پہلاسبق: امامت کی بحث کب سے شروع ہوئی؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
دوسرا سبق: امام کے وجود کا فلسفہ دسواں سبق : (صلی الله علیه واله والسلم) کا خاتم الانبیاء ہونا

ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسلمان دو گرہوں میں تقسیم ہو گئے:
ایک گروہ کا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا جانشین مقرر نہیں فر مایا ہے ،اور یہ کام امت پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ مل بیٹھ کر اپنے در میان میں سے کسی ایک کو رہبر کے عنوان سے منتخب کریں ۔اس گروہ کو ”اہل سنت“کہتے ہیں۔
دوسرا گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین آپکے ہی مانند خطا و گناہ سے معصوم ہو نا چاہئے اور بے پناہ علم کا حامل ہو نا چاہئے تاکہ لوگوں کی معنوی و مادی رہبر ی کی ذمہ داری سنبھال سکے اور اسلام کے اصولوں کی حفاظت کرتے ہو ئے انھیں بقا بخشے۔
ان کا عقیدہ ہے کہ ان شرائط کے حامل جانشین کا انتخاب خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ہی ممکن ہے ،اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلی وسلم نے یہ کام انجام دیا ہے اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جا نشین مقرر فر مایا ہے۔اس گروہ کو ”امامیہ“یا”شیعہ“کہتے ہیں۔
ان مختصر مباحث سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں عقلی،تاریخی اور قرآن وسنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلائل کی روشنی میں بحث و تحقیق کریں۔لیکن اس بحث کو شروع کر نے سے پہلے ہم چند نکات کی طرف اشارہ کر نا ضروری سمجھتے ہیں:
کیا یہ بحث اختلاف پیدا کرنے والی ہے ؟
جب اما مت کی بحث چھڑتی ہے تو بعض لوگ فوراً یہ کہتے ہیں کہ آج کل ان باتوں کا زمانہ نہیں ہے!
آج مسلما نوں کے اتحاد ویکجہتی کا زمانہ ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
جا نشین کا مسئلہ پر گفتگو کر نا اختلاف و افتراق پیدا ہو نے کا سبب بن سکتا ہے!
آج ہمیں اپنے مشترک دشمنوں کے بارے میں سوچنا چاہئے ،جیسے:صہیونزم اور مشرق و مغرب کی استعماری طاقتیں ۔اس لئے ہمیں اس اختلافی مسئلہ کو پس پشت ڈالنا چاہئے ۔لیکن یہ طرز فکر یقینا غلط ہے، کیو نکہ:
۱۔جو چیز اختلاف وافتراق کا سبب بن سکتی ہے ،وہ تعصب پر مبنی غیر معقول بحث اور کینہ پرور جھگڑے ہیں ۔لیکن مخلصانہ اور دوستانہ ماحول میں،تعصب ،ہٹ دھرمی اور لڑائی جھگڑوں سے پاک عقلی واستدلال بحثیں نہ صرف اختلاف انگیز نہیں ہیں ،بلکہ باہمی فاصلوں کو کم اور مشترک نقطہ نظر کو تقویت بخشتی ہیں ۔
میں نے اپنے حج و زیارت کے سفروں کے دوران متعدد بار حجاز کے اہل سنت علماء اور دانشوروں سے اس سلسلہ میں بحثیں کی ہیں ۔ہم دونوں فریق محسوس کرتے تھے کہ یہ بحثیں نہ صرف ہمارے تعلقات پر برُا اثر نہیں ڈالتی تھیں بلکہ زیادہ سے زیادہ آپسی افہام وتفہیم اور خوش فہمی کا سبب بھی بنتی تھیں۔یہ بحثیں ہمارے آپسی فاصلوں کو کم کرتی ہیں اور اگر کوئی بغض وعناد ہو تو اسے دلوں سے پاک کر دیتی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ان بحثوں کے دوران واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے در میان مشترک نقطہ نظر کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ ہم ان مشترک نظریات پر اعتماد اور بھروسہ کر کے اپنے مشترک دشمن کا مقا بلہ کر سکتے ہیں۔
خود اہل سنت بھی چار مذاہب میں تقسیم ہو ئے ہیں (حنفی،حنبلی ،شافعی اور مالکی)ان چار مذاہب کا وجود ان میں اختلاف کا سبب نہیں بنا ہے اگر وہ شیعہ فقہ کو کم از کم پانچویں فقہی مذہب کے عنوان سے قبول کریں گے تو بہت سے اختلا فات اور مشکلات دور ہو جائیں گے،جیسا کہ ماضی قریب میں اہل سنت کے عظیم مفتی اور مصر کی الازہر یونیورسٹی کے سر براہ”شیخ شلتوت“نے اہل سنت کے در میان فقہ شیعہ کا باضابط طور پر اعلان کر کے ایک بڑا اور مؤثر قدم اٹھایا ۔انہوں نے اس طرح اسلامی افہام و تفہیم کے حق میں ایک بڑی اور مؤثر خد مت کی جس کے نتیجہ میں شیخ شلتوت اور عالم تشیع کے مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمی مرحوم بروجردی کے در میان دوستانہ تعلقات برقرار ہو ئے ۔
۲۔ہمارااعتقاد ہے کہ دوسرے مذاہب سے زیادہ شیعہ مذہب میں اسلام کی تجلّی واضح صورت میں موجود ہے ۔ہم تمام مذاہب کا احترام کرتے ہوئے عقیدہ رکھتے ہیں کہ مذہب شیعہ اسلام کو تمام جہات میں بہتر صورت میں پہچنوا سکتا ہے اور اسلامی حکومت سے متعلق مسائل کو حل کر سکتا ہے ۔
تو پھر کیوں نہ ہم اپنے بچوں کو دلیل و منطق کے ساتھ اس مکتب کی تعلیم دیں؟!اور اگر ایسا نہ کیا تو یقینا ہم ان کے ساتھ خیانت کریں گے۔
ہمیں یقین ہے کہ پیغمبر اسلام نے قطعاًاپنے جا نشین کو معین فر مایا ہے ،اس میں کیا مشکل ہے کہ عقل ومنطق اور دلیل وبرہا ن سے اس موضوع پر بحث کریں؟
لیکن ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس بحث کے دوران دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کریں۔
۳۔اسلام کے دشمنوں نے ،مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کی بنیادوں کو متزلزل کر نے کے لئے سنیوں میں شیعوں کے خلاف اور شیعوں میں سنیوں کے خلاف اس قدر جھوٹ اور تہمتیں پھیلائی ہیں کہ جس کے نتیجہ میں بعض ممالک میں تما م شیعہ اور سنی ایک دوسرے سے دور ہو گئے ہیں ۔
جب ہم اما مت کے مسئلہ کو مذکورہ ذکر شدہ طریقے سے بیان کریں گے اور شیعوں کے نقطہ نظر کو قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں دلائل سے واضح کریں گے،تو معلوم ہو گا کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا تھا اور ہمارے مشترک دشمنوں نے زہر چھڑ کا ہے ۔
مثال کے طور پر میں یہ کبھی بھول نہیں سکتا کہ ایک سفر کے دوران عربستان کی ایک عظیم دینی شخصیت سے میری ملاقات اور بحث ہوئی ۔اس نے اظہار کیا :”میں نے سنا ہے کہ شیعوں کا قرآن ہمارے قرآن سے الگ ہے۔“
میں نے انتہائی تعجب کے ساتھ اس سے کہا :میرے بھائی اس بات کی تحقیق کر نا بہت آسان ہے۔
میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ خود یا آپ کا نما ئندہ میرے ساتھ آئے تاکہ ”عمرہ“کے بعد کسی پیشگی اطلاع کے بغیر ایران چلیں وہاں کے تمام کوچہ وبازار میں مسجدیں ہیں اور ہر مسجد میں بڑی تعداد میں قرآن مجید موجود ہیں۔اس کے علاوہ تمام مسلما نوں کے گھروں میں بھی قرآن مجید موجود ہیں ۔آپ جس مسجد میں چاہیں گے ہم چلیں گے یا جس گھر میں چاہیں اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور ان سے قرآن مجید طلب کریں گے تاکہ معلوم ہو جائے کہ آپ کے اور ہمارے قرآن میں ایک لفظ حتیٰ کہ ایک نقطہ کا بھی اختلاف نہیں ہے ۔(بہت سے قرآن مجید ،جن سے ہم استفادہ کرتے ہیں خود عربستان ،مصر اور دنیا کے دوسرے اسلامی ممالک سے شائع ہوئے ہیں)
بیشک اس دوستانہ اور نہایت استدلالی بحث کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کے دشمنوں نے اس مشہور عالم دین کے ذہن میں جو عجیب زہر افشانی کر رکھی تھی ،اس کا اثر ختم ہو گیا۔
مقصود یہ ہے کہ اما مت سے مربوط بحثیں ،جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا، اسلامی معاشرے میں اتحاد واتفاق کو مستحکم کرتی ہیں اور حقائق کے واضح ہو نے اور فاصلے کم ہو نے میں مدد کرتی ہیں۔
امامت کیا ہے؟
جیسا کہ عنوان سے ہی واضح ہے کہ ”امام“مسلمانوں کے پیشوا اور قائد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور شیعوں کے اصول عقائد کے اعتبار سے ”امام معصوم“اسے کہا جاتا ہے جو ہر چیز میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین ہو،اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبرمذہب کا بانی ہو تا ہے اور امام مذہب کا محافظ و نگہبان ہوتا ہے ۔پیغمبر پر وحی نازل ہو تی ہے لیکن امام پر وحی نازل نہیں ہو تی ہے۔ امام پیغمبر سے تعلیمات حاصل کرتا ہے او رقدرت کی طرف سے غیر معمولی علم کا حامل ہوتا ہے ۔
شیعہ عقیدہ کے مطابق ”امام معصوم“حکومت اسلامی کا صرف رہبر ہی نہیں ہوتا ہے ،بلکہ وہ معنوی و مادی ،ظاہری و باطنی ،غرض ہر جہت سے اسلامی معاشرے کا رہبر اور قائد ہو تا ہے ،وہ اسلامی عقائد و احکام کا نگہبان اور محافظ ہو تا ہے اور ہر قسم کے خطا وانحراف سے محفوظ ہو تا ہے اور وہ خدا کا منتخب بندہ ہوتا ہے۔
لیکن اہل سنت ،امامت کی اس طرح تفسیر نہیں کرتے ہیں ،بلکہ وہ اسے صرف اسلامی معاشرہ کا سر براہ جا نتے ہیں ،اور دوسرے الفاظ میں وہ ہر عصر وزمانہ کے حکمرانوں کو پیغمبر کا خلیفہ اور مسلمانوں کا امام جانتے ہیں۔
البتہ ہم آئندہ بحثوں میں ثابت کریں گے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں ایک الہٰی نمایندہ کا ہونا ضروری ہے یعنی پیغمبر یا ایک معصوم امام روئے زمین پر ضرور موجود ہو نا چاہئے تاکہ دین حق کی حفاظت اور طالبان حق کی رہبری کرے ۔اور اگر کبھی یہ امام معصوم کسی مصلحت کے پیش نظر لوگوں کی نظروں سے غائب ہو جائے تو اس کی طرف سے اس کے نمائندے احکام الہٰی کی تبلیغ اور حکومت اسلامی کی تشکیل کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔


 غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آج کل امامت کی بحث کرنا مناسب نہیں ہے ان کی دلیل کیا ہے۔
۲۔اس دلیل کے مقابلے میں اس بحث کی ضرورت کے لئے ہمارے پاس کتنے مستدل جواب ہیں؟
۳۔اسلام کے دشمن مسلمانوں کے در میان اختلا فات کو کیسے پھیلاتے ہیں اور ان اختلا فات کو دور کر نے کا طریقہ کیا ہے؟
۴۔کیا آپ دشمنوں کی تفرقہ اندازی کے کچھ نمو نے پیش کر سکتے ہیں؟
۵۔شیعہ مکتب میں ”امامت“کے کیا معنی ہیں اور اس کا سنی مکتب میں”امامت“ کے معنی سے کیا فرق ہے؟

دوسرا سبق: امام کے وجود کا فلسفہ دسواں سبق : (صلی الله علیه واله والسلم) کا خاتم الانبیاء ہونا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma