مسجد کے احکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 01
اذان اور اقامت مکان نمازگزار:

سوال ۱۴۵۔ کیا مسجد بنانے میں پڑوسیوں کی رضا ( اجازت) شرط ہے ؟

جواب: پڑوسیوں کا راضی ہونا شرط نہیں ہے ، لیکن ان کے لئے زحمت ایجاد نہیں ہونا چاہئیے ، مثال کے طور پر مسجد کے لاوٴڈاسپیکر ، یامسجد کے آس پاس گاڑیوں کی پارکنگ کے ذریعہ پڑوسیوں کو زحمت نہیں دینا چاہئیے ۔

سوال ۱۴۶۔ ضلع لارستان کے شرقویہ نامی گاوٴں میں ، قدیم زمانے کے تعمیرہ شدہ حمّام تھے ، جو بیس سال سے استعمال نہیں ہورہے تھے ، ایک موٴمن شخص نے انہیں گرادیا جواب زمین کی شکل میں موجود ہےں ، چونکہ یہ جگہ مذکورہ گاوٴں کی جامع مسجد کے نزدیک ہے اگر اجازت دیں تو اس زمین کے کچھ حصہ پر مسجد کے بیت الخلاء اور وضو خانہ بنادیاجائے اور باقی حصہ کو لوگوں کی آمد و رفت کے لئے راستہ بنا دیا جائے ؟

جواب :اگر حماموں کی دوبارہ تعمیر کی کوئی امید نہ ہو نیز اس آبادی میں دوسرے حماموں کی ضرورت بھی نہ ہو کہ اس زمین کو بیچ کر دوسری جگہ بنا دئے جائیں تو اس صورت میں جیسا کہ آپ نے تحریرکیا ہے ، اس کے مطابق عمل کرسکتے ہیں ۔

سوال ۱۴۷۔ جو مسجد ، نجس مصالحہ سے بنائی گئی ہے ، کیا اس کے ظاہر ی حصہ کو پاک کردینا ، کافی ہے ۔

جواب: کافی ہے اور مومنین کے دلوں میں وسوسہ نہ ڈالیں ۔

سوال ۱۴۸۔ کیاسید الشہداء کی عزاداری کے لئے وقف شدہ زمین پر مسجد بنائی جاسکتی ہے ۔

جواب : اگر ممکن ہو تو متولی سے ، اور متولی نہ ہونے کی صورت میں ، حاکم شرع سے ، اس زمین کو مسجد بنانے کے لئے کرایہ پر لے لےں نیز کچھ مقامی اور قابل اعتماد حضرات اس کرایہ نامہ پر دستخظ کردیں ، تاکہ بھلائی نہ جاسکے، اور ہر سال کرایہ کی رقم ، سید الشہداء . کی عزاداری میں خرچ کی جائے ، کرایہ کی مدت بھی معین کی جائے تاکہ مدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ کرایہ وغیرہ طے ہو سکے۔

سوال ۱۴۹۔ کیا مسجد کے غیر ضروری سامان کو بیچ کر ، اس کی رقم کو مسجد میں خرچ کیا جاسکتاہے ؟

جواب : اگر اس سامان کی ضرورت نہیں رہی ہے تو اس کو بیچ دیں اور اسی مسجد میں خرچ کریں ، اس لئے کہ مذکورہ سامان کو مسجد میں وقف یاعطیہ دینے والے شخص کی رائے سے زیادہ قریب یہی ہے کہ اسی مسجد میں خرچ کیا جائے ،لیکن اگر اس مسجد میں ضرورت نہ ہو تو دیگر تمام مساجد میں خرچ کیا جاسکتاہے ۔

سوال ۱۵۰۔ اگر بینک سے قرض لیکر مسجد بنا نے کے لئے زمین خریدی گئی ہو، اور قرض کی قسطیں جمع نہ کی گئی ہوں ، کیا اپنی رقم واپس لینے کے لئے بینک اس زمین میں تصرف کر سکتا ہے ؟

جواب: زمین کو اپنے ملکیت میں لینے کا بینک کو حق نہیں ہے ،بینک کو فقط اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا حق ہے ہاں اگر قرض لیتے وقت یہ شرط ہوئی تھی کہ اگر قسطیں جمع نہ کی گئیں ، تو زمین بینک کے اختیار میں دینا ہو گی ( تو زمین میںبینک کو تصرف کرنے کاحق ہے ) البتہ توجہ رہے کہ قرض ، شرعی عقد کے مطابق لیا جائے نہ کہ سود والا قرض۔

سوال ۱۵۱۔ کیا مسجدوں میں ( جائز ) فلم ،دکھانا جائز ہے ؟

جواب: یہ کام مسجد کی شان کے مناسب نہیں ہے ، بلکہ اس کام کے لئے دوسری جگہ کو نظر میں رکھا جائے ۔

سوال ۱۵۲۔کیا متروکہ گاؤں کی مسجد کو گرانا جائز ہے ؟

جواب:مسجد کو گرانا جائز نہیں ہے ،لیکن اگر خود بخود گر جائے تو اس کے سامان کو اس گاؤں کی دوسری مسجد یا دوسرے گاؤں کی مسجد میں منتقل کیا جا سکتا ہے ۔

سوال ۱۵۳۔مسجد میں مجلس یا فاتحہ خوانی کے سلسلے جو رقم دی جاتی ہے اسے کس مصرف میں استعمال کیا جائے ؟کیا مسجد کے خادم کا بھی اس میں کوئی حق ہے ؟

جواب : مجلس یا فاتحہ خوانی کے سلسلے میں دی گئی رقم کو ،متولی یا امام جماعت (جوبھی اس کام پر مامور ہو )کی زیر نگرانی ،مسجد کے فائدہ کے لئے خرچ کیا جائے خادم ان کی زیر نگرانی ،جس قدر عام طور پر معمول ہے خرچ کر سکتا ہے ،لیکن توجہ رہے کہ مسجد کو استعمال (مجلس وغیرہ کے لئے )کرنے کے عوض کوئی رقم نہیں لی جاسکتی ِالبتہ اگر کوئی اپنی مرضی سے دیدے یا جو انکے کام انجام دئے گئے ہیں ،اس کے عوض کوئی رقم دیدیں تو لی جاسکتی ہے ۔

سوال ۱۵۴ ۔جو مسجد یں سڑکوں پر واقع ہےں ، یا بیابانوں اور متروکہ گاؤں دیہاتوں میںبنی ہوئی ہیں اور کسی طرح بھی نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہےں ،اور کبھی تو نجس جانور اور نجاست کا مرکز بن جاتی ہےں ،ان مسجدوں کا حکم کیا ہے ؟

جواب : وہ مسجدیں جو سڑکوں پر متروکہ پڑی ہیں اور دوبارہ آباد ہونے کی امید بھی نہیں ہے ، ان میں مسجد ہونے اور وقف ہونے کا حکم زائل ہوجاتا ہے ،اور جس شخص نے ایسا کیا ہے اسے چاہیئے کہ اس مسجد کی قیمت کے برابر رقم دوسری مسجد بنانے یا دیگر تمام مسجدوں کی تعمیر میں خرچ کرے حقیقت میں یہ عین مال کو تلف کرنا ہے ،لیکن جب تک کوئی شدید ضرورت نہ آن پڑے ، مسجد کو گرانا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے اور وہ مسجدیں جوبیابانو ں میں متروکہ ہیں یا گاؤں و دیہاتوںمیں متروکہ پڑی ہوئی ہیں (یعنی ان میں کوئی نماز پڑھنے والا نہیں ہے )ان کو اس طرح محفوظ رکھنا چاہئے کہ ان کی بے حرمتی نہ ہو۔

سوال ۱۵۵۔ کیا کافروں کو مسجدوں میں داخل ہونے سے روکنا لازم و ضروری ہے ؟

جواب : احتیاط واجب یہ ہے کہ کافروں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکا جائے مگر جبکہ اسلام میں تحقیق یا اسی طرح کے دوسرے کام سے داخل ہونا چاہیں ۔

سوال ۱۵۶ ۔ کیا کسی کو کوئی چیز ہبہ کرنا یا بخش دینا، اس طرح کے کام مسجد میں جائز ہیں ؟اگر جائز ہوں توکیا حاکم شرع سے اجازت لینا ضروری ہے ؟

جواب :اس طرح کے کام مسجد میں انجام دینا ،حرام نہیں ہے اور حاکم شرع سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے ،البتہ دنیاوی کاموں کو مسجد میں انجام دینا مکروہ ہے اور اگر یہ کام نماز پڑھنے والوں کے لئے اذیت کا باعث ہو تو حرام ہے ۔

سوال ۱۵۷ ۔ ایک تین منزلہ مسجد ہے ، اور مسجد کی تیسری منزل رمضان المبارک یا اسی طرح کے دوسرے موقعوں کے علاوہ، نماز کے لئے زیادہ استعمال نہیں ہوتی ہے ،اس صورت میں ،کیا مسجد کی تیسری منزل کو جدا جدا حصے کرکے ،ہر ایک حصہ کو تعلیمی غرض سے، مثال کے طور پر ایک حصہ کو دارالقرآن کے لئے ،دوسرے کو طلاب کے لئے تحقیقاتی و مطالعاتی مرکز کے طور پر مخصوص کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب :اگر ایسے سامان کے ذریعہ جداکیا جائے جو نماز کےلئے ضرورت پڑنے پر ایک طرف ہٹایا جاسکے اور دینی کام مقصود ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۔۱۵۸ قدیم زمانے کا رواج تھا کہ خواتین اور مردوں کے حصے کے درمیان پردہ حائل ہوتاتھا اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حالت نماز میں یا وعظ و نصیحت کے وقت خواتین اور مردوں کے درمیان پردہ اور دیوار کا ہوناضروری نہیں ہے آپ کا نظریہ کیا ہے ؟

جواب : اگر خواتین کی صفیں ، مردوں کے پیچھے ہوں تو تو پردہ ضروری نہیں ہے لیکن اگر برابر میںہوں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ پردہ نصب ہونا چاہئے ۔

سوال ۱۵۹ ۔کیا اسلامی باتیں سننے کے لئے مسجد میں کافروں کے داخل ہونے میں کوئی اشکال ہے ؟

جواب : اگر واقعااسلام کی تحقیق کے لئے آناچاہیں تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔

 َسوال ۱۶۰۔ مسجد کے پروگرام امام باڑے میںاور امام باڑے کے پروگرام مسجد میں کیوں نہیں انجام دئے جاسکتے ؟چونکہ جائز ہونے کی صورت میں ہم دونوں میںسے ایک کو بنا لیں تاکہ زمین اور خرچ کے سلسلے میں اسراف سے بچاجا سکے ؟

جواب : مسجد میں خواتین اور کبھی مردوں کے لئے محدودیت پائی جاتی ہے ،امام باڑے میں زیادہ آزادی ہے ،البتہ مسجد میں نماز پڑھنے اور امام بارگاہ میں نماز پڑھنے میں بہت زیادہ فرق ہے ،یہی وجہ ہے کہ دونوں عمارتیں جدا جدا بنائی جاتی ہیں ۔

سوال ۱۶۱:وہ مسجدیں جن میں قبلہ کی جانب شبستان نہیں ہے ان میں قبلہ کی جانب شبستان بنانے کی کیا صورت ہے ؟

جواب ۔ضرورت کی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال ۱۶۲۔ اگر کوئی زمین مسجد سے چند میٹر بلند ہو اور اسکے نیچے سرداب بھی نہ ہو تو کیا اس صورت میں مسجد کے نیچے دکان بنواکر اسے پگڑی پر دے دیا جائے اور پگڑی کی رقم مسجد میں خرچ کر دی جائے ؟

جواب :جائز نہیں ہے لیکن اگر مسجد وقف کرنے والا ایسا کر دیتا تو جائز تھا البتہ اگر یہ کام مسجد کے (کتابخانے )لائبریری وغیرہ کے لئے انجام دیا جائے تو کو ئی حرج نہیں ہے (یعنی اس میں لائبریری وغیرہ بنائی جاسکتی ہے )

سوال ۱۶۳۔ اگر مسجد میں فرش (قالین چٹائی وغیرہ)یا دیگر سامان ،اضافی ہوں کیا مسجد میں ضرورت نہ ہو نے کی صورت میں دوسرے مستحق کو وہ اضافی قالین وغیرہ دے دیا جائے ؟

جواب : جائز نہیں ہے لیکن اس کو فروخت کر کے ،مسجد کی ا سی ضرورت کے مثل دوسری ضرورتوں میں خرچ کیا جاسکتا ہے ۔

سوال ۶۴ ۱۔ اگر دو مسجدیں ایک دوسرے کی برابر میں بنائی گئی ہوں ایک گرمیوں کی ہو اور دوسری سردی کے موسم کے لئے، سردی کے موسم کی مسجد چھوٹی ہو نے کی وجہ سے ضروری موقعوں مثال کے طور پر محرم کے مواقع پر لوگوں کی ضروررت کو پورا نہیں کر پاتی کیا اس صورت میں درمیانی دیوار پیچھے ہٹاکر گرمی کے موسم کی مسجد کو سردی کے موسم کی مسجد میں ملایا جاسکتا ہے ؟

جواب: ایسا کرنے میں اشکال ہے ،لیکن ایک مسجد سے دوسری مسجد میں دروازہ کھول سکتے ہیں ۔

سوال ۱۶۵۔ اگر مسجد کا ایک دروازہ ہو جس سے لوگ آتے جاتے ہوں اور بعض موقعوں پر جیسے محرم کے مہینہ میں خواتین بھی مسجد جاتی ہیں دوسرے دروازے کی ضرورت ہو تو کیا مسجد کے ایک طرف دوسرا دروازہ بنایا جا سکتا ہے ،تاکہ ضروری موقعوں پر استعمال کیاجا سکے اور ضرورت ختم ہونے کے بعددوبارہ پہلے دروازے سے رفت و آمد کی جاسکے ؟

جواب :کوئی حرج نہیں ہے ،

سوال ۱۶۶۔اگر مسجد سے متعلق باورچی خانہ چھوٹا ہو اور چائے پلانے کے لئے مزید ضرورت ہوتوکیا چائے پلانے کی مخصوص جگہ باورچی خانے کو کشادہ کیاجاسکتا ہے ؟

جواب :اگر نمازیوں کے لئے باعث زحمت نہ ہو نیز اس کے لئے جگہ تنگ نہ ہو اور مسجد کے لئے ضروری بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال ۱۶۷۔ ایک مالدار شخص نے تقریبا ۱۵ سال پہلے ایک مسجد تعمیر کرائی اس وقت اس مسجد کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے مسجد کے کچھ حصہ میں رضاکاروں کا دفتر ہے بانی مسجد راضی نہیں ہے حالانکہ اس مقام پر امن و امان قائم کرنے کے لئے رضاکاروں کا ہونا بہت ضروری ہے اوررضاکار امن قائم کرنے کے لئے کافی زحمت کرتے ہیں کیا اس صورت میں مذکورہ مسجد میں نماز پڑھنا یا دیگر فعالیتیںجو انجام دی جاتی ہیں صحیح ہےں؟۔

جواب : اگر وہ لوگ اسلام کے مثبت ثقافتی امور انجام دیتے ہیں اور نمازیوں کے لئے زحمت کا باعث بھی نہیں ہے تو جائز ہے، بانی مسجد کی رضایت بھی ضروری نہیں ہے ۔

سوال ۱۶۸۔تہران کی مسجدوں میں جو مجالس تحریم ہوتی ہیں اس میں خواتین بھی شرکت کرتی ہیں بعض خواتین حالت حیض میں ہوتی ہیں اور مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے اسی حالت میں مسجد میں چلی جاتی ہیں مجلس کے ختم ہونے کے بعد کبھی کبھی مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ مسجد کا فرش (قالین وغیرہ )نجس ہو گیا ہے اس سلسلے میں آپ اپنا نظریہ تحریرفرمائیں ؟

جواب :خواتین کے لئے حالت حیض میں مسجد میںٹہرنا حرام ہے اور اگر مسجد کا فرش خون سے آلودہ ہوجائے تو پاک کرنا واجب ہے اور جاہل و نادان اشخاص کو ان مسائل سے آشنا کرنا ضروری ہے ۔

سوال ۱۶۹۔مسجد کے برابر میں دوسری منزل پر ایک عمارت ان خواتین کے لئے تعمیر کی گئی ہے جو خواتین مسجد میں داخل ہونے سے معذور ہیں اس عمارت کو فاطمیہ کا نام دیا گیا ہے لیکن اس پر وقف کا صیغہ جاری نہیں ہوا ہے ،البتہ عمارت کو اس پیسے سے جو لو گوں سے جمع کیاگیا ہے بنایا گیا ہے ،اور اب ایک اور مزید اور بڑی عمارت امام باڑے کے نام سے مسجد کے پہلو میں تعمیر ہوئی ہے چونکہ مسجد کا خادم جس کے اہل و عیال پانچ افراد پر مشتمل ہیں اور جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے سختی میں ہے کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ پہلی عمارت (فاطمیہ )کو خادم سے مخصوص کر دیاجائے ؟

جواب :جائز نہیں ہے ،اس کے لئے دوسری جگہ نظر میں رکھی جائے وہ جگہ (فاطمیہ )وقف کے حکم میں ہے ۔

سوال ۱۷۰۔ شہر کرج کے حیدرآباد نامی مقام پر ایک زمین مسجد کے لئے وقف کی گئی تھی لوگوں نے مسجد بنانے کی نیت سے مدد کی پہلے اس مسجد کے سرداب میں نماز ہوتی تھی اب سرداب کے اوپر مسجد بن گئی ہے اور سرداب میں مسجد کا سامان رکھاجاتا ہے نیز اسی سرداب میں محرم اور سفر کے مہینوں میں امام حسین. کے عزاداروں کو کھانا کھلایا جاتا ہے معذور حضرات اس میں داخل نہیں ہو سکتے کیا اس سرداب میں جوانوں اور نوجوانوں کے ورزش کرنے کے لئے ورزشگاہ بنائی جاسکتی ہے اور اس کی درآمد کو مسجد میں خرچ کیا جا سکتا ہے ؟

جواب: جائز نہیں ہے بلکہ اس سرداب کو مسجد یا مسجد سے مناسب کاموں کے لئے استعمال کیا جا ئے ۔

سوال ۱۷۱۔ ایک ایسی زمین پر جو مقامی مسلمان اور عیسائیوں کی مشترک زمین ہے خود انھیں کی اجازت سے مسجد تعمیر کی گئی ہے اور اہل کتاب (عیسائی) اپنے مردوں کے ایصال ثواب کی رسومات مسلمانو ں کی مسجد میں انجام دیتے ہیں مسلمان مقرر اس جلسہ میں تقریر کرتا ہے خود عیسائی بھی جلسہ میں حاضر ہوتے ہیں اسی طرح مسجد میں جب مسلمانوں کی مجالس منعقد ہو تی ہیں تب بھی عیسائی شریک ہو تے ہیں کیا ان کا مسجد میں آنا مسجد کی بے حرمتی کا سبب نہیں ہے ؟

جواب : اگر انکا مسجد میں آنا اسلام سے زیادہ ر غبت و محبت کا سبب بنے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال ۱۷۲۔ اردکان نامی شہر کی مسجدوں میں قرآن کے کچھ خطی نسخے اوراسی طرح قرآن مجید کے بعض پاروں کے خطی نسخے موجود ہیں جن میں سے اکثر یا کچھ حصے خراب ہو گئے ہیں اور باقی بالکل ختم ہونے کو ہیں نیز چوری ہونے کا بھی امکان ہے کیا اس مسجد کی امانت کے عنوان سے ان قیمتی نسخوں کو شہر اردکان کے میوزیم میں محفوظ کیا جاسکتا ہے ؟

جواب : اگر مسجد میں استعمال کے قابل نہیں ہیں یا بالکل بوسیدہ اور ختم ہونے کی حالت میں ہیں تو ان کو بہتر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے یعنی انھیں میوزیم یا غیر میوزیم کو بیچ کر ان کے بدلے نئے قرآن خرید لیں اور اسی مسجد میں وقف کردیں ۔

سوال ۱۷۳۔ بعض مسجدوں اور امام باڑوں میں ( قدیم زمانے کے ) بہت سے لاٹین اور کافی تعداد میں لیمپ وغیرہ موجود ہیں جو اس وقت استعمال نہیں کئے جاتے ان میں سے اکثر مسجد کے انبار خانے میں پڑ ے ہوئے ہیں ان میں سے اکثر تو ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں یا آئندہ میںممکن ہے کہ آئندہ ٹوٹ جائیں ان میں سے بعض عہدہ داروں کے ہاتھوں فرخت ہوکر بہتر میں تبدیل ہوگئے ہیں جو باقی بچے ہیں کیا انھیں مسجد کے سامان کے عنوان سے میوزیم میں محفوظ کیا جاسکتاہے ؟

جواب: ۔مذکورہ جواب سے اس سوال کا جوا ب بھی واضح ہے ۔

سوال ۱۷۴۔ شہر اردکان میں ، فاطمیہ کے عنوان سے ، نذر کی ہوئی ایک عمارت تھی جو سڑک میں آگئی تھی ، اس عمار ت میں کچھ قدیمی چراغ ، آئینہ وغیرہ باقی رہ گئے ہیں ، جس کی ایک مسمار شدہ انبار میں ،حفاظت کی جاتی ہے ، جو اس وقت ناقابل استعمال ہیں اور ممکن ہے ، انبارخانہ کی چھت گرنے کیوجہ سے ، وہ سب ہی بر باد ہو جائیں ، اس صورت میں ، کیاان چیزوں کو میوزیم میں ، محفوظ کرلینا جائز ہے ؟

جواب:۔سابقہ مسئلہ کے مطابق عمل کریں ، اور اگر ان چیزوں کی رقم ، فاطمیہ میں ، خرچ ہونے کے لائق نہیں ہے ،تو اس صورت میں اس رقم کو ، امام باڑوں یا مسجدوںکے لئے ، انہیں چیزوں کے مثل ، دوسری چیزیں خرید نے میں خرچ کریں ۔

سوال ۱۷۵۔ اصفہان کے مبارکہ شہر میںخولیخان نامی گاوٴں میں ، قدیم زمانے کی ایک مسجدتھی ، اسلامی انقلاب کے بعد، چند نئی اور بڑی مسجدیں بھی بن گئیں ہیں ، جس کی وجہ سے ، قدیمی مسجد ، باکل طور پر استعمال نہیں ہوتی ، ضمناً یہ بنانا بھی بہتر ہے کہ اس مسجد کے لئے وقف کا صیغہ بھی جاری نہیں ہوا ہے چند سال سے اس گاوٴں کے ورزش ( پہلوانی) کرنے کے شائق جوان، گاوٴں میں کوئی ورزشگاہ ( اکھاڑا) نہ ہونے کی وجہ سے ، اس مسجد کو ورزشگاہ ( اکھاڑے) کے طور پر، استعمال کرتے ہیں ، اور چونکہ یہ ورزش ( پہلوانی) ایک قدیم اورروایتی ورزش ہے جس میں ، شروع سے آخرتک فقط یا علی ، یا محمد و آل محمد پرصلوات یا اسی طرح کے دیگر کلمات زبان پر جاری ہوتے ہیں، ان باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، کیااس مسجد میں ورزش کرنا صحیح ہے ؟

جواب: ۔مسجد کو کسی صورت میں بھی ، مسجد ہونے سے ، خارج یا ورزشگاہ میں تبدیل نہیں کرسکتے ، البتہ اگر اس میں ورزش کرنا ، مسجد کی توہین کا باعث نہ ہو، نیز نمایوں کے لئے زحمت کا سبب نہ ہوتو اس صورت میں وہاںپر ورزش کرنا جائز ہے ۔

سوال ۱۷۶۔ مسجدوں میں مذہبی جیسے نعرہٴ حیدری لگانا جیسا کہ پاکستان کی بعض مسجدوں میں رائج ہے ، کیا یہ عمل ، مکروہ ہے ؟

جواب: ایسے نعرے لگانے میں کوئی حرج نہیں ، جن کا مضمون صحیح اور مذہبی ہو لیکن شرط یہ ہے کہ نماز یوں کے لئے مزاحمت ایجاد نہ کریں نیزوہ نعر ے ایسی آوازوں پرمشتمل نہ ہوں جن سے مسجدوں کی توہین ہوتی ہے ۔

سوال ۱۷۷۔ کیا مسجدوں اور امام باڑوں کو مزّین کرنا جائز ہے ؟

جواب: اگر سونے یا زند ہ مخلوق کی تصویروں سے زینت نہ دی جائے نیز زینت دینے میں اسراف کا پہلو بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال ۱۷۸۔ گاوٴں کے کنارے ، ایک قدیمی مسجد کے دروازے کے قریب کچھ بنجر زمین پڑی ہے جس سے کوئی استفادہ نہیں کیا جاتا تقریبا ً۳۰ سال پہلے ، بچوں کے چند جنازے وہاں پر دفن کر دئے گئے تھے جبکہ اس زمین کے موقوفہ ہونے پرکوئی سند موجود نہیں ہے لہٰذا انجمن” محبان چہادہ معصومین علیہم السلام “ نے بستی والوں کی رضایت سے ، یہ عزم کیا ہے کہ اس زمین کا حصارکر کے وہاں پر امام باڑہ بنائیں اور قدیمی مسجد کی جو تقریباً گرنے والی ہے ، مرمت کرائیں اور اس کو وسعت دیں ، کیا شریعت کی رو سے یہ کام جائز ہے ؟

جواب:۔ اگر اس زمین کے موقوفہ ہونے پر کوئی سند موجود نہیں ہے نیز امام باڑہ بنانا، نبش قبر کا باعث نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال ۱۷۹۔ تقریباً ساٹھ یا ستر سال پہلی کی تعمیر شدہ ایک مسجد ہے لیکن اس کا جائے وقوع ، مناسب نہیں ہے ، یعنی سردیوں میں اس قدر ٹھنڈی رہتی ہے کہ محلہ والوں میں مسجد جانے اور وہاں پر نماز ، پڑھنے کی سکت اور ہمت نہیں ہے مذکورہ مسجد، ایسے شخص کی زمین کے قریب ہے ، جو خود تو دنیا سے گذر گیا ہے لیکن اس کی اولاد کا دعوا ہے کہ مسجد نوابین کے زور پر بنائی گئی تھی جبکہ مسجد اور اس کے آس پاس کی زمین ، ان کی ہے چونکہ انہوں نے اس بنجر زمین کو زراعت کے قابل بنایا اور آباد کیا تھا یہاں تک کہ ان لوگوں نے مسجد کے دروازے تک کھیت بنالیا ہے ، اس وجہ سے بستی والوں نے کچھ مدت سے ، دوسری مناسب جگہ پر مسجد تعمیر کر لی ہے ، جبکہ پہلی مسجد ، کھنڈر میں بدل چکی ہے ، اس سلسلہ میں لوگوں کا وظیفہ کیا ہے ؟ کیا مسجد کو گراکر ، اس جگہ باغ لگا سکتے ہیں تاکہ اس کی در آمدکونئی مسجدمیں خرچ کیاجاسکے، نیز توجہ رہے کہ بستی والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے ، جو دو مسجدوں کی ضرورت پڑے۔

جواب:۔ مسجد کو گرایا نہیں جاسکتا ، لیکن اگر خود بخود گر جائے نیز اس کے ملبہ اور سامان ، کے برباد ہونے کا خطرہ ہو تو اسے دوسری مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے ، اور اگر مسجد گر جائے اور اس کی زمین بہر کیف استعمال کے لائق نہ ہو تو اس صورت میں اس مسجد کی زمین کو ، دوسری مسجد کے فائدے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور قریبی زمینوں کے مالکوں کا قول ( دعوا) شرعی سند کے بغیر قابل قبول نہیں ہے ۔

سوال ۱۸۰۔ ایک مسجدجو تربیتی مرکزبھی ہے ، یہ مرکز بچوں اور نوجوانوں کو ، مسجد کی جانب مائل اور اسلامی تعلیم سے آشنا کرانے کے لئے کبھی کبھی مسجد میں ، ویڈیواور ( جمہوری اسلامی کی ) جائز فیلم دکھاتا ہے کیا یہ کام جائز ہے ؟

جواب:۔ جوانوں اور نوجوانوں کی ہدایت کے لئے ، مفید اور بے ضرر فیلم دکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن اس کام کے لئے ، مسجد کے علاوہ دوسری جگہ کا انتخاب کریں ، البتہ مسجد کی لائیبریری کے مخصوص ھال میں دکھائیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال ۱۸۱۔ کیا مسجدکی کمیٹی کے افراد، متولی کی اجازت کے بغیر ، مسجد کی تعمیر یامسجد کے کسی اور کام کے لئے قدم اٹھا سکتے ہیں ؟

جواب : ۔ احتیاط یہ ہے کہ متولی سے اجازت لیں ، لیکن اگر متولی ، مسجد کے قائدے کا لحاظ نہیں رکھتا یا مخالفت کرتا ہے تو حاکم شرع سے اجازت لیں ۔

 سوال ۱۸۲۔ کیا مسجد کے تہہ خانے کو، مسجد کے فوائد کی خاطر استعمال کر سکتے ہیں ،مثال کے طور پر ، مسجد میں شوفاژ ( گرم پانی سے چلنے والا مخصوص ہیڑ) لگانے کے لئے تہہ خانے میں اس کی مشین نصب کر سکتے ہیں ؟

جواب:۔ کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال ۱۸۳۔ مسجد کی حدود میں مثال کے طور پرتہہ خانے ، یا صحن وغیرہ میں دینی ( قرآن، احکام اور عقائد کی ) تعلیم کے ساتھ ثقافتی اور ورزشی ، فعالیت ، انجام دینے کی غرض سے ٹینس کی میز رکھنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب:۔ مسجد اور اس کے حدود میں ، مذکورہ وسائل(کھیل کے سامان ) سے ، استفادہ کرنا ، جائز نہیں ہے لیکن اگر لائبریری یاثقافتی امور کے لئے ، مسجد میں ھال بنایا گیاہے تو اس ہال سے مسجد کی حدود کے اندر، اس کام کے لئے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔

اذان اور اقامت مکان نمازگزار:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma