٨۔تاریخ کی گواہی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
تمام صحابہ کی قداست کے اعتقاد نے اس عقیدہ کے طرفداروں کو متعدد مشکلات میں گرفتار کردیا ہے جن میں سے سب سے بڑی مشکل تاریخ کی ہے اس لئے کہ انہیں کی مورد اعتماد مشہور تواریخ یہاں تک کہ کتب صحاح میں صحابہ کے درمیان شدید اختلافات کو ذکر کیا گیا ہے جنہیں ملاحظہ کرنے کے بعد ہر دو طرف کو عادل ، صالح اور مقدس نہیں مانا جاسکتا ، اس لئے کہ دونوں کو عادل ، صالح اور مقدس مان لینے سے ضدین کا اجتماع لازم آئے گا جب کہ عقلی بدیہیات کے مطابق ان دونوں کا اجتماع غیر ممکن ہے ۔
اس کے علاوہ تاریخ کی گواہی کے مطابق امام مسلمین علی علیہ السلام کے خلاف طلحہ، زبیر اور معاویہ نے جنگ جمل اور صفین کی آگ بھڑکائی ،اگر ہم حقیقتوں سے چشم پوشی نہ کریں تو پھر ان تمام موارد کو دیکھ کر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس بات کو قبول کریں کہ وہ جنگ کی آگ بھڑ کا کر بہت بڑے اشتباہ کے مرتکب ہوئے ، ہمارے اس دعویٰ کے لئے تاریخ میں متعدد گواہیاں موجود ہیں جن میں سے ہم صرف تین موارد کو ذکر کریں گے :
١۔ بخاری ، مشہور محدث اپنی کتاب صحیح میں مسئلہ افک کی تفسیر میں ذکر کرتے ہیں: ایک روز رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)منبر پر تشریف فرما تھے کہ ایک نے آواز دی : اے مسلمانو! کون اس شخص کو سزا دے گا ( یہاں پر مراد عبد اللہ بن سلول ہے جو منافقوں کا رئیس تھا ) مجھے خبر دی گئی ہے کہ اس نے میری زوجہ کی طرف ایک بری نسبت دی ہے ، جب کہ میں نے اپنی زوجہ سے ایسی کوئی حرکت نہی دیکھی ہے ، ...سعد بن معاذ انصاری کھڑے ہوئے اور عرض کیا: میں اسے سزا دوں گا ، اگر وہ قبیلہ اوس سے ہوگا تو اس کی گردن ماروں گا اور اگر قبیلہ خزرج سے ہوگا تو جو حکم دیں گے ویسا ہی انجام دوں گا ، سعد بن عبادہ جو قبیلہ خزرج کے رئیس اور ان کا شمار صلحاء میں ہوتا تھا ، اپنے قومی تعصبات کی وجہ سے سعد بن معاذ سے کہا: خدا کی قسم تم نے جھوٹ بولا ہے ، تم میں ایسا کرنے کی سکت نہیں ہے ، اسید بن حضیر جو سعد بن معاذ کا چچازاد بھائی تھا ، اس نے جو اب دیا: خدا کی قسم تم جھوٹ بول رہے ہو، وہ منافقوں سے ہے اور ہم ضرور اسے قتل کریں گے ، حالات ایسے بگڑ گئے کہ نزدیک تھا یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑپڑیں لیکن رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)نے انہیں روک دیا ۔
کیا یہ سب کے سب صالح صحابیوں میں سے تھے ؟
٢۔معروف دانشمند بلاذری اپنی کتاب الانساب میں تحریر کرتے ہیں: سعد ابن ابی وقاص کوفہ کے والی تھے لیکن عثمان نے انہیں معزول کر کے ولید بن عقبہ کو کوفہ کا والی بنادیا ، اس وقت بیت المال کے خزانہ دار عبد اللہ بن مسعود تھے ، جب ولید کوفہ میں وارد ہوا تو اس نے عبد اللہ بن مسعود سے بیت المال کی چابی مانگی ، جناب عبدا للہ بن مسعود نے اس کے سامنے بیت المال کی چابیاں ڈالتے ہوئے کہا: خلیفہ نے پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کی سنت کو بدل دیا ہے ، کیا وہ سعد بن ابی وقاص جیسے کو معزول کر کے ولید بن عقبہ جیسے کو کوفہ کا والی بنا رہے ہیں؟
ولید نے عثمان کو لکھا: عبد اللہ ابن مسعود آپ پر انتقادات کررہے ہیں ، عثمان نے ولید کو لکھا کہ عبدا للہ بن مسعود کو حفاظت سے مدینہ روانہ کردو، جب عبد اللہ بن مسعود مدینہ میں وارد ہوئے تو عثمان منبر پر تھا جیسے ہی اس کی نگاہیں عبدا للہ بن مسعود پر اٹھیں تو کہنے لگا کہ میری نگاہیں ایک برے متحرک پر پڑیں ہیں ( اور ایسے نازیبا الفاظ کہے یہاں ذکر نہیں کیا جاسکتا )۔
عبدا للہ بن مسعود نے کہا: میں ایسا نہیں ہوں ،میں پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کے صحابیوں میں سے ہوں ، میں جنگ بدر اور بیعت رضوان میں شریک تھا ، عائشہ عبد اللہ بن مسعود کی حمایت میں کھڑی ہوگئیں لیکن عثمان کے غلام یحموم نیعبد اللہ بن مسعود کو مسجد سے دھکے دے کر با ہر نکال دیا اور انہیں زمین پر پٹک کر ایک پسلی توڑ دی ۔
٣۔بلاذری اسی کتاب انساب الاشراف میں ذکر کرتے ہیں کہ مدینہ کے بیت المال میں جواہرات وغیرہ تھے جنہیں عثمان نے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردیا ، جب لوگوں کو معلوم ہوا تو سب نے کھل کر اس کی مخالفت کی ، یہ دیکھ کر عثما ن غصہ میں آگیا اور منبر پر جا کر کہنے لگا: ہمیں مال غنیمت میں سے جتنی بھی ضرورت ہوگی لیں گے ، اگر چہ اس سے بعض لوگوں کی ناک مٹی میں رگڑی جائے!!
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: یہ مسلمان تجھے من مانی نہیں کرنے دیں گے !
جناب عمار نے کہا: وہ پہلا شخص جس کی ناک خاک میں رگڑی جائے گی وہ میں ہوں گا (یعنی میں اعتراض کرنے سے پرہیز نہیں کروں گا (
یہ سن کر عثمان نہایت خشمگین ہوا اور کہنے لگا: تم میری توہین کرتے ہو ، اسے گرفتار کرلو، جناب عمار کو گرفتار کر کے عثمان کے گھر لایا گیا ، انہیں اس حدتک مارا کہ آپ بیہوش ہوگئے ، اس کے بعد جناب ام سلمہ کے گھر پہنچا دئیے گئے ، اسی بیہوشی کے عالم میں رہے یہاں تک کہ نماز ظہرین اور مغرب قضا ہوگئی ، اس کے بعد ہوش آیا ، وضو کیا ، نماز پڑھی اور کہا: یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ہمیں خدا کی خاطر اذیتیں دی جارہی ہیں ۔(جناب عمار نے زمانۂ جاہلیت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں انہیں بے پناہ اذیتیں دی گئیں تھیں)
ہم ایسے ناگوار حوادث کو نقل کرنے کے لئے ہرگز مائل نہیں ہیں ، ( مجھے آپ کی آزردہ خاطر کا ڈر ہے ورنہ کہنے کے لئے بہت کچھ ہے ) لیکن اہلسنت کا تمام صحابیوں کو مقدس ماننے کے عقیدہ نے ہمیں مجبور کردیا کہ ہم تاریخ کے بعض ناگوار حادثات کی طرف اجمالاً اشارہ کریں ۔
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا مقدس ترین صحابہ ( سعد بن معاذ ، عبد اللہ بن مسعود ، عمار یاسر) کو اذیتیں دینا ، ان کے ساتھ فحاشی کرنا اور نازیبا الفاظ سے خطاب کرنا توجیہ کے قابل ہے ، کیا یہ صحیح ہے کہ ایک صحابی کو اس حد تک مارا جائے کہ ان کی پسلیاں ٹوٹ جائیں اور دوسرے صحابی کو اس حد تک مارا جائے کہ وہ بیہوش ہوجائیں یہاں تک کہ ان کی نمازیں قضا ہوجائیں ؟
کیا تاریخ کی ان گواہیوں کے باوجود جن سے تاریخ بھری پڑی ہے ، اپنی آنکھوں کو حقیقت سے پھیر لیں اور یہ کہیں کہ تمام صحابہ اچھے اور ان کے تمام اعمال نیک تھے ، سپاہ صحابہ کی تنظیم کو بنایا جائے اور ان کی تمام حرکات و سکنات سے دفاع کیا جائے .
کیا یہ صحیح ہے ؟
کیا کوئی عقلمند ایسی فکر کو قبول کرسکتا ہے ؟
اس مقام پر مجھے دوبارہ وہی جملہ دہرانا پڑے گا جسے میں نے بارہا کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے صحابیوں میں متقی، پرہیزگار ، نیک اور صالح و عادل افراد تھے لیکن انہیں لوگوں میں ایسے بھی تھے جنہیں ان کے کردار کی وجہ سے مورد تنقید قرار دینا ہوگا اور عقل کے ترازو پر تولتے ہوئے قضاوت کرنا ہوگی ۔
1) صحیح بخاری، جلد 5 ص 57_
2) انساب الاشراف، جلد 6 ص 147، تاریخ ابن کثیر، جلد 7 ص 163و 183 حوادث سال 32 ( خلاصہ)_
3) انساب الاشراف جلد 6 ص 161_
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma