پینتالیسویں فصل بینک کے مسایل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 01
معاءنہ و معالجہ سے متعلق مسائلدیت کے متفرق مسایل

سوال ۱۳۷۵۔ بینک میں طویل مدت کے لیے بغیر کسی قید و شرط کے پیسا فکس کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر شرعی و اسلامی قوانین و ضوابط کے مطابق ہو اور فکس کرنے والے کا کوئی مطالبہ نہ ہو اور بینک خود سے اسے منافع دے رہا ہو تو اسے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اگر بینک اسے کچھ نہ دے تو وہ مطالبہ نہ کرے۔

سوال ۱۳۷۶۔ موجودہ دور میں جو اسلامی حکومت کا زمانہ ہے جس میں شہداء کے خون کی برکت، لوگوں کی کار کردگی اور رہبر انقلاب حضرت امام خمینی کی بصیرت سے نظام ظلم کا خاتمہ ہو چکا ہے، بینک میں پیسا رکھنے کا کیا حکم ہے؟ بینک جو سود دیتا ہے اس کے لینے کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح سے بینک سے لون لینے اور اس پر سود دینے کا حکم بیان کریں؟

جواب: جو سود بینک خود دیتا ہے اس کے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر یہ وہ سود کسی معاہدہ کے تحت دے اور اگر بینک اسلامی بینک کے نظام کے مطابق ہے تو اس میں پیسا فکس کرنے یا اس سے لون لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور شک کی صورت میں کہ بینک کا نظام اسلامی ہے یا غیر اسلامی اسے صحت پر حمل کیا جائے گا لیکن اگر یقین ہو کہ بینک اسلامی بینک کے قوانین کی رعایت نہیں کرتا تو جایز نہیں ہے۔

سوال ۱۳۷۷۔ اسلامی حکومت میں بینک مختلف عناوین کے تحت جیسے مضاربہ، مساقات، مزارعہ، شرکت اور جعالہ معاہدات کرتے ہیں اور ہر ماہ علی الحساب چودہ در صد یا اس سے کم یا زیادہ دیتے ہیں اور مدت ختم ہونے کے بعد حساب کتاب کرتے ہیں، اس بات کے پیش نظر کہ عام طور پر لوگ ان کے فارم پر موجود شرایط و قیود کا مطالعہ نہیں کرتے اور دستخط کر دیتے ہیں اور اس طرح سے ان کے شرایط کو قبول کر لیتے ہیں تو کیا صرف دستخط کر دینا یا عملی طور پر قبول کر لینے سے ان عقود کی شرعی حیثیت متحقق ہو جاتی ہے؟ یا طرفین کے لیے ساری باتوں کا جاننا ضروری ہے؟ اگر یہ سب شرعی لحاظ سے قابل قبول نہ ہو تو اس کا راہ حل پیش کریں؟

جواب: اگر کوئی بینک کو پورا اختیار اور وکالت دے کہ وہ اس کے پیسے کو اسلامی نظام بینک کے تحت استعمال کرے، اس سے کاروبار کرے اور اسے اس کا سود دے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور مطلقہ وکالت دینے کے بعد ساری جزئیات کا جاننا ضروری نہیں ہے۔

سوال ۱۳۷۸۔ ایرانی بینک بعض اوقات بیرونی بینکوں کے مطالبات موقع پر پورے نہیں کر پاتے، جس کے لیے انہیں مختلف طرح سے اس کے حل کا طریقہ پیش کرنا پڑتا ہے جیسے: ایک ایرانی بینک نے بعض بیرونی بینکوں سے معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق وہ بیرونی بینک ایرانی بینک کی طرف سے اہنے ملک میں موقع پر لوگوں کو پیسے ادا کرے گا اور ایک سال کے بعد اپنے پیسے کو ایرانی بینک سے نو در صد کے حساب سے اور چھ در صد ادا کرنے والے سے بیمہ کی قیمت کے عنوان سے جو وہ بیمہ سے موقع پر حساب کرنے کی وجہ سے لیتے ہیں، طلب کرتا ہے، واضح رہے کہ بیچنے والے سے مال لینے کے تقریبا تین ماہ بعد بیرونی و ایرانی بینک سے معاہدہ کی رو سے بیرونی بینک بینچے والے کو پیسے ادا کرتا ہے اور اس پیسے کو جو وہ دیتا ہے ایک سال کے بعد ایرانی بینک سے نو در صد سود کے ساتھ لیتا ہے اس طریقہ سے ایرانی بینک خریدار کو خرید اور معاملہ کے روز پورا پیسا ادا کر دیتا ہے اور اس پر نو فیصد اضافہ کے ساتھ اس بینک کو ادا کرتا ہے جسے وہ خریدار سے حاصل کر لیتا ہے جبکہ بیچنے والا جو روز معاملہ پیسا حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے وہ چھ در صد اس بیرونی بینک کو بیمہ کی قیمت کے عنوان سے ادا کرتا ہے اور جنس کی قیمت میں اس کو بڑھا دیتا ہے اور مہنگا بیچتا ہے، اب بات کے مد نطر کہ بیچنے والا خریدار سے اضافی پیسا طلب نہیں کرتا تو کیا اس طرح کا معاملہ خریدار کے لیے صحیح ہے؟

جواب: اگر آپ ان تمام امور کی ماہیت سے با خبر اور اس پر راضی ہیں تو ایسا کرنے میں آپ کے لیے کوئی حرج نہیں ہے، اس معنا میں کہ آپ نے اپنا پیسا بینک کو قرض بغیر سود کے عنوان سے دیا ہے اور بینک کے آپ کے پیسے سے آپ کے لیے جنس کو ادھار کے طور پرنقد سے زیادہ قیمت پر خریدا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ آپ اس سے مربوط بیمہ کی رقم کو بھی ادا کریں گے، اس صورت میں یہ معاملہ آپ کے لیے شرعا صحیح ہوگا، لیکن یہ کام بینک کے لیے اس صورت میں جایز ہوگا کہ وہ اسلامی معاشرہ کی مصلحت اس کا تقاضا کرتی ہو کہ بیرونی ممالک کے بینکوں کا اس طرح سے رابطہ بر قرار ہو اگر صورت حال اس کے علاوہ ہو تو یہ معاملات جایز نہیں ہونگے۔

سوال ۱۳۷۹۔ اگر کوئی اپنا مال کسی بینک میں کم مدت یا دراز مدت کے لیے فکس کرے اور بینک اسے اس پر اپنے قانون کے مطابق ایک رقم منافع کے طور پر دے تو کیا اس پیسے کا لینا جایز ہے؟ کیا اس پر خمس واجب ہوگا؟

جواب: اگر بینک کا قانون اسلامی بینکینگ کے مطابق ہو تو وہ پیسا لینا حلال ہے اور اس پر خمس بھی واجب ہے، اس کے اثبات کے لیے اگر بینک کا مینیجر کہے کہ ہم اسلامی نظام بینک پر عمل کرتے ہیں اور اس کی بات کے خلاف کوئی دلیل نہ تو اس کی بات ماننے کے لیے یہی کافی ہے۔

سوال ۱۳۸۰۔ بعض اوقات بینک لوگوں کو ترغیب دلانے کے لیے کہ لوگ اپنے پیسے ہمارے بینک میں رکھیں، اپنے اکائونٹ کھولیں، قرعہ کشی کے ذریعہ انعام معین کرتے ہیں اور جس کا نام قرعہ میں نکلتا ہے اسے انعام دیتے ہیں کیا یہ کام اور انعام جایز ہے؟

جواب: اگر یہ کام واقعی ہو اور اس میں فریب اور دھوکا نہ ہو تو لوگوں کے لیے جایز اور حلال ہے۔

سوال ۱۳۸۱۔ جو شخص بینک کا مقروض ہے اگر وہ اپنی قسطوں کے ساتھ بینک کو سود کے طور پر اس سے زیادہ پیسا ادا کرے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد ایک رقم بینک کے جمع کرے اور اس پر بینک سے سود لے تو کیا وہ اس کو دینے والے سود کے تقاص کے عنوان سے لے سکتا ہے؟

جواب: اگر اس نے پہلے والے معاملہ میں پیسے کو بینک کو رباء کے طور پر دیا تھا تو اس نے کار حرام کیا ہے، البتہ وہ دوسرے مرحلہ میں اسے تقاص کے طور پر لے سکتا ہے۔

سوال ۱۳۸۲۔ بینک لون دینے سے پہلے ہی سود کا حساب کتاب محنتانہ کے طور پر کر لیتے ہیں، اگر یہی کام کوئی کاروباری قرض دینے کے عنوان یا جنس کو ادھار دینے کے عنوان سے کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: محنتانہ سے مراد وہ تنخواہ اور حق الزحمت ہے جو بینک یا لون بینک میں کام کرنے والوں کو دی جاتی ہے ان زحمتون کے لیے جو وہ بینک کے حساب میں نظم اور دوسری خدمات کے طور پر انجام دیتے ہیں اور یہ محنتانہ ان کا حق ہوتا ہے اور پیسے دینے والا محنتانہ کو خود لے رہا ہو تو یہ ربا اور حرام ہے، کاروبار اور تجارت والوں کے لیے یہی صورت حال ہے۔

سوال ۱۳۸۳۔ بینک کم مدت اور دراز مدت فکس پیسوں کو ایک معین سود دیتے ہیں لیکن جو لوگ انہیں قرض کے طور پر پیسے دیتے ہیں وہ انہیں اجر معنوی کے علاوہ کوئی سود نہیں دیتے، اس تمہید کے مطابق کم یا دراز مدت کے لیے بینک میں پیسا فکس کرنا جس میں پیسے کا اعتبار بھی کم نہیں ہوتا اور لوگ انہیں پیسوں کو لون کے طور پر بھی حاصل کرتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر بینک عقود شرعیہ کی رعایت کرتے ہیں یا انہیں وکالت مطلقہ دی جاتی ہے تا کہ وہ ان عقود کی رعایت کریں تو پیسا فکس کرنا حلال ہے۔

سوال ۱۳۸۴۔ جب بھی کوئی بینک سے لون لینا چاہتا ہے اسے ایک ضامن کی ضرورت ہوتی ہے جسے اگر آپ کو پانچ لاکھ لینا ہے تو ڈھاءی لاکھ اپنے حساب اور اکاونٹ میں ہمیشہ چھوڑے رکھنا پڑتا ہے جب تک وہ لون پورا ادا نہ ہو جائے، اس لون کی آخری قسط بھرنے کے بعد وہ پیسا آزاد ہوتا ہے جسے نکالا جا سکتا ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ضامن کے پاس اکاونٹ میں پیسا نہ ہو تو کیا وہ ضرورت سے ڈبل مثلا دس لاکھ کا بینک سے مطالبہ کر سکتا ہے تا کہ ضامن کے حساب میں بند ہونے والے پانچ لاکھ اسے ادا کر دے اور وہ ضمانت کے لیے راضی ہو سکے اور ڈبل کی درخواست کر ے تا کہ جب دس لاکھ لون کی آخری قسط کے جمع ہونے کی صورت میں وہ پانچ لاکھ کو رکے ہوئے تھے اسے بغیر کسی کمی و زیادتی کے واپس مل سکیں، گویا پانچ لاکھ اس کے پاس محفوظ رہے جسے وہ جب چاہے لے سکتا ہے، ایسا کرنا شرعی لحاظ سے صحیح ہے؟ اور وہ پانچ لاکھ جو محفوظ ہیں اس پر خمس واجب ہے؟

جواب: اگر بینک لوگوں کے پیسے سے تجارت نہ کرتا ہو تو مسئلہ کی دونوں صورت صحیح ہے اور دوسرے صورت میں محفوظ پیسے پر خمس واجب ہوگا۔

سوال ۱۳۸۵۔ میں نے اپنے ایک رشتہ سے کہا کہ وہ میرے لیے اپنے نام سے بینک سے لون لے لے،جس پر اس نے لون لیا اور میری مدد کرتے ہوئے سارا پیسا مجھے دے دیا ہے۔ اس کے قسطوں کی کاپی میرے پاس ہے اور میں اس کی قسطیں بھرتا ہوں، لون لینے لے پہلے بینک میں اکاونٹ کھلوانا پڑتا ہے تا کہ بینک والے محنتانہ اس سے حاصل کر سکیں، اب سوال یہ ہے کہ اکاونٹ کھلوانے اور بینک کی کاپی حاصل کرنے والے کا کوئی بھی پیسا لون لینے میں خرچ نہیں ہوا ہے۔ اب اس اکاونٹ پر پینتالیس ہزار کا ایک انعام نکلا ہے اس پر کس کا حق بنتا ہے اور وہ کس طرح سے مجھ تک پہچ سکتا ہے ؟

جواب: انعام اسے ملے گا جس کے نام سے اکاونٹ ہے اور جس کے نام کی رسید بک اور قسطوں کی کاپی ہے۔

معاءنہ و معالجہ سے متعلق مسائلدیت کے متفرق مسایل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma