہے ۔
پھر بعد کے جملے میں ہے: ہم نے کتاب میں کسی چیز کو فروگذاشت نہیں کیا ہے
( مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ) ۔
ممکن ہے کہ ”کتاب “ سے مرادقرآن مجید ہو کہ تم تمام چیزیں(یعنی وہ تمام امور کہ جو انسان کی تربیت و ہدایت اور تکامل وارتقاء سے مربوط ہیں) اس میں موجود ہیں، البتہ بعض اوقات کلی صورت میں بیان ہوئے ہیں جیسے ہر قسم کے علم ودانش کی طرف دعوت اور بعض اوقات جزئےات کو بھی بیان کیا گیا ہے، جیسے بہت سے احکام اسلامی اور مسائل اخلاقی۔
دوسرا احتما ل یہ ہے کہ ” کتاب“ سے مراد ”عالم ہستی“ ہو کیوں کہ عالم آفرینش ایک عظیم کتاب کی مانند ہے کہ جس میں تمام چیزیں آگئی ہیں اور کوئی چیز اس میں فروگذار نہیں ہوئی ۔
اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ آیت میں دونوں تفاسیر ہی مراد ہوں کیوں کہ نہ تو قرآن میں مسائل تربیتی فروگذار ہوئے ہیں اور نہ ہی عالم آفرینش وخلقت میں کوئی نقص ،کمی اور کسر رہ گئی ہے ہے ۔
اور اس آیت کے آخر میں ہے: وہ تام خدا کی طرف قیامت میں جمع ہوں گے
( ثُمَّ إِلَی رَبِّھِمْ یُحْشَرُون) ۔
ظاہر یہ ہے کہ ” ھم “کی ضمیر اس جملے میں تمام چلنے والے جانوروں اور پرندوں کی تمام اصناف اور انواع واقسام کی طرف لوٹتی ہے اور اس طرح سے قرآن ان کے لئے بھی قیامت میں محشور ہونے کا قائل ہوا ہے اور زیادہ تر مفسرین نے اسی مطلب کو قبول کیا ہے کہ تما م قسم کے جاندار اور حشر ونشر اور جزا وسزارکھتے ہیں، صرف بعض اس کے منکر ہوئے ہیں اور انھوں نے اس ٓیت کی اور دوسری آیت کی ایک اور طرح توجیہ کی ہے، مثلا انھوں نے کہا ہے کہ
”حشرالی اللّٰہ“ سے مراد زندگی کا ختم ہونا اورماوت ہے(۱) ۔
لیکن جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں قرآن مجید میں اس تعبیر کا ظاہر وہی قیامت میں حشر ونشر کا ہونا اور دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جانا ہے، اس بنا پر آیت مشرکین کو آگاہ کررہی ہے کہ وہ خدا کہ جس نے تمام قسم کے جانوروں کو پیدا کیا ہے ، ان کی ضروریات کو مہیا کیا اور ان کے تمام افعال کا نگران ہے اور ان سب کے لئے اس نے حشر ونشر قرار دیا ہے کیسے ممکن ہے کہ وہ تمھارے لئے حشرونشر قرار نہ دے اور بعض مشرکین کے قول کے مطابق دنیاوی زندگی اور اس کی حیات و موت کے سوا اور کچھ بھی نہ ہو ۔

 

 
۱۔ یہ احتمال المنار کے مولف نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ۔
چند قابل غور باتیںایک اشکال اور اس کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma