قرآن اور پیروں کا مسح

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
ایک دوسرا اعتراض جسے اہلسنت کے علماء ہم اہلبیت کے چاہنے والوں پر کرتے ہیں کہ ہم وضو میں پیروں کا مسح کرتے ہیں اس لئے کہ وہ لوگ وضو میں پیروں کے مسح کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ پیروں کو دھونے کوواجب سمجھتے ہیں ۔
حالانکہ قرآن نے صراحت کے ساتھ پیروں کے مسح کی طرف اشارہ کیا ہے اور اہلبیت کے چاہنے والوں کی روش کی تائید میں قرآن اور پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم) سے منقول ٣٠ سے زیادہ حدیثیں موجود ہیں ۔
اس کے علاوہ بہت سے اصحاب اور تابعین نے وضو میں پیروں کو دھونے کے بدلے مسح کیا ہے ۔
لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے بعض مخالفین نے ان تمام دلیلوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہمارے خلاف مورچہ کھڑا کردیا ہے جو برے اور سخت الفاظ میں اہلبیت کے چاہنے والوں کی مذمت کرتے ہیں ۔
اہلسنت کے مشہور عالم دین اپنی کتاب تفسیر القرآن العظیم میں تحریر کرتے ہیں : رافضی (شیعہ حضرات) وضو کے مسئلہ میں پیروں کو دھونے کے مخالف ہیں ،وہ جہالت اور گمراہی کی وجہ سے کسی بھی سند کے بغیر پیروں کے مسح کو کافی سمجھتے ہیں ۔
حالانکہ آیہ قرآنی صراحت کے ساتھ پیروں کے دھونے کی تاکید کررہی ہے اور خود آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کا عمل بھی مذکورہ آیت کے مطابق تھا لیکن پھر بھی ان لوگوں نے مخالفت کی ، حقیقت میں ان لوگوں کے پاس اپنے مدعا کی کوئی دلیل نہیں ہے!
اسی طرح کچھ لوگوں نے اندھی تقلید کرتے ہوئے اس مسئلہ کے متعلق حقیقت کو سمجھے بغیر شیعوں کوجس طرح چاہا متہم کیا شاید وہ لوگ اپنے تمام مخاطبین کو عوام سمجھتے تھے اور ان کے ذہنوں میں یہ خیال نہیں آیا کہ آئندہ جنم لینے والے محققین ان کی باتوں پر نقد کریں گے اور پوری تاریخ میں انہیں رسوا کریں گے ۔
ہم اس بحث کے آغاز میں سب سے پہلے قرآنی دلیلوں کو پیش کریں گے :
سورہ مائدہ کی چھٹی آیت میں خدا فرماتا ہے : ( یا ایھا الذین آمنوا اذا قمتم الی الصلاة فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الی المرافق وامسحوا برئوسکم وارجلکم الی الکعبین)
اے ایمان لانے والو! جب بھی نماز کے لئے کھڑے ہو تو صورتوں کو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو اور سر اور پیر کے ایک حصہ کا مسح بھی کرو ۔
اس آیت میں لفظ ارجلکم ( پیر) لفظ رووسکم ( سر ) پر عطف ہے لہذا اس آیت میں ہم لفظ ارجلکم کو منصوب پڑھیں یا اسے کوئی دوسرا اعراب دیں ، ہر صورت میں دونوں کو مسح کرنے کا معنی لیا جائے گا ۔
لیکن معنی کے اعتبار سے ان دواعرابوں میں کوئی تفاوت نہیں ہے اس لئے کہ اگر اسے مکسور ( ارجلِکم )پڑھا جائے تووہ لفظ رؤؤس پر عطف ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وضو میں جس طرح سر کا مسح کرتے ہو اسی طرح پیروں کا مسح کرو۔ اگر شیعوں نے اس قرائت پر عمل کیا ہے جس کے طرفداروں کی کمی نہیں ہے ، توکیاکوئی خطا کی ہے ؟
اور اگر اسے مفتوح ( ارجلَکم )پڑھا جائے تو یہ لفظ برؤؤسکم کے محل پر عطف ہوگا جو نصب ہے ، اس لئے کہ وہ وامسحوا کا مفعول ہے ، پس دونوں صورتوں میں مطلب یہی نکلے گا کہ وضو میں پیروں کا مسح کرو ۔
لیکن بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اگراسے مفتوح ارجلَکم پڑھا جائے تو وہ لفظ وجوھکم پر عطف ہوگا جس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح چہرے اور ہاتھو ں کو دھوتے ہو اسی طرح پیروں کو بھی دھوؤ !
لیکن یہ استدلال ، ادبیات عرب کے قواعدکے برخلاف ہونے کے ساتھ قرآن کی فصاحت کے مطابق نہیں ہے ۔ ادبیات عرب کے قواعدکے مخالف ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کبھی بھی معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان کوئی اجنبی جملہ نہیں آتا اسی وجہ سے اہلسنت کے بعض علماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس آیت میں ارجلکم لفظ وجوھکم پر عطف ہونا محال ہے اس لئے کہ عربی زبان کے فصیح کلام میں ہرگز یہ سننے میں نہیں آیا کہ کسی نے اس طرح کہا ہو ضربت زیدا و مررت ببکر وعمروا ؛ یعنی میں نے زید کو مارا اور بکر کے پاس سے گزرا اور عمرو کو مارا ۔ ( شرح منیة المصلی ص ١٦)
یہاں تک کہ ایک عام شخص بھی اس طرح کی باتیں نہیں کرتالہذا کیسے خدا کی جانب ایسی نسبت دی جاسکتی ہے
بعض اہلسنت کے علماء کے اعتراف کے مطابق کہ لفظ ارجلکم منصوب ہونے کی صورت میں لفظ برؤوسکم پر عطف ہے ،ہر حال میں آیت کا مطلب یہی ہوگا کہ وضو میں سر اور پیروں کا مسح کرو )۔
1) تفسیر القرآن العظیم، جلد 2، ص 518_
2) اس مطلب کى وضاحت یہ ہے کہ کلمہ "" ارجلکم"" کے اعراب کے بارے میں دو مشہور قرا تیں ہیں ایک جر کے ساتھ قرا ت کہ جسے بعض مشہور قرّاء جیسے حمزہ ، ابوعمرو، ابن کثیر اور حتى عاصم نے ( ابوبکر کى روایت کے مطابق ) لام کى زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسرى طرف بعض مشہور قرّاء نے اسے نصب کے ساتھ پڑھا ہے اور آجکل قرآن مجید کے تمام رائج نسخوں میں اسى دوسرى قرا ت کے مطابق اعراب لگایا گیا ہے_
لیکن دونوں اعراب کے مطابق یقینا معنى کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے_ کیونکہ اگر زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو بالکل واضح ہے کہ ""ارجلکم"" کا "" رؤس"" پر عطف ہے اس کا معنى یہ ہے کہ وضو میں پاؤں کا مسح کرو (جسطرح سر کا مسح کرتے ہو)اگر شیعہ اس قرا ت کے مطابق عمل کریں کہ جس کے اور بھى بہت سے طرفدار ہیں تو اس میں کیا عیب ہے؟
اور اس سے بڑھ کر اگر فتح ( زبر) کے ساتھ بھى پڑھا جائے پھر بھى ""ارجلکم ""کا عطف ""برو سکم"" کے محل پر ہوگا اور واضح ہے کہ برؤسکم محل کے اعتبار سے منصوب ہے کیونکہ "" و امسحوا"" کا مفعول ہے _ پس دونوں صورتوں میں آیت کا معنى یہى بنے گا کہ پاؤں کا مسح کرو_
ہاں بعض لوگوں نے یوں خیال کیا ہے کہ اگر ""ارجلکم "" کو فتح ( زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا "" وجوہکم"" پر عطف ہوگایعنى ہاتھ اور منہ کو دھویئےس طرح پاؤں کو دھولیجئے حالانکہ یہ بات ادبیات عرب کے قواعد کے بھى خلاف اور قرآن مجید کى فصاحت کے ساتھ بھى سازگار نہیں ہے_
بہرحال یہ بات ادبیات عرب کے اس لئے خلاف ہے کیونکہ معطوف اور معطوف علیہ کے در میان کبھى اجنبى جملہ واقع نہیں ہوتا ہے_ بلکہ ایک معروف اہلسنت عالم کے بقول محال ہے کہ "" ارجلکم "" کا ""وجوہکم"" پر عطف ہو کیونکہ ہرگز فصیح عربى میں ایسا جملہ نہیں بولا جاتا ہے کہ مثلا کوئی کہے "" ضربتُ زیداً و مررتُ ببکر و عمراً"" کہ ""میں نے زید کو مارا اور بکر کے قریب سے گزرا اور عمر کو"" یعنى عمرو کو بھى مارا ( شرح منیة المصلى ص 16)
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma