۲۔ قرآن کی کچھ آیات متشابہ کیوں ہیں ?

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 02
3- تاویل کسے کہتے ہیں ?(۱) محکم و متشابہ آیات سے کیا مراد ہے ۔

اس کے باوجود کہ قرآن نور، روشنی اور حق ہے ، ایک واضح کلام ہے اور تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے ۔
اس میں متشابہ آیات کیوں ہیں اور بعض آیات کے مفاہیم ایسے پیچید ہ کیوں ہیں کہ فتنہ انگیز لوگوں کے لئے غلط مقاصد کے حصول کا سبب بنتے ہیں ۔
یہ موضوع بہت اہمیت کا حامل ہے اور گہرے غور و فر کا مقتضی ہے ۔ ہوسکتا ہے مجموعی طور پر مندرجہ ذیل وجو ہات قرآن میں آیات متشابہات کا سبب اور راز ہوں ۔
(۱) انسانوں کی گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ اور جملے روز مرّرہ کی ضروریات کے ماتحت ہوتے ہیں اس لئے جب ہم انسان کی محدود مادی زندگی کے دائرے سے باہر نکلیں اور مثلاًخالق کائنات کے بارے میں گفتگو کریں جو ہر جہت سے لامحدود ہے تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہمارے الفاظ ان معانی کے لئے سانچے اور قالب کا کام نہیں دیتے تاہم وہی الفاظ استعمال کرنے پر مجبور ہیں اگر چہ یہ الفاظ مختلف پہلووٴں سے ناقابل اور نارسا ہیں ۔ الفاظ کی ہی نارسائی متشابہاتِ قرآن کے اہم حصّے کا سر چشمہ ہے ۔ یہ آیات اسی مفہوم کے ادراک کے لئے نمونہ ہیں ۔
”ید اللّہ فوق ایدیھم “ ” الرحمٰن علی العرش التوٰی “ ” الی ٰربّھا ناظرة “
ان آیات کی تفسیر اپنے مقام پر آئے گی ، سمیع و بصیر جیسی تعبیرات بھی اسی قبیل سے ہیں ۔ ان کی تفسیر آیات محکمات کی طرف رجوع کرنے سے اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے ۔
(ii) بہت سے حقا ئق دوسرے جہان یا عالم ماوائے طبیعت سے مربوط ہیں ۔ یہ حقائق ہماری فکر و نظر کے افق سے دور ہیں زمان و مکان کی قید میں محدود ہونے کی وجہ سے ہم ان کی گہرائی کا ادراک نہیں کرسکتے ۔ اس لئے ہمارے افکار کی نارسائی اور ان معانی کے افق کی بلندی بعض آیات کے متشابہ ہونے کا دوسرا سبب ہے ۔ اس کی مثال بعض وہ آیات ہیں جن کا تعلق قیامت وغیر ہ سے ہے ۔
یہ بالکل اس طرح ہے جیسے کوئی شخص کسی بچے کو عالم جنین میں اس دنیا کے حالات بتا نا چاہے ۔ اگر بات نہ کرسکے تو بڑی کوتاہی ہے اور اگر کچھ کہے تو مجبور اً مطالب کو سر بستہ اور جمالی صورت میں ادا کرے گا ۔ کیونکہ سننے والا اس حالت میں زیادہ استعداد نہیں رکھتا ۔
(iii) قرآن میں متشابہات کا ایک مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی فکر و نظر کو زیادہ سے زیادہ لایا جائے اور فکری تحرک پیدا ہو ۔ ہمیشہ پیچیدہ فکری مسائل مفکرین کے افکار کی تقویت کے لئے پیش کیے جاتے ہیں تاکہ وہ مسائل کے حل کے لئے زیادہ سے زیادہ تفکر و تدبر اور تحقیق و جستجو سے کام لے سکیں ۔
 ایک اور نکتہ جو قرآن میں متشابہات کی موجود گی کے لئے ہے اور اہل بیت علیہم السلام کی روایات بھی حس کی تائید کرتی ہیں یہ ہے کہ قرآن میں ایسی آیات خدائی پیشواوٴں ، پیغمبر اکرم اور ان کے اوصیاء کی شدید احتیاج کو واضح کرتی ہیں اور یہ اس طرح ہیں یہ ہے کہ احتیاج علمی لوگوں کو مجبور کرے گی کہ وہ ان کی جستجو اور تلاش کریں اور عملی طور پر ان کی رہبری تسلیم کریں ۔ اس طرح دیگر علوم اور دیگر مشکلات بھی انہیں سے راہنمائی حاصل کریں ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے درسی کتب میں کچھ مسائل کی تشریح معلم اور استاز کے ذمے کی جاتی ہے تاکہ طالب علم استاد سے اپنا رابطہ منقطع نہ کرلے اور یوں اس ضرورت کے ماتحت تمام چیزوں میں اس کے افکار سے راہنمائی حاصل کرے ۔ در حقیقت ایسی روایات قرآن کے بارے میں پیغمبر اسلام کی مشہور و صیّت کا مصداق ہیں :
”انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و اھل بیتی و انھما لن یفترقا حتّیٰ یرد علیّ الحوض“۔
” یعنی میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں خدا کی کتاب اور اپنے اہل بیت اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ قیامت کے دن کوثر کے کنارے مجھ تک پہنچیں گے(” مستدرک حاکم “ جلد سوم ، صفحہ ۴۸“)

 

3- تاویل کسے کہتے ہیں ?(۱) محکم و متشابہ آیات سے کیا مراد ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma