۵۵۔اہل بیت ،علوم پیغمبر (ص) سے ماٴخوز ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
ہمارے عقیدے
مختلف مسائل۵۴۔صحابہ،عقل اور تاریخ کی عدالت میں

ہمارا عقیدہ ہے کہ :چونکہ متواتر روایات کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نے ہمیں اہل بیت کے متعلق حکم دیا ہے کہ ہم ان دونوں کا دامن نہ چھوڑیں تاکہ ہم ہدایت پائیں،نیز چونکہ ہم آئمّہ اہل بیت (ع) کو معصوم سمجھتے ہیں ،اس لئے ان کی ہر بات اور ان کا ہر عمل ہمارے لئے حجت اور دلیل ہے ۔اسی طرح ان کی تقریر (یعنی ان کے سامنے کوئی کام انجام پائے اور وہ اس سے منع نہ کریں ) بھی حجت ہے۔بنا بریں قرآن و سنت کے بعد ہمارا ایک فقہی ماٴخذ آئمہ اہل بیت (ع) کا قول،فعل اور تقریر ہے۔
اور چونکہ متعدد اور معتبر روایات کے مطابق آئمّہ اہل بیت (ع) نے فرمایا ہے کہ ان کے فرامین رسول اللہ (ص) کی احادیث ہیں جو وہ اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہیں ،بنابر ایں واضح ہے کہ حقیقت میں ان کے فرامین پیغمبر (ص) کی روایات ہیں ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) سے ثقہ اور با اعتماد شخص کی روایت علمائے اسلام کے نزدیک قابل قبول ہے۔
امام محمد بن علی الباقر علیہ السلام نے جابر سے فرمایا(
یا جابر انّالو کنّانحدّثکم براٴینا و ھو ان ا لکنّا من الھالکین ،ولکن نحدّثکم باحادیث نکنذھا عن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)یعنی اے جابر ؛اگر ہم اپنی رائے اور خواہشات نفسانی کی بناء پر تمہارے لئے کوئی بات بیان کریں تو ہم تباہ ہونے والوں میں شامل ہو جائیں گے ۔ لیکن ہم تمہارے لئے ایسی احادیچ نقل کرتے ہیں جو ہم نے رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے خزانہ کی صورت میں جمع کی ہیں ۔
(جامع احادیث الشیعہ ،جلد ۱صفحہ۱۸ از مقدمات ،حدیث ۱۱۶)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ کسی نے امام (ع) سے سوال کیا اور حضرت (ع) نے جواب دیا ۔ اس شخص نے امام کی رائے تبدیل کرنے کی غرض سے بحث شروع کر دی تو امام صادق (ع) نے فرمایا :
(ما اجبتک فیہ من شئی فھو عن رسول اللہ)یعنی میں نے تجھے جو جواب دیا ہے وہ پیغمبر (ع) سے منقول ہے(اور اس میں بحث کی گنجائش نہیں ہے)۔(اصول کافی ،جلد ۱ صفحہ۵۸حدیث۱۲۱)
قابل غور اور اہم نکتہ یہ ہے کہ حدیث کے سلسلہ میں ہمارے پاس کافی،تحذیب،استبصار، من لا ےحضرہ الفقیہ اور دوسری معتبر کتابیں ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کتابوں میں موجود ہر روایت ہماری نظر میں قابل قبول ہے بلکہ روایات سے متعلق کتب کے ساتھ ہمارے پاس علم رجال کی کتب بھی موجود ہیں ،جن میں ہر طبقہ کے راویان احادیث پر بحث کی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک وہ روایت قابل قبول ہے،جس کی سند میں مذکور تمام افراد ثقہ اور قابل اطمینان ہوں ۔لہٰذا ان مشہور اور معتبر کتب میں جو روایات اس شرط کی حامل نہ ہوں وہ ہماری نظر میں قابل قبول نہیں۔
علاوہ از ایں ممکن ہے کہ کوئی روایت ایسی ہو جس کا سلسلہ سندبھی معتبر ہو لیکن ابتداء سے لے کر آج تک ہمارے بڑے بڑے علماء اور فقہاء نے اسے نظر انداز کیا اور اس پر عمل نہ کیا ہو ا ور انہیں اس میں کچھ دیگر نقائص نظر آتے ہو ں ۔ اس قسم کی روایت کو ہم ”معرض عنھا“ کہتے ہیں ۔ یہ ہماری نظر میں معتبر نہیں ۔
بنابر ایں یہ بات واضح ہے کہ جو لوگ ہمارا عقیدہ جاننے کے لئے فقط اور فقط ان کتب میں موجود کسی ایک روایت یا مختلف روایات کا سہارا لیتے ہیں،بغیر اس کے کہ روایت کی سند کے بارے میں کوئی تحقیق کریں انکا طریقہ کار غلط ہے۔
بعض معروف اسلامی فرقوں میں ”’صحاح “کے نام سے کتابیں موجود ہیں ،جن میں موجود روایات کا صحیح ہونا ان کتابوں کے مصنّفین کے نزدیک ثابت ہے۔ نیز دوسرے لوگ بھی ان روایات کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ لیکن ہمارے نزدیک موجود معتبر کتابیں اس طرح نہیں ہیں ۔ یہ ایسی کتابیں ہیں جن کے مصنّفین معروف اور قابل اعتماد شخصیات ہیں ۔ لیکن ان کتابوں میں موجود روایات کی سند کا صحیح ہونا علم رجال کی کتب کی روشنی میں راویوں کی تحقیق پر موقوف ہے۔
مذکورہ بالا نکتے کی طرف توجہ ہمارے عقائد کے متعلق پیدا ہونے والے بہت سے سوالوں کا جواب دے سکتی ہے ۔ جس طرح اس سے بے توجہی ہمارے عقائد کی پہچان کے سلسلے میں بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دے سکتی ہے ۔
بہر حال قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اسلام (ص)کی احادیث کے بعد ہماری نظر میں بارہ اماموں (ع) کی احادیث معتبر ہیں ۔ شرط یہ ہے کہ آئمہ علیھم السلام سے ان احادیث کا صدور معتبر طریقہ سے ثابت ہو۔

 


مختلف مسائل۵۴۔صحابہ،عقل اور تاریخ کی عدالت میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma