اکتالیسویں فصل دفاع اور جہاد کے احکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 01
۱۔ زنا کی حد (سزا) چالیسویں فصل امر المعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کی دعوت اور برائیوں سے روکنا)

سوال ۱۱۶۱۔ کافر کی رائج تقسیم، کافر حربی اور کافر ذمّی، جس میں کافر غیر ذمّی کو حربی جانتے ہیں، کے مطابق، کیا اس پر ذمّی کے تمام احکام جاری کئے جاسکتے ہیں تاکہ جو کفار اسلامی جمہوریہ ایران میں رہتے ہیں وہ کافر ذمّی اور باقی کفّار خواہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہوں، کافر حربی سمجھے جائیں، اور کافر حربی سے مخصوص تمام اقدامات، ان کے بارے میں کیا جانا جائز ہوجائے یا نہیں بلکہ کافر حربی مخصوص ہے اس حالت سے جب وہ جنگ کی حالت میں ہوں اور حالت جنگ کے علاوہ، کفار کی تیسری قسم ہوتی ہے جو نہ ذمّی ہوتے ہیں اور نہ حربی، نیز کیا ان کفار کی جان، مال اور عزّت وآبرو محترم ہے جو حالت جنگ میں نہیں ہیں؟

جواب: کافر کی تیسری اور چوتھی قسم بھی ہے، اس کی تیسری قسم ”کافر معاہد“ ہے، دور حاضر کے وہ بہت سے ممالک ، جن سے ہمارے سیاسی تعلقات ہیں اور وہ ہمارے ساتھ جنگ کی حالت میں نہیں ہیں، اس (تیسری قسم) کا مصداق شمار ہوتے ہیں اور جب تک کسی طرح سے بھی وہ ممالک، مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں داخل نہ ہوں، اُن کی تمام چیزیں، جان اور ان کا مال، محترم ہے، اس لئے کہ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کے قوانین کے اعتبا رسے ان کے ساتھ ہمارے سیاسی تعلقات ہوگئے ہیں، اس وجہ سے وہ سب، تیسری قسم یعنی ”کافر معاہد“ کے دائرے میں شمار ہوں گے، نیز توجہ رہے کہ کافر معاہد کا وقت محدود نہیں ہوتا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، ہماری نظر میں ایسا نہیں ہے اور کافر معاہد ، اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں کافروں کو شامل ہے (یعنی کافر کی تیسری قسم (کافر معاہد) میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں شامل ہیں) اور قابل توجہ یہ بات بھی ہے کہ اہل کتاب کو اس وقت کافر ذمّی کا عنوان دیا جائے گا جب وہ اسلامی ممالک کے اندر زندگی بسر کرتے ہوں، لہٰذا جو اہل کتاب کفار اپنے اپنے ممالک میں رہتے ہیں وہ فقط ”کافر معاہد“ ہوسکتے ہیں، ان کے بارے میں کافر ذمّی کے معاہدہ کا کوئی مطلب نہیں ہے (مگر یہ کہ کوئی کافر نشین ملک خود کو اسلامی ممالک کی پناہ میں دیدے) اس لئے کہ کافر ذمّی کے احکام میں بہت سے ایسے قرینہ موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ احکام، اسلامی ممالک کے اندر رہنے والے، اقلّیتی مذہب والوں سے متعلق ہیں ۔
چوتھی قسم، وہ کفار ہیں جو نہ کفار ذمّی کا حصّہ ہیں نہ کافر معاہد اور نہ کفار حربی میں شامل ہیں، حقیقت میں وہ مسلمانوں کے لحاظ سے بالکل بے طرف اور غیرجانبدار ہیں، ان کو غیر حانبدار کا نام دیا جاسکتا ہے، قرآن مجید کی دو آیتوں میں ان کی وضعیت اور صورتحال کی طرف اشارہ ہوا ہے ، سورہٴ ممتحنہ کی آیت ۸ میں ارشاد ہوتا ہے: < لَایَنْھَاکُمْ اللهُ عَنْ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اٴَنْ تَبَرُّوھُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْھِمْ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیناور سورہٴ نساء کی آیت ۹۰ میں کفار کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے: <إِلاَّ الَّذِینَ یَصِلُونَ إِلیٰ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِیثَاقٌ اٴَوْ جَائُوکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُھُمْ اٴَنْ یُقَاتِلُوکُمْ اٴَوْ یُقَاتِلُوا قَوْمَھُمْ ---فَإِنْ اعْتَزَلُوکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوکُمْ وَاٴَلْقَوْا إِلَیْکُمْ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللهُ لَکُمْ عَلَیْھِمْ سَبِیلًا لہٰذا اس بناپر ”القای سلم“ سے مراد، مسالمت آمیز راستہ ہے، معاہدہ صلح نہیں، اس لئے کہ القای سلم کی عبارت، ان ہی معنی سے مناسب ہے اور بعد کی آیت بھی اسی آیت پر شاہد ہے، بہرحال غیرجانبدار کافر کی جان، مال، عزّت آبرو بھی محترم اور محفوظ ہے، اور کفار کی چار قسموں کے متعلق اس سے زیادہ وضاحت کرنے کے لئے، نسبتاً تفصیلی بحث کی ضرورت ہے (جس کا یہاں پر موقع نہیں ہے)

سوال ۱۱۶۲۔ کیا وہ مجتہد جس کے اختیارات وسیع ہیں، ابتدائی جہاد کا حکم دے سکتا ہے؟

جواب: وہ مجتہد اپنے فتوے کے مطابق عمل کرے چونکہ مجتہد کے لئے تقلید کرنا حرام ہے لیکن ہمارے فتوے کے مطابق عصر غیبت میں، جہاد ابتدائی جائز نہیں ہے ۔

سوال ۱۱۶۳۔ کیا اُس حملہ آور یا چور کو قتل کرنا جائز ہے جو کسی انسان پر حملہ کرے یا اس کے گھر میں چوری کرنے آئے؟

جواب: اس وقت جائز ہے جب قتل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو اور اس صورت میں اس کا خون ہدر ہے (یعنی قصاص وغیرہ نہیں کیا جاسکتا)

سوال ۱۱۶۴۔ جس وقت عراق کے ظالم لشکر نے، کویت پر قبضہ کیا، اس وقت مجھے یہ مسئلہ پیش آیا تھا، مہربانی فرماکر اس مسئلہ کا جواب عنایت فرمائیں واقعہ یہ ہے کہ کویت پر قبضہ کے آٹھویں دن، جب میں اپنے گھر واپس پہونچا تو میں نے ایک عراقی فوجی کو اپنے گھر میں اپنے چھوٹے بھائی کے پاس دیکھا، میں نے اپنے چھوٹے بھائی سے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ اس نے کہا: ایک عراقی فوجی ہے جو کویتی لوگوں کو قتل کررہے ہیں، لیکن میں نے اس کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی اور کمرے میں جاکر نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوگیا، اسی وقت اُس عراقی فوجی نے اُس پر اسلحہ سے وار کیا کہ اس کے بدن سے خون جاری ہوگیا، لیکن وہ ابھی زمین پر نہیں گرا تھا کہ میں ،اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان کے خوف کی وجہ سے دفاع کرنے پر تیار ہوا اور اس فوجی پر حملہ کردیا، شریعت کی رو سے اس طرح کے دفاع کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر حملہ آور فوجی، تمھاری جان ومال یا تمھارے بچوں کی جان ومال کا ارادہ رکھتا تھا تب اس صورت میں، ہر طرح کی چیز کے ذریعہ، دفاع کرنا جائز تھا اور اس کا خون، ہدر اور رائیگاں ہوگا ۔

سوال ۱۱۶۵۔ ایک شیعہ خاندان (یا گروہ) دوسرے شیعہ خاندان (یا گروہ) پر مسلحانہ حملہ کرے، جس میں بعض مومنین کو اپنی جان، مال اور عزت وآبرو کا خطرہ ہو، کیا اس صورت میں دوسرے خاندان پر دفاع واجب ہے؟

جواب: ان کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے لیکن ان کو نہایت کوشش کرنا چاہیے کہ اس طرح کے جھگڑوں سے روک تھام کریں تاکہ بات، قتل وخونریزی تک نہ پہنچے ۔

سوال ۱۱۶۶۔ مذکورہ بالا مسئلہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر ایک پارٹی کا کوئی آدمی یا ذمہ دار (جبکہ نہ ان کے پاس اسلحہ ہو اور نہ انھوں نے کسی کو قتل کیا ہو) دوسری پارٹی کے ذریعہ، قتل کردیا جائے، اس صورت میں، قاتل اور مقتول کا کیا حکم ہے؟

جواب: جو بھی، کسی مومن کو عمداً قتل کرے گا، اس کا حکم، قصاص ہے لیکن قصاص کو حاکم شرع یا اس کے نمائندے کے ذریعہ انجام دیا جانا چاہیے ۔

سوال ۱۱۶۷۔ ہندوستان سے، برطانیہ کا قبضہ ختم ہونے اور اس کے مسلمان نشین صوبہ ”جمووکشمیر“ میں تقسیم ہونے کے بعد مسلمانوں کے مطالبہ اور تقسیم کے قانون کے برخلاف لشکر کشی، زورگوئی اور طاقت کے زور پر، یہ علاقہ، ہندوستان کے قبضہ میں آگیا، مسلمانوں نے اپنے مذہب، کلچر اور ناموس کی حفاظت اور آزادی کی خاطر، قبضہ کرنے والوں کے خلاف قیام کیا ہے اور اس جدوجہد میں بدترین مصائب منجملہ قتل عام، ٹارچر، قید، لوٹ مار وغیره میں گرفتار ہوئے ہیں، کیا اس قیام اور جد وجہد کی خاطر، قتل ہونے والے مسلمان، شہید کہلائیںگے، نیز کیا یہ تحریک، جہاد شمار ہوگی؟

جواب: جب تک مسلمانوں کی جان، مال، ناموس کی حفاظت اور بقائے اسلام اور مذہب اہل بیت علیہم السلام کے لئے دفاع اور کوشش کررہے ہیں، ان کا یہ عمل ،جہاد ہے اور ان میں سے جو لوگ اس راہ میں قتل ہوئے ہیں، وہ شہید ہیں، لیکن کوشش کریں کہ مجتہد یا اس کے نمائندے سے، حکم، ضرور حاصل کریں ۔

سوال ۱۱۶۸۔ اگر پتہ چل جائے اور بخوبی واضح ہوجائے کہ اسرائیلی چیزوں کو دوسرے ممالک کے نام سے جیسے ٹرکی، قبرس یا دیگر تمام ممالک کے نام سے اسلامی ملکوں میں، درآمد کررہے ہیں، تاکہ خریداروں کو خبر نہ ہوسکے کہ یہ چیزیں اسرائیل کی بنی ہوئی ہیں ، اس لئے کہ جانتے ہیںکہ اگر مسلمانوں کو پتہ چل جائے کہ یہ چیزیں اسرائیل کی ہیں تو نہیں خریدیں گے، مسلمانوں کو اس طرح فریب ودھوکہ دینے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس فرض میں، مذکورہ چیزوں کا خریدنا جائز نہیں ہے، نیز مسلمانوں کو دھوکہ دینا جائز نہیں ہے، اور مسلمانوں کو ایسے ہر کام سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے دشمن کو تقویت حاصل ہو ۔

سوال ۱۱۶۹۔ کیا ٹور سینٹر والوں کے لئے، مسلمانوں کو، اسرائیل کے ٹور پر لے جانا جائز ہے؟

جواب: اس قسم کے ٹور، دشمنان اسلام کی تقویت کا سبب اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کا باعث ہوتے ہیں، لہٰذا یہ کام کسی مسلمان کے لئے بھی جائز نہیں ہے ۔

سوال ۱۱۷۰۔ اگر ٹور سینٹر اس قسم کے عمل کے مرتکب ہوجائیں تو کیا اس صورت میں مسلمانوں کے لئے اس طرح کے ٹور سینٹر سے،اسرائیل جانے کے لئے، ٹکٹ وغیرہ خریدنا جائز ہے؟

جواب: گذشتہ جواب کی طرح ہے ۔

سوال ۱۱۷۱۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں مقیم،بہت سے بہائی مذہب کے لوگ، اظہار کرتے ہیں کہ ہم ایران کے عام قانون کے پابند ہیں اور ہم نے کسی طرح کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے لیکن پھر بھی ہمارے حقوق، ضائع ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اصولاً کیا بہائی مذہب خصوصاً ایران میں مقیم بہائی مذہب والے، اہل ذمہ میں شمار ہوں گے؟

جواب: ہم جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں، بہائی گری، فقط ایک مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ زیادہ تر سیاسی حیثیت کا حامل ہے اور بہت زیادہ قرائن وشواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ غیروں اور دیگر ممالک کے فائدے کے لئے کام کرتے ہیں، بعض مغبی ممالک کے پارلیمنٹ کی طرف سے شدّت سے، ان کا دفاع کرنا، منجملہ ایک قرینہ اور شاہد ہے ، لہٰذا ان حالات میں ان کو ایک ایسے گروہ کی نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا جو مسالمت آمیز زندگی کا خواہاں ہو،حقیقت میں یہ لوگ محارب ہیں، (یعنی کافر حربی اور حالت جنگ میں ہیں)

سوال ۱۱۷۲۔ کیا مسلمانوں کے لئے، غیر اسلامی ممالک کو، اپنا وطن قرار دینا جائز ہے؟ کیا یہ کام ”تعرّب بعد الہجرة“ کے زمرے میں نہیں آتا؟

جواب: اگر کفر اور گناہ سے محفوظ ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور ”تعرّب بعد الہجرة“ کا مصداق نہیں ہے خصوصاً اس صورت میں کہ جب آہستہ آہستہ اپنے قول اور فعل سے وہاں پر اسلام کی تبلیغ کرسکتا ہو ۔

سوال ۱۱۷۳۔ کیا کفر والحاد وگناہ وفساد کے ملکوں کا تعلیم کی غرض سے سفر کرنا جائز ہے، جبکہ اپنے یازوجہ یا اپنے کسی ایک بچہ کے دین کے ضعیف ہونے کا امکان ہو یا بعض دینی فرائض کی جانب، بے توجّہی کا باعث یا وہاں کے رسم ورواج اور اخلاق وعادات سے متاٴثر ہونے کا امکان ہو؟

جواب: مسئلہ کے فرض میں، سفر کرنا اشکال سے خالی نہیں ہے ۔

سوال ۱۱۷۴۔ کیا کافر ممالک میں پناہ لینا فقط اس وجہ سے کہ، وطن میں کوئی کام نہیں ملتا، جائز ہے؟

جواب: اگر ضروری ہو اور وہاں کے حرام رسم ورواج سے ، متاٴثر نہ ہو، تب کوئی اشکال نہیں ہے ۔

سوال ۱۱۷۵۔ کیا غیر مسلم ممالک کا، چھٹی گذارنے، آرام کرنے اور ان ممالک کی فرہنگ اور آداب ورسوم سے آگاہی حاصل کرنے کی غرض سے، سفر کرنا جائز ہے؟ جبکہ حرام میں مبتلاء ہونے یا اپنے یا زوجہ یااپنے بچوں کے عقائد کمزور ہونے یا اس ملک کے لوگوں کے اخلاق سے متاٴثر ہوتے کا امکان ہو ۔

جواب: جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے کہ اگر یہ امکان، ایک عقلائی امکان ہو تو جائز نہیں ہے ۔

سوال ۱۱۷۶۔ کیا جائز ہے کہ مسلمان، کفر وگناہ کے شہروں کی جانب ہجرت کرے اور وہاں پر کام کرے اور اپنے ہنر اورفن کو کفار کی خدمت کے لئے استعمال کرے؟

جواب: مسلمانوں کے مغز متفکر، اُن کے ماہر اور متخصص اشخاص کو اسلامی ممالک کی خدمت کرنی چاہیے لیکن ضروری مواقع پر اگر کفار کی تقویت کا باعث اور مسلمانوں کی کمزوری کا سبب نہ بنیں اور ان کے حرام رسم ورواج سے متاٴثر نہ ہوں تب کوئی اشکال نہیںہے اور اگر اپنے قول وفعل سے ان علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کرسکے تو بہت اچھا ہوگا ۔

سوال ۱۱۷۷۔ کیا کافر شہروں کی طرف جانے کے لئے ز وجہ کے لئے اپنے شوہر کی مخالفت کرنا جائز ہے؟

جواب: اگر وہاں پر جانے سے، اس کے دین، عقیدے اور اخلاق کو چوٹ لگتی ہے تب اس کے لئے مخالفت کرنا جائز ہے ۔

سوال ۱۱۷۸۔ کیا بلاد کفر کی جانب جانے کے لئے، بچہ کو اپنے ماں باپ کی مخالفت کرنے کا حق ہے؟

جواب: گذشتہ جواب کے مثل ہے ۔

سوال ۱۱۷۹۔ اگر کوئی دینی مبلّغ ، اپنی زوجہ اور بچوں کے دین کے ضعیف ہونے کا امکان دے تو کیا اس صورت میں، بلاد کفر کی جانب تبلیغ کے لئے سفر کرسکتا ہے؟

جواب: فقط امکان اور احتمال کافی نہیں ہے، مگر یہ کہ قوی امکان ہو اور اس طرح کے مسائل میں جو تبلیغ اسلام سے مربوط ہیں، وسوسہ نہیں کرنا چاہیے

سوال ۱۱۸۰۔ کیا کوئی مسلمان، اس فرض کے ساتھ کہ اس کا ، یا اس کے اہل خانہ کا دین، ضعیف ہوجائے گا، طویل مدّت علاج کے لئے، بلاد کفر کا سفر کرسکتا ہے؟

جواب: گذشتہ جواب سے اس کا جواب بھی واضح ہوگیا ہے ۔

 

۱۔ زنا کی حد (سزا) چالیسویں فصل امر المعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کی دعوت اور برائیوں سے روکنا)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma