علاج اور معائنہ کے اخراجات سے متعلق مسائل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 01
پیوند اعضاء سے مربوط مسائلڈاکٹر کا قصوروار ہونا

سوال ۱۴۳۱۔ جناب عالی کی نظر میں حق طبابت دریافت کرنے کا سب سے بہتر راستہ کون سا ہے؟

جواب: اگر آپ کی مراد اس کی شرعی حیثیت اور حوالہ سے ہے تو ایسی مقدار ہو جس پر دونوں طرف راضی ہوں اور اگر پہلے سے طرفین نے طے نہ کیا ہو تو جو کچھ معاشرہ کے عرف و عادت میں اجرت کے طور پر رائج اور معمول ہے وہ ادا کیا جائے۔ اور ہر حال میں عدل و انصاف کی رعایت طرفین کی جانب سے پسندیدہ عمل اور بہتر ہے۔

سوال ۱۴۳۲۔ کیا طبابت کی اجرت مریض کے صحیح ہونے سے پہلے لینا، جیسا کہ آج کل مرسوم ہے، صحیح ہے؟

جواب: گزشتہ جواب سے یہ بات واضح ہو چکی ہے۔

سوال ۱۴۳۳۔ مثال کے طور پر اگر ایک بیمار عورت جس کی جان خطرہ میں ہو وہ تنہا دور کے گاوں کے مرد ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جائے تو کیا اس ڈاکٹر کے لیے جایز ہے کہ وہ اس کی بیماری کے سلسلہ میں ہر طرح کے ضروری معائنہ کو انجام دے؟

جواب: اگر لیڈی ڈاکٹر یا محرم مرد اس کی دسترس میں نہ ہو تو اس کے لیے جایز ہے۔

سوال ۱۴۳۴۔ گذشتہ مسئلہ کی روشنی میں اگر اس کی جان خطرہ میں نہ ہو بلکہ اس کی بیماری خفیف یا متوسط ہو تو کیا اس عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ حتما شہر کی لیڈی ڈاکٹر کے پاس دکھانے کے لیے جائے اور وہاں کے مرد ڈاکٹر کے پاس نہ جائے؟

جواب: اگر شہر جانا سخت اور عسر و حرج کا سبب ہو تو اس بیمار عورت کے لیے ڈاکٹر کو دکھانا ضروری ہو تو اس کے لیے مرد ڈاکٹر کے پاس جانا جایز ہے۔

سوال ۱۴۳۵۔ ضرورت کے وقت، کلی طور پر چاہے لیڈی ڈاکٹر دسترس میں ہو یا نہ ہو، مرد ڈاکٹر کا مریضہ کا لباس کے اوپر سے چیکپ کے لیے مس کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب: فرض مسئلہ کے مطابق معالجہ کی غرض سے مس کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۳۶۔ یہاں پر ایک نہایت اہم نکتہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اگر ہم ایک سیسٹم کے مطابق پورے ملک میں عورتوں اور مردوں کے لیے الگ ہسپتال بنانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو اس بات کے پیش نظر کہ ہر ڈاکٹر کے لیے اپنے زمانہ طالب علمی میں مختصرا ہی صحیح مرد و عورت دونوں کی تمام انواع و اقسام کی بیماریوں کے بارے میں جاننا ضروری ہوتا ہے اور وہ عملی طور پر ان سے آگاہی کے لیے مجبور ہوتا ہے، جیسے پورے بدن کا معائنہ، عورتوں کی بیماریوں کے بارے میں جاننا، بچے کی پیدائش کرانے کے بارے میں عملی علم حاصل کرنا وغیرہ۔۔۔ حالانکہ یہ انہیں سکھانے کے لیے ہوتا ہے معالجہ کے لیے نہیں، یعنی ممکن ہے کہ مریض کی جان بچانا اس وقت ان کے علاج کا حصہ نہیں تھا مگر یہ ٹرینگ جو تمام میڈیکل کالج اور انسٹی ٹیوشن میں دی جاتی ہے تا کہ طلباء آئندہ زندگی میں اس کے لیے آمادہ ہو سکیں، یہی وجہ ہے کہ طب کے تمام طلباء اس طرح کے مختلف دورے درس کے طور پر مختلف ہاسپیٹل میں، جن میں بیمار میں مرد و و عورت سب ہوتے ہیں، گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں، تمام مسائل کا جاننا پھر ان کے امتحان دینا تا کہ وہ ایک اچھے ڈاکٹر کے طور پر فارغ التحصیل اور سند یافتہ ہو سکیں۔ اس تمہیدکے بعد یہ فرمائیں کہ ایسے میں میڈیکل کے طالب علم کا شرعی فریضہ کیا ہے؟ کیا اس کے لیے مسائل شرعی کی رعایت کے طور پر بہت سے مراحل مکمل کیے بغیر گذرنا پڑے گا، جس کے سبب اس کا امتحان میں کامیاب پونا مشکل ہو جائے گا یا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر شرائط میں اور تمام وسائل کے ساتھ تمام چیزیں حاصل کرے تا کہ آئندہ اسے مشکل کا شامنا نہ ہو؟ کلی طور پر یہ بتائیں کہ وہ میڈیکل اور طالب علمی کے فرائض انجام دینے میں، جن کے انجام دینے کی میڈیکل کی کتب میں تاکید کی گئی ہے، اور اپنے شرعی و اسلامی فریضہ کے درمیان، جس میں طبابت کے فرائض کے ساتھ کوئی تناقض نہی پایا جاتا، کس طرح سے جمع کر سکتا ہے؟

جواب: چنانچہ مسلمین کی نجات (کورس ختم ہونے کے بعد ہی سہی) اسی بات پر منحصر ہو کہ اس طرح سے ٹرینگ حاصل کی جائے اور اس کا راستہ انہی معائنہ و مشاہدے ہر منحصر ہو تو ایسا کرنا جایز ہے۔

سوال ۱۴۳۷۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ طبابت اور میڈیکل کے علوم میں تخصص، مہارت اور اسپیشلائزیشن بہت زیادہ ہیں اور تمام مضامین کی ماہر خواتین ڈاکٹر اس وقت ایران میں بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں، لہذا چھوٹے اور بڑے شہروں میں مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے اور ڈاکٹروں کی تعداد کم ہونے اور علاج کے اخراجات زیادہ ہونے کے بارے میں سب جانتے ہیں، لہذا خواتین مرد ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتی ہیں، ایسی صورت میں اس ڈاکٹر کا فریضہ کیا ہے؟ اگر وہ مختلف اور ضروری معائنہ سے ان کے مرض کو درک اور معالجہ کر سکتا ہو تو کیا ایسا کرنا اس کی ذمہ داری بنتی ہے یا وہ انہیں لیڈی ڈاکٹر کی طرف ریفر کرنا ضروری ہے؟ جبکہ ان حالات میں جو اوپر ذکر ہوئے ہیں، بہت سے مریضوں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا تو اگر خاتون ڈاکٹر کی طرف بھیجنا، معالجہ میں تاخیر کا سبب ہو تو کیا مرد ڈاکٹر ذمہ دار ہوگا؟

جواب: اس مسئلہ میں مرد ڈاکٹر کے لیے علاج نہ کرنے کا کوئی عذر نہیں ہے اس لیے کہ ایک طرح سے ضرورت موجود ہے، لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ علاج نہ کرنے خاتون ڈاکٹر کے پاس بھیجے تو وہ ذمہ دار ہے۔

سوال ۱۴۳۸۔ ضرورت کے وقت علاج کے لیے ڈاکٹر کا کسی خاتون کے بالوں کو دیکھنا اور ہاتھ لگانا، کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب: اگر مرض کی تعیین کے لیے مشاہدہ و لمس ضروری ہو تو جایز ہے۔

سوال ۱۴۳۹۔ اگر مرد ڈاکٹر مریضہ کے معائنہ کے لیے مجبور ہو یا اس کے بر عکس، مریضہ مرد ڈاکٹر کے پاس جانے پر مجبور ہو تو اس بات کے مد نظر کہ اگر کسی خاتون کے معائنہ میں مکمل طور پر شرعی و اخلاقی مسائل کی رعایت کی بات کی جائے تو جو کچھ طب کی کتب میں موجود و مذکور ہے، اس کے مطابق شرعی لحاظ سے نوے فیصد معائنہ ممکن نہیں ہو سکے گا اور اگر سطحی و غیر کامل معائنہ سے مریض کے مرض کی تشخیص نہ دی جا سکے اور علاج پوری طرح سے نہ ہو سکے تو کیا ڈاکٹر قصوروار ہوگا؟ اگر وہ ذمہ دار ہے تو اس کا راہ حل کیا ہے؟ یا وہ مسائل شرعی کے خلاف عمل کرے؟ اس بات پر توجہ بھی ضروری ہے کہ ماہر و تجربہ کار ڈاکٹر کے لیے ممکن ہے کہ مکمل معائنہ کے بغیر بھی مرض کو تشخیص دے سکیں اور اس کا معالجہ کر سکیں مگر نئے اور نا تجربہ کار ڈاکٹر، جنہیں تجربہ کے لیے ایک عمر درکار ہوتی ہے، کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے، مہربانی کر کے حکم بیان فرمائیں؟

جواب: اس کا جواب بھی وہی ہے جو اس سے پہلے والے مسئلہ کا جواب ہے۔

سوال ۱۴۴۰۔ اس بات کے تعلق سے کہ بعض نہایت سادہ مرض کا علاج حتمی طور پر مقعد کے چیکپ اور معائنہ کے ذریعہ ممکن ہوتا ہے تا کہ مرض کا قطعی پتہ چل سکے اور معالجہ ہو سکے۔ اسی طرح سے بہت سی بیماریاں جن کا تعلق پیشاب یا منی کی نلیوں سے ہوتا ہے، ان میں مشاہدہ اور لمس ضروری ہو جاتا ہے تو کیا ایسے موارد میں مرد ڈاکٹر مرد مریض کا بغیر کسی شرعی اشکال کے معائنہ کر سکتا ہے؟ اور اگر وہ ان معائنات کے انجام دئیے بغیر مرض کو تشخیص نہ دے سکے اور کینسر جیسی بیماری جو وقت کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے تو کیا وہ قصوروار ہے؟ اور اس بات کے مد نظر کہ ہمیشہ آئینہ کے ذریعہ معائنہ ممکن نہیں ہوتا اور آپریشن کی صورت میں مشاہدہ و لمس پوری طرح سے پیش آتا ہے لہذا آج کے دور میں تمام اسپتال اسے بغیر کسی واسطہ کے انجام دیتے ہیں؟

جواب: سوال کی نوعیت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے لہذا اس طرح سے معائنہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر پھر بھی ڈاکٹر کوتاہی کرے تو وہ قصوروار ہے۔

سوال ۱۴۴۱۔ ڈاکٹروں کے عام نظریہ کے مطابق، آج کی بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کے لیے ٹیست نہایت ضروری ہوتے ہیں جیسے پیشاب اور منی کے مجرا سے متعلق امراض، اگر چہ اچھا سمجھا جائے یا برا اس کے انجام میں اکثر تسامح رہتا ہے، اس کا ایک مخصوص آپریشن ہے جس کے لیے مقعد کے ذریعہ مشاہدہ و لمس کے ساتھ معائنہ کرنا ہوتا ہے، اسی طرح سے انسان کے درجہ حرارت کو جاننے کے لیے جو سب سے دقیق روش استعمال کی جاتی ہے وہ بھی مقعد کے ذریعہ ہے، ان موضوعات کے پیش نطر کبھی یہ معائنات محض احتیاط کے طور پر یا یہ کہ فلاں مرض پایا جا رہا ہے یا نہیں، کے عنوان سے ہوتے ہیں اور کبھی یہ بعض بیماریوں کے پتہ لگانے کے لیے نہایت موثر اور کم خرچ روش کے طور پر سمجھے جاتے ہیں تو کیا مرد ڈاکٹر کے مرد مریض کا معائنہ کسی بھی عنوان کے تحت جایز ہے؟ اور کیا معائنہ نہ کرنے کی صورت میں ڈاکٹر مرض یا اس کے علاج کو نہ سمجھ سکے تو قصوروار نہیں ہے؟

جواب: اس کا جواب بھی عین سابقہ مسئلہ کا جواب ہے۔

پیوند اعضاء سے مربوط مسائلڈاکٹر کا قصوروار ہونا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma