دسواں سبق:جنّت ،جہنّم اور تجسّم اعمال

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
نواں سبق:جسمانی اورروحانی معاد

بہت سے لوگ اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا موت کے بعد عالم آخرت بالکل اسی دنیا کے مانند ہے یا اس سے فرق رکھتا ہے؟ کیا اس عالم کی نعمتیں،سزائیں ،اور مختصر یہ کہ اس پر حکم فر ما نظام اور قوانین اسی دنیا جیسے ہیں؟
اس کے جواب میںواضح طورپر کہنا چاہئے کہ ہمارے پاس بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتاہے کہ اس دنیا اور اس دنیا میں کافی فرق ہے، حتی کہ اس حدتک فرق ہے کہ جو کچھ ہم اس دنیا کے بارے میں جانتے ہیں وہ ایک ایسی سیاہی جسم کے مانند ے جسے ہم دور سے دیکھتے ہیں۔
بہتر ہے کہ ہم اس سلسلہ میں اسی ”جنین“ والی مثال سے استفادہ کریں:جس قدر”جنین“ کی دنیا اور اس دنیا میں فرق ہے، اسی قدر یاا س سے زیادہ اس دنیا اور دوسری دنیا کے درمیان فرق ہے۔
اگر ماں کے شکم(عالم جنین) میں موجود بچہ عقل و شعور رکھتا اور باہر کی دنیا، آسمان،زمین،چاند،سورج،ستاروں،پہاڑوں،جنگلوں اور سمندروں کے بارے میں ایک صحیح تصویر کشی کرنا چاہتا تو وہ ہرگز یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔
عالم جنین میں موجود بچہ جس نے اپنی ماں کے انتہائی محدود شکم کے علاوہ کچھ نہین دیکھاہے، اس کے لئے اس دنیا کے چاند،سورج،سمند، امواج،طوفان،بادنسیم، اورپھولوں کی خوبصورتی کا کوئی مفہوم ومعنی نہیں ہے، اس کی لغت کی کتاب صرف چند الفاظ پر مشتمل ہے۔ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ ماں کے شکم کے باہر سے کوئی اس سے بات کرے تو وہ ہرگز اس کی بات کے معنی تک نہیں سمجھ سکتاہے۔
اس محدود دنیا اور اس دوسری وسیع دنیا کے درمیان فرق ایسا ہی یا اس سے زیادہ ہے، لہذا ہم کبھی دوسری دنیا کی نعمتوں اوربہشت برین کی حقیقت کے بارے میں ہرگزآگاہ نہیں ہوسکتے ہیں۔
اسی وجہ سے ایک حدیث میںآیاہے:
” فیھا مالاعین راٴت ولا اذن سمعت ولاخطر علی قلب بشر“
”بہشت میں ایسی نعمتیں ہیں کہ جنھیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ہے، کسی کان نے نہیں سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں ان کا تصور پیدا ہواہے۔“
قرآن مجید اسی مطلب کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
”<فلا تعلم نفس مااخفی لہم من قرّ اعین جزاء بماکانوا یعملون“(سورہ سجدہ/۱۷)
” پس کسی نفس کو نہیں معلوم ہے کہ اس کے لئے (وہاں پر)کیا کیاخنکی چشم کا سامان چھپاکر رکھا گیا ہے جوان کے اعمال کی جزاہے۔“
اس دنیا پر حکم فرما نظام بھی اس دنیا کے نظام سے کافی فرق رکھتاہے، مثلا:قیامت کی عدالت میں انسان کے ہاتھ، پاؤں، اس کے جسم کی جلد اوریہاں تک کہ جس زمین پر گناہ یا ثواب انجام دیا ہے اس کے اعمال کے گواہ ہوں گے:
قرآن مجید میں سورہ یٓس کی آیت نمبر۶۵ میں ارشاد ہواہے:
< الیوم نختم علی افواھھم و تکلمنا ایدیھم و تشھد ارجلھم بما کانوا یکسبون
” آج ہم ان کے منہ پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے۔“
دوسری جگہ پر سورہ فصلت کی آیت نمبر۲۱میں فرماتاہے:
<وقالوا لجلود ھم الّذی انطق کلّ شی
” اور وہ اپنے اعضاء سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دیدی ؟تووہ جواب دیں گے کہ ہمیں اسی خدا نے گویا بنایا ہے جس نے سب کو گویائی عطا کی ہے (تا کہ ہم حقائق بیان کریں)“
البتہ ایک زمانہ میںاس قسم کے مسائل کا تصور کرنا مشکل تھا، لیکن علم کی ترقی کے پیش نظر مناظر اور آواز کو رکارڈ اور ضبط کرنے کے نمونوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ چیز باعث حیرت نہیں ہے۔
بہر حال اگر چہ عالم آخرت کی نعمتوں کے بارے میں ہمارا تصور صرف دور سے نظر آنے والی ایک جسم کی سیاہی کے مترادف ہے اور ان کی وسعت اور اہمیت سے صحیح معنوں میں آگاہ نہیں ہو سکتے ہیں، لیکن اس حد تک جانتے ہیں کہ اس عالم کی نعمتیں اور
سزائیں، جسمانی اور روحانی دونوں صورتوں میں ہیں، کیونکہ معاد دونوں پہلو رکھتی ہے لہذا فطری طور پر اس کی جزاء وسزابھی دونوں جنبوں کے ساتھ ہونی چاہئے۔ یعنی جس طرح مادی و جسمانی جنبوں کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر۲۵ میںارشاد ہوتاہے:
<وبشرّالّذین آمنوا وعملوالصّٰلحٰت انّ لھم جنّت تجری من تحتھا الانھر  ولھم فیھا ازواج مطھرة وہم فیھا خالدون
” پیغمبر:آپ ایمان اور عمل صالح والوں کو بشارت دیں کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں بھی ہوںگی اور انھیں اس میں ہمیشہ رہنا بھی ہے۔“
اسی طرح قرآن مجید ، معنوی نعمتوں کے بارے میں بھی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۷۲ میں ارشاد فرماتاہے:
<ورضوان من اللّٰہ اکبر
”(بہشتیوں کو ملنے والی) اللہ کی خوشنود ی اور رضایت ان تمام نعمتوں سے برتر ہے۔“
جی ہاں، بہشتی اس احساس سے کہ خداوند متعال ان سے راضی ہے اور پروردگار عالم نے انھیں قبول کیاہے،اس قدر خوشنودی اورلذت کا احساس کرتے ہیں کہ اس کا کسی چیز سے موازنہ نہیں کیا جاسکتاہے۔جہنمیوں کے بارے میںبھی جسمانی عذاب اور آگ کے علاوہ ان پر خداوند متعال کا خشم و غضب اور اس سے ناراضگی ہر جسمانی عذاب سے
بدترہے۔
اعمال کا مجسم ہونا
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے معلوم ہوتاہے کہ قیامت کے دن ہمارے اعمال زندہ ہوں گے اور مختلف شکلوں میں ہمارے ساتھ ہوں گے، جزاوسزا کی اہم باتوں میں سے ایک یہی اعمال کا مجسم ہوناہے۔
ظلم وستم، کالے بادلوں کی صورت میں ہمارا محاصرہ کریں گے جیساکہ پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک حدیث میں آیا ہے:
<الظّلم ہو الظّلمات یوم القیامة
” ظلم قیامت کے دن تاریکیاںہے“
ناجائز طریقے سے کھا یا ہوایتیموں کا مال آگ کے شعلوں کے مانند ہمیں گھیر لے گا۔ اس سلسلہ میں سورہ نساء کی آیت نمبر۱۰ مین ارشادہوتاہے:
<انّ الّذین یاکلون اموال الیٰتمٰی ظلماً إنّما یاکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا
” جولوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کامال کھاجاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میںآگ بھر رہے ہیں اور عنقریب واصل جہنّم ہوںگے۔“
ایمان، نور وروشنی کی صورت میں ہمارے اطراف کو منور کرے گا۔ اس سلسلہ میں سورہ حدید کی آیت نمبر۱۲ میں ارشاد الہی ہے:
<یوم تری المومنین والمومنٰت یسعٰی نورہم بین ایدیھم وبایمانھم
” اس دن تم باایمان مردوں اور با ایمان عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ایمان ان کے آگے آگے اور دا ہنی طرف چل رہاہے“
سود خور ، جنھوں نے اپنے برے اور بے شرمانہ عمل سے معاشرہ کے اقتصادی توازن کو درہم برہم کیا ہوگا، وہ مرگی کے مریضوں کی طرح ہوںگے جو اٹھتے وقت اپنا توازن برقرار رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں، کبھی زمین پر گرتے ہیں اور کبھی لڑکھڑاتے ہوئے اٹھتے ہیں۔(سورہ بقرہ /۲۷)
جو مال ذخیرہ اندوزوں اور مالدار کنجوسوں نے جمع کرکے اس سے محروموں کا حق ادانہیں کیا ہے، وہ ان کے لئے ایک بھاری طوق کے مانند ان کی گردن میں اس طرح لٹکادیا جائے گا کہ وہ حرکت کرنے کی طاقت نہ رکھیں گے۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۸۰ میں ارشاد ہوتاہے:
<ولا یحسبنّ الذین یبخلون بما اٰتٰھم اللّٰہ من فضلہ ہو خیرا لھم بل ہو شرّ لھم سیطوّقون ما بخلوا بہ یوم القیمة
” اورخبردار جو لوگ خدا کے دئے ہوئے میں بخل کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ اس بخل میں کچھ بھلائی ہے۔ یہ بہت براہے اور عنقریب جس مال میں بخل کیا ہے وہ روز قیامت ان کی گردن میں طوق بنادیاجائے گ“
اسی طرح تمام اعمال اپنی مناسب صورت میں مجسم ہوںگے۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ علم وسائنس نے ثابت کیاہے کہ کوئی بھی چیز دنیا میں نابود نہیں ہوتی ہے بلکہ مادہ اورقوت (انزجی) ہمیشہ اپنی شکل و صورت بدلتے رہتے ہیں ۔ ہمارے افعال اور اعمال بھی نابود ہوئے بغیر ان دونوں صورتوں سے خارج نہیں ہیں اور اس قانون کے حکم کے مطابق جاودانی اور ابدی حالت میں ہیں، اگر چہ ان کی شکل و صورت بدل جائے۔
قرآن مجید ایک مختصر اور لرزہ خیز عبارت میںقیامت کے بارے میں فرماتاہے:
<ووجدوا ماعملوا حاضرا(سورہ کہف/۴۹)
” اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے“
حقیقت میں انسان جو کچھ پاتاہے وہ اس کے اعمال کا نتیجہ ہوتاہے ، لہذا خداوند متعال اسی آیت کے ذیل میں فورا فرماتاہے:
<ولایظلم ربّک احدا(سورہ کہف/۴۹)
”تمھارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتاہے“
ایک دوسری جگہ پر سورہ زلزال کی آیت نبمبر۶ میں فرماتاہے:
<یومئذ یصدر النّاس اشتاتا لیروا اعمالھم
”اس روز سارے انسان گروہ در گروہ قبروں سے نکلیں گے تا کہ اپنے اعمال کو دیکھیں ۔“
اسی سورہ زلزال کی آیت نمبر۷ اور۸ میں ارشاد ہوتاہے:
<فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرّةشرّا یرہ
”پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا“
مذکورہ آیات میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فرماتا ہے کہ خود ان اعمال کو دیکھے گا۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھنا یعنی اسی دنیا کے ہمارے چھوٹے بڑے اورنیک وبد اعمال کا محفوظ اور ثابت رہنا اور نابود نہ ہونا اور قیامت کے دن ہر جگہ ان کا ہمارے ساتھ رہنا سب کے لئے ایک انتباہ ہوسکتاہے تاکہ ہم اپنے برے اعمال اور گناہوں کے مقابل ہوشیار رہیں اور اپنے نیک اعمال کے چاہنے والے اور ان پر ثابت قدم رہیں۔
تعجب کی بات ہے کہ دوحاضرمیں ایسے آلات ایجاد کئے گئے ہیں کہ اس مسئلہ کے ایک حصہ کو اسی دنیا میں ہمارے لئے مجسم کیا جاسکتاہے:
ایک دانشور لکھتاہے: سائنس دان آج مصری کمہاروں کی دوہزار سال قدیمی آواز کو اسی طرح منعکس کرسکتے ہیں کہ وہ آواز سننے کے قابل ہے۔ کیونکہ مصری عجائب گھروں میں دوہزارسال پرانے کوز ے موجود ہیں کہ انھیں مخصوص چرخوں اور ہاتھوں سے بناتے وقت کمہاروںکی آوازکی لہریں کوزوں کے جسمون میں نقش ہوگئے ہیں اور آج ان لہروںکو نئے سرے سے اس طرح زندہ کیا جارہاہے کہ ہم اپنے کانوں سے انھیں سن سکتے ہیں(۱)۔
بہر حال مسئلہ معاد اورقرآن میں ذکر شدہ نیک لوگوںکی ابدی جزا اور بدکاروں کی دائمی سزاکے بارے میں بہت سے سوالات کا جواب ”اعمال کے مجسم ہونے“ اور ہراچھے اور برے کام کے انسان کے جسم و روح پر اثر ڈالنے اور اس اثر کے ہمیشہ ہمارے ساتھ رہنے کے پیش نظر دیاجاسکتاہے۔


۱۔کتاب”راہ طے شدہ“ سے ماخوذ۔
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔ جسمانی معاد سے مراد کیاہے؟
۲۔ جسمانی معاد کے منکرین کیا کہتے ہیں اورقرآن مجید ان کا کیسے جواب دیتاہے؟
۳۔ جسمانی معاد کے لئے عقلی استدلال کیاہے؟
۴۔ عدل و انصاف کے قانون اور جسمانی معاد کے درمیان کو ن سا رابطہ ہے؟
۵۔ شبہہ”آکل وماکل“ سے مرادکیا ہے اور اس کا جواب کیا ہے؟

 

نواں سبق:جسمانی اورروحانی معاد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma