توسل ،اسلامی روایات میں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
توسل کے متعلق آیات کے مطلق ہونے کے علاوہ ہر وہ توسل صحیح ہے جو اسلامی اعتقادات کے مخالف نہ ہو اور اس مسئلہ میں بے شمار روایتیں وارد ہوئی ہیں جو متواتر یا تواتر کی حد تک ہیں،یہ روایات زیادہ تر آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی ذات سے ولادت سے پہلے یا ولادت کے بعد یا دوران حیات یا وفات کے بعد توسل کے متعلق ہیں ۔
البتہ ان روایات میں بعض روایتیں آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کے علاوہ بعض بزرگان سے توسل کو بیان کرتی ہیں،ان میں سے بعض روایتیں بصورت دعا یا خدا کی بارگاہ میں طلب شفاعت یا خدا کو آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کی ذات کا واسطہ دینے سے متعلق ہیں ، جن میں توسل کے تمام اقسام کو بیان کیا گیاہے جس کے بعد وہابیوں کے لئے بہانہ جوئی کے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں ۔ان میں سے بعض روایتوں کو ملاحظہ کریں:

١۔ جناب آدم علیہ السلام کا آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کی ذات کو سیلہ قرار دینا
حاکم نے مستدرک میں اور اسی طرح بعض محدثین نے اس حدیث کو ذکر کیاہے کہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)فرماتے ہیں: جب جناب آدم علیہ السلام سے ترک اولی سرزد ہوا تو خدا کی بارگاہ میں عرض کیا :
یا رب ! اسئلک بحق محمد لما غفرت لی خدایا! میں تجھے حضرت محمد (صلی الله علیه و آله وسلم)کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے بخش دے ۔
خدا نے فرمایا: تم کو کہں سے معلوم ہواکہ محمد کون ہیں؟ جب کہ میں نے ابھی تک انہیں پیدا نہیں کیا ہے ؟!جناب آدم علیہ السلام نے عرض کیا: میں نے اس وقت حضرت محمد (صلی الله علیه و آله وسلم)کو پہچانا جب تونے مجھے خلق کیا اور میرے بدن میں روح پھونکی تو جیسے ہی میں نے آنکھیں کھولیں تو ساق عرش پر لکھا ہوا دیکھا : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اس جملہ کو دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہوگیاکہ تو کسی کے بھی نام کو اپنے نام کے ساتھ نہیں جوڑتا مگر یہ کہ وہ تیرے نزدیک ہر ایک سے زیادہ محبوب ہو ۔
خدا نے فرمایا: آدم ! تم نے سچ کہا، انہ لاحب الخلق الی وہ میرے نزدیک ہر ایک سے زیادہ محبوب ہیں، ادعونی بحقہ فقد غفرت لک مجھے محمد (صلی الله علیه و آله وسلم)کا واسطہ دے کر سوال کرو کہ میں تمہیں بخش دوں گا ۔

٢۔جناب ابوطالب کا آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کی ذات کو سیلہ قرار دینا
ابن عساکر کتاب فتح الباری میں نقل کرتے ہیں: جب مکہ میں شدت کا قحط پڑا تو قریش جمع ہوکر جناب ابوطالب کے پاس آئے اور کہا: سارا صحرا خشک ہوچکا ہے اور قحط نے ہر طرف اپنا سایہ ڈال رکھا ہے ، آؤ چلیں خدا سے بارش کی دعا کریں ۔
جناب ابوطالب دعا کی غرض سے ایک بچے کا ہاتھ پکڑکر چل پڑے ( اس بچہ سے مراد آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کی ذات ہے ) اس بچے کی صورت سورج کے مانند درخشاں تھی ، جناب ابوطالب نے اس بچہ کو لے کر پشت سے کعبہ پر ٹیک لگایا اور اس بچہ کو وسیلہ بنایا ، اس وقت مکہ کے آسمان پر بادلوں کی کوئی خبر نہیں تھی اور آسمان بالکل صاف تھا لیکن دعا کرتے ہی ہر طرف سے بادل جمع ہونا شروع ہوگئے اور پھر اتنی بارش ہوئی کہ پورا صحرا سرسبز ہوگیا ، اسی وقت جناب ابوطالب نے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی مدح میں کچھ شعر کہے :
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمال الیتامی عصمة للارامل
یعنی:روشن چہرے والے( آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) )کے لئے بارش ہورہی ہے جو یتیموں کی پناہگاہ اور بیواؤں کا سہارا ہوگا ۔
٣۔ اندھے شخص کا آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی ذات کو سیلہ بنانا
آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی حیات طیبہ میں ایک اندھا شخص آپ(صلی الله علیه و آله وسلم)کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسے شفا ملی، یہ روایت صحیح ترمذی، سنن ابن ماجہ ، مسند احمد اور اسی طرح دیگر کتب میں موجود ہے ۔
یہ حدیث مدرک کے اعتبارسے نہایت قوی ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے :ایک نابینا شخص آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : یا رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)آپ خدا سے دعا کریں کہ مجھے شفا عنایت کرے اور میری آنکھوں کی روشنی لوٹا دے ۔
پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)نے فرمایا: اگر یہی آرزو ہے تو میں دعا کردیتا ہوں اور اگر چاہو تو صبر کرو اس لئے کہ یہ صبر تمہارے حق میں بہتر ہے ( شاید مصلحت یہی ہے ) لیکن اس شخص نے شفا کے لئے اصرار کیا ۔
لہذا آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) نے اسے حکم دیا کہ ایک کامل وضو کرے اور دورکعت نماز پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمة یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی لتقضی ، اللھم شفعہ فی
خدا یا ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبی محمد (صلی الله علیه و آله وسلم)کے ذریعہ متوجہ ہوتا ہوں جو رحمت والے نبی ہیں اے محمد ! میں آپ کے ذریعہ اپنی حاجت کے سلسلہ میں اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ وہ پوری ہو ، خدا یا ! انہیں میرا شفیع قرار دے ۔
وہ نا بینا شخص تعمیل حکم کے لئے چلا گیا ، اس حدیث کا راوی عثمان بن عمیر کہتا ہے : اس وقت ہم وہیں پر حاضر تھے ، تھوڑی دیر بعد وہ نابینا شخص آیا اس حال میں کہ اسے پوری طرح شفا مل چکی تھی اور بینا ہوچکا تھا ۔
اس حدیث کے متعلق اہلسنت کے بزرگوں نے کہا ہے کہ یہ صحیح ہے ، ترمذی اور ابن ماجہ اسے صحیح سمجھتے ہیں اور رفاعی نے کہا ہے کہ ا س حدیث کے متعلق کوئی شک نہیں ہے کہ یہ صحیح اور مشہور ہے ۔
٤۔ وفات کے بعد آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) سے توسل
اہلسنت کے مشہور عالم دین دارمی اپنی کتاب سنن دارمی کے باب ماحکم اللہ تعالی نبیہ (صلی الله علیه و آله وسلم)بعد موتہ (یہ باب آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی وفات کے بعد آپ کی تکریم کے متعلق ہے )میں اس طرح تحریر کرتے ہیں:
ایک سال مدینہ میں شدت کا قحط پڑا لہذا اس مشکل کو حل کرنے کے لئے کچھ لوگ عائشہ کے پاس گئے تو عائشہ نے کہا: آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی قبر کے پاس جاؤ اورقبر کے اوپر چھت میں سوارخ کردو اور پھر نتیجہ کے منتظر رہو،یہ سن کر لوگ قبر پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کے پاس آئے اور دستور کے مطابق چھت میں سوراخ کردیا ، تھوڑی دیر کے بعد ہی ہر طرف سے بادل آنے لگے اور ایسی بارش ہوئی کہ سارے بیابان سرسبز ہوگئے اور لاغر اونٹ موٹے ہوگئے .
٥۔ پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کے چچا عباس سے توسل
بخاری بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں نقل کیا ہے کہ جب مدینہ میں خشک سالی ہوئی توعمر بن خطاب نے بارش کے لئے عباس بن عبد المطلبکو وسیلہ قرار دیتے ہوئے اس طرح دعا کی: اللھم انا کنا نتوسل الیک بنبیناو تسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا خدایا! ہم جب بھی اپنے نبی کو وسیلہ بناتے تھے تو بارش بھیجتا تھا اور اب پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم) کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں لہذا بارش کو بھیج ، جیسے ہی اس نے یہ دعا کی زبردست بارش ہوئی ۔
٦۔ ابن حجر مکی نے اپنی کتاب صواعق محرقہ میں اہلسنت کے مشہور امام شافعی سے ان اشعار کو نقل کیا ہیجن میں انھوں نے پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کے اہلبیت کو وسیلہ بنایا ہے :
آل النبی ذریعتی
وھم الیہ وسیلتی
ارجوا بھم اعطی غدا
بید الیمین صحیفتی
پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم) کے اہلبیت میرا وسیلہ ہیں ، وہ بارگاہ الہی میں میرے تقرب کا باعث ہیں اور امید وار ہوں کہ کل قیامت کے دن میرے نامہ اعمال کو ان کے توسط سے میرے دائیں ہاتھوں میں دیا جائے .
اس حدیث کو کتاب التوصل الی حقیقة التوسل کے مولف رفاعی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ۔
لیکن رفاعی توسل کے مسئلہ میں نہایت سخت گیر ہے ، اس کتاب میں اس نے اہلسنت کی کتابوں سے توسل کے متعلق ٢٦روایتیں نقل کی ہیں لیکن ان میں سے اکثر وبیشتر کو قابل خدشہ جانا ہے ، اس کے باوجود کچھ ایسی متواتر یا تواتر سے نزدیک روایتیں ہیں جنہیں مخدوش نہیں کیا جاسکتا اور ہم نے اس کتاب میں ان احادیث میں سے صرف چندحدیثوں کو بیان کیا ہے اگرچہ وہ بے شمار ہیں ۔
1) حاکم نے مستدرک ، جلد 2 ص 615 پر اورحافظ سیوطى نے ""الخصائص النبویّة"" میں اسے نقل کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے اور بیہقى نے اسے ""دلائل النبوة"" میں نقل کیا ہے کہ عام طور پر اس کتاب میں وہ ضعیف روایت نقل نہیں کرتے ہیں اور قسطلانى اور زرقانى نے مذاہب اللدنیّہ میں اس حدیث کونقل کیا اور صحیح قرار دیا ہے اور دیگر علماء نے بھى اسے نقل کیا ہے _ مزید توضیح کے لیئےتاب "" مفاہیم یجب ان تصحّح ص 121 اور اسکے بعد رجوع فرمائیں""_
2) فتح الباری، جلد 2 ص 494 و اسى طرح سیرہ حلبی، جلد 1 ص 116_
3) صحیح ترمذى ، ص 119، حدیث 3578، اور سنن ابن ماجہ، جلد 1، ص 441، حدیث 1385 ، ومسند احمد، جلد 4، ص 138_
4) مزید وضاحت کے لیے آپ کتاب مجموعة الرسائل و المسائل ، جلد 1 ص 18 طبع بیروت ، کیطرف رجوع فرمائیں_
5) سنن دارمی، جلد 1 ص 43_
6) صحیح بخاری، جلد 2 ص 16، باب صلاة الاستسقائ_
7)التوصل إلى حقیقة التوسّل ، ص 3
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma