ساتواں سبق : ارادہ و اختیارکی آزادی پر واضح ترین دلیل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
آٹھواں سبق:”امر بین الامرین“(یاوسطی مکتب)کیا ہے؟ چھٹا سبق : جبر و اختیارکا مسئلہ

۱۔انسان کا ضمیر جبر کی نفی کرتا ہے

اگر چہ الہٰی فلاسفہ اور علماء نے انسان کے ارادہ میں آزاد ہونے کے سلسلہ میں گوناگوں دلائل پیش کئے ہیں ،مگر ہم اختصار کے پیش نظر ان دلائل میں سے ایک واضح ترین دلیل کو پیش کرتے ہیںاور یہ دلیل ”انسان کا ضمیر“ہے۔
ہم ہر چیز کا انکار کر سکتے ہیں ،لیکن اس بات کا انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ ہر معاشرے میں ۔چاہے وہ خدا پرستوں کا معاشرہ ہو یا مادہ پرستوں کا،مشرقی ہو یا مغربی، قدیم ہو یا جدید،امیر ہو یا غریب ،ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ،معاشرے میں موجود ہر قسم کے افراد اس بات پر متفق ہیں کہ ۔ایک ایسے”قانون“کا ہو نا ضروری ہے کہ جو معاشرے پر حاکم ہو اور لوگ اس قانون کی پیروی میں اپنی”ذمہ داری“پوری کریں اور اس قانون کی خلاف ورزی کر نے والے کو”سزا“دی جائے۔
مختصر یہ کہ”قانون“کی حاکمیت،عوام کی طرف سے قانون کا احترام اور اس کی”ذمہ داری“اوراس قانون کی خلاف ورزی کر نے والوں کو اس کی”سزا“جیسے مسائل پردنیا کے تمام عقلاء کا اتفاق ہے ،البتہ صرف وحشی اور غیر مہذب اقوام ان تینوں باتوں کو قبول نہیں کرتے۔
یہ مسئلہ،جسے ہم”تمام دنیا کے افرادکے ضمیر“کے نام سے تعبیر کرتے ہیں، انسان کے اپنے ارادہ میں آزاد ہو نے پر واضح ترین دلیل ہے۔
یہ کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ انسان اپنے ارادہ وعمل میں مجبور ہو اور کسی قسم کا اختیار نہ رکھتا ہو لیکن قوانین کا احترام اور ذمہ داری اس کے لئے ضروری ہو اورقوانین کی خلاف ورزی کر نے پر اس سے باز پرس بھی ضروری ہو کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟اور ایسا کیوں نہیں کیا؟
اور خلاف ورزی ثابت ہو نے پر کبھی اس کو جیل کی سزا اورکبھی سزائے موت کا بھی سامنا کر نا پڑے۔
اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ہم پہاڑوں سے پھسل کر سڑک پر گر نے والے پتھروں ،جو مسافروں کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں ،کو عدالت میں لاکر ان کے خلاف مقدمہ چلائیں۔
یہ صحیح ہے کہ بظاہر ایک انسان اور پتھر کے ٹکڑے کے در میان بہت فرق ہے۔لیکن اگر ہم انسان کو اپنے ارادہ میں آزاد نہ جانیں تو یہ فرق بالکل ختم ہو جاتا ہے ،جس کے نتیجہ میں انسان اور پتھردونوںجبری عوامل کے تابع ہو جائیں گے۔پتھر قانون جاذبہ کے تحت سڑک کے بیچ میں آگرتا ہے اور انسان جبری عوامل کی وجہ سے مجرم،قاتل اور سرکش بن جاتا ہے ۔عقیدئہ جبر کے قائل افراد کے مطابق ان دونوں کے در میان کسی بھی قسم کا فرق نہیں ہے اور چونکہ کسی نے اپنے ارادہ سے کام انجام نہیں دیا ہے ،لہذا ایک کو عدالت کی کچہری میں کھڑا کر نا اور دوسرے کو چھوڑ دینا کیسے صحیح ہو گا؟!
ہم ایک دورا ہے پر کھڑے ہیں :یا تمام افراد کے عمومی ضمیر کو غلط اور خطا قراردیں اور تمام قوانین ،عدالتوں،مجرمین کو دی جانے والی سزاؤں کو بیہودہ،بلکہ ظالمانہ کام قرار دیں یاپھر ”عقیدہ جبر“ کا انکار کریں۔
بیشک دوسری ہی بات قابل ترجیح ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلسفی عقیدہ وتفکر کے لحاظ سے عقیدئہ جبر کا دم بھرنے والے افراد بھی جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو وہ عملی طور پر ”آزادی ارادہ“ کے عقیدہ پر عمل کرتے ہیں!
کیونکہ اگر کوئی شخص ان کے حقوق کو پامال کرے یا ان کو تکلیف پہنچائے تو اس کو سزا کا مستحق سمجھتے ہیں اور عدالت میںجاکر اس کے خلاف شکایت کرتے ہیں اور کبھی اتنا چیختے چلّاتے ہیں کہ جب تک اس کو سزا نہ مل جائے،چین سے نہیں بیٹھتے۔
پس اگر انسان اپنے ارادہ میں آزاد نہیں ہے تو یہ سرزنش،شکایت اورشور وغوغا اور داد و فریاد کس لئے کرتا ہے؟!
بہر حال دنیا کے عقلا کا عمومی ضمیر اس بات پر زندہ دلیل ہے کہ ”ارادہ کی آزدی“کی حقیقت کا اقرار تمام انسان اپنے دل کی گہرائیوں سے کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کے حامی اور طرفدار رہے ہیں اور اپنی زندگی کا ایک دن بھی اس عقیدہ کے بغیر نہیں گزار سکتے ہیں اور اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو اس کے بغیر نہیں چلاسکتے ہیں۔
عظیم اسلامی فلاسفر،”خواجہ نصیرالدین طوسی “جبر واختیار کی بحث کے دوران ایک مختصر اور جامع عبارت میں فر ماتے ہیں :
”والضر ورة فاضیة باستناد افعالنا الینا “(تحریر العقائد ،بحث جبرو اختیار)
”ہمارا ضمیراس بات کا متقاضی ہے کہ ہمارے تمام اعمال خود ہم سے مربوط ہیں۔“

۲۔”جبر“کی منطق کا مذہب کی منطق سے تضاد

مذکورہ گفتگو کا تعلق اس بات سے تھا کہ جبر کا عقیدہ دنیا کے عقلاء کے عمومی ضمیر سے تضاد رکھتا ہے خواہ یہ عقلاء کسی مذہب کے ماننے والے ہوں یا لا مذہب۔
لیکن ہم مذہبی طرز فکر کے لحاظ سے بھی ایسے قطعی اور یقینی دلائل رکھتے ہیں جو عقیدئہ جبر کے باطل ہو نے پر دلالت کرتے ہیں ۔کیونکہ مذہبی عقائد ہرگز جبر کے عقیدہ کے موافق نہیں ہیں کیونکہ عقیدئہ جبر کو قبول کر نے کی صور ت میں مذہبی اصول وقوانین بھی مخدوش ہو جائیں گے ۔اس لئے کہ ہم گزشتہ بحث میں واضح طور پر ثابت کئے گئے عدل الہٰی کو جبر کے عقیدہ کی روشنی میں ثابت نہیں کرسکتے ہیں ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوند متعال کسی کو برا کام انجام دینے پر مجبور کر کے اور پھر اس کو ایسا کام انجام دینے کے جرم میں سزا دے اور بازپرس کرے کہ کیوں یہ کام انجام دیا؟یہ کسی بھی منطق و عقل کے مطابق نہیں ہے!
لہذا جبر کے عقیدہ کو قبول کر نے کی صورت مین ثواب وعقاب اورجنت و جہنّم بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات میں نامہ اعمال،سوال و جواب،الہٰی حساب،بد کاروں کی مذمت اور صالحین کی ستائش میں ذکر ہو ئے مفاہیم بھی بے معنی ہو جائیں گے۔کیونکہ اس عقیدہ کی بنیاد پر نیک اور بد کار افراد کے ارادہ واختیار میں کچھ نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ہم مذہب میں سب سے پہلے انسان کی ”تکلیف اور ذمہ داری“سے مواجہ ہوتے ہیں ۔لیکن اگر انسان مجبور ہو تو کیا پھر اس ”تکلیف اور ذمہ داری“کا کوئی مطلب اور مفہوم ہے؟!
کیا ہم رعشہ کے مرض میں مبتلا کسی مریض کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے ہاتھ کی تھر تھراہٹ کو روک لے یا کسی ترائی میں پھسلنے والے شخص کو کہہ سکتے ہیں کہ رک جائے؟
یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام ایک مشہور روایت میں مکتب جبر کو بت پرستوں اور شیطان کی جماعت کامکتب قرار دیتے ہوئے فر ماتے ہیں:
”تلک مقالہ اخوان عبدة الاوثان وحضماء الرحمان وحزب الشیطان“ (اصول کافی ج۱،ص۱۱۹ باب جبر والقدر)
”یہ بت پرستوں کے بھائیوں ،خدا کے دشمنوں اور شیطان کے گروہ کی باتیں ہیں۔“


غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔جبر کے بطلان کی واضح ترین دلیل کیا ہے؟
۲۔ارادہ کی آزادی کے سلسہ میں دنیا کے لوگوں کے ضمیر کی وضاحت کیجئے۔
۳۔کیا جبر کا عقیدہ رکھنے والے عملی طور پر بھی ”جبر“کے مطابق عمل کرتے ہیں؟
۴۔کیا”جبر کا عقیدہ“عدل الہٰی کے موافق ہے؟اگر نہیں تو کیوں؟
۵۔ارادہ کی آزادی ہر قسم کی ذمہ داریوں کو قبول کر نے کی بنیاد کس طرح ہے؟
 

آٹھواں سبق:”امر بین الامرین“(یاوسطی مکتب)کیا ہے؟ چھٹا سبق : جبر و اختیارکا مسئلہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma