٦۔ کیا تمام صحابہ بغیر استثناء عادل تھے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ اہل سنت کی ایک کثیر جماعت متفق ہے کہ رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) اللہ کے تمام صحابی وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کا زمانہ دیکھا یا حضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کو درک کیا یا کچھ دنوں تک آپ(صلی الله علیه و آله وسلم)کے ساتھ رہے ، کسی بھی استثناء کے بغیر مقام عدالت سے برخوردار ہیں جس کی گواہی کے لئے قرآن موجود ہے ۔
مقام افسوس ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے ان آیتوں کی طرف توجہ دی جو ان کے نفع میں تھیں اور ان آیتوں سے چشم پوشی کر لی جو ان کے ضرر میں تھیں ۔
ہمارا اعتراض:
١۔یہ کیسی عدالت ہے کہ جس کے خلاف قرآن نے متعدد مقامات پر گواہی دی ہے ، جیسا کہ سور ہ آل عمران کی آیت ١٥٥میں فرماتا ہے ( ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعان انما استزلھم الشیطان ببعض ما کسبوا ولقد عفا اللہ عنھم ان اللہ غفور حلیم) یہ آیت ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو جنگ احد میں میدان چھوڑ کر بھا گ گئے تھے اور رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کو دشمنوں کے درمیان تنہا چھوڑ دیا تھا ، آیت کہتی ہے : وہ لوگ کہ جو دوگروہوں کے ٹکرانے کے دن بھا گ کھڑے ہوئے ، شیطان نے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے لغزش میں ڈال دیا ، خدا نے انہیں بخش دیا وہ بخشنے والا بردبار ہے۔
اس آیت سے بخوبی سمجھ میں آتا ہے کہ اس دن بعض صحابہ میدان چھوڑ کر بھاگے تھے جن کی تعداد تاریخ نے بیان کی ہے اور یہ غور طلب بات ہے کہ آیت کہہ رہی ہے : ان پر شیطان غالب ہوگیا اور اسکا غلبہ ان کے گناہوں کا نتیجہ تھا پس ان کے گناہ میدان سے فرار کا باعث بنے ، اگرچہ خدانے انہیں بخش دیا لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ وہ عادل تھے اور کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ قرآن کی صراحت کے مطابق وہ گناہ کے مرتکب ہوئے تھے ۔
٢۔ یہ کیسی عدالت ہے کہ قرآن سورہ حجرات کی آیت ٦میں بعض کو فاسق ہونے کا اعلان کررہا ہے : ( یا ایھا الذین آمنوا ان جائکم فاسق بنبأ فتبینوا ان تصیبو قوما بجھالة فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین ) ؛ اے وہ لوگو کہ جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق شخص تمہارے لئے خبر لائے تو اس کے بارے میں تحقیق کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ نادانی کرتے ہوئے کسی گروہ کو نقصان پہنچاؤ اور اپنے کئے پر پشیمان ہوجاؤ۔
مفسرین کے درمیان یہ مشہور ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے کہ جسے پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم) نے قبیلہ بنی مصطلق سے زکوة لینے کے لئے بھیجا تھا لیکن زکوة لئے بغیر واپس آیا اور کہنے لگا کہ ان لوگوں نے زکات دینے سے انکار کردیا ہے اور اسلام کے خلاف قیام کیاہے ۔
بعض مسلمانوں نے ولید کی بات پر یقین کرلیا اوران سے لڑنے کے لئے آمادہ ہوگئے لیکن آیہ شریفہ فورا نازل ہوئی اور مسلمانوں کو اصل حقیقت کی طرف متوجہ کیا ۔
اتفاقا جب مسلمانوں نے حقیقت کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ قبیلہ بنی مصطلق ابھی بھی مسلمان ہیں اور انھوں نے اسلام کے خلاف کوئی قیام نہیں کیا ہے بلکہ وہ ولید کے استقبال میں آئے چونکہ اس کی بنی مصطلق سے پرانی دشمنی تھی لہذا وہ سمجھا اس سے جنگ کے لئے آئے ہیں لہذا اسی کو بہانہ بناکر رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی خدمت میں آیا اور حقیقت سے عاری خبر سنائی ۔
ولید رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے صحابیوں میں سے تھا یعنی اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جنہوں نے حیات پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کو درک کیا تھا ، قرآن نے اسے فاسق قرار دیا ہے اب کیا یہ فسق عدالت صحابہ کے منافی نہیں ہے ؟
٣۔ یہ کیسی عدالت ہے کہ بعض اصحاب زکوة کی تقسیم کے وقت رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)پر اعتراض کرتے ہیں ، ان کے اعتراضات کوقرآن نے سورہ توبہ کی آیت ٥٨ میں بیان کیا ہے : ( و منھم من یلمزک فی الصدقات فان اعطوا منھا رضوا وان لم یعطوا منھا اذا ھم یسخطون )
ان لوگوں کے درمیان کچھ ایسے لوگ ہیں جو غنیمتوں کی تقسیم پر معترض ہیں، اگر انہیں ان کا حصہ دے دیا جائے تو راضی رہتے ہیں اور اگر انہیں نہ دیا جائے تو خشمگین ہوجاتے ہیں ۔
کیا ایسے لوگ عادل ہیں ؟
٤۔ یہ کیسی عدالت ہے کہ قرآن جنگ احزاب میں بارہویں اور تیرہویں آیت کے مطابق فرماتا ہے : وہ لوگ جوجنگ احزا ب میں رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے ہمراہ منافق اور بیماردل افراد شریک تھے ، آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کو فریب کاری سے متہم کرتے ہوئے کہنے لگے : ( ما وعدنا اللہ ورسولہ الا غرورا ) خدا اور اس کے رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) نے ہم سے جھوٹے ہی وعدے کئے ۔
ان میں سے بعض لوگوں نے یہ تصور کیا تھا کہ اس جنگ میں رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)شکست کھا جائیں گے ،وہ بھی مارے جائیں گے اور ہم بھی مارے جائیں گے ، یا وہ روایات کہ جنہیں شیعہ اور سنی حضرات نے نقل کیا ہے کہ جب جنگ خندق سے پہلے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)مدینہ کے اطراف میں خندق کھودنے میں مشغول تھے تو ایک پتھر ظاہر ہوا جسے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)نے توڑا اور اسی وقت شام و ایران او ریمن کی فتح کی خبردی ، جب اس جملہ کو بعض لوگوں نے سنا تو مذاق اڑایا ۔
کیا یہ سب اصحاب نہ تھے ؟
اور اس سے بھی زیادہ عجیب تو یہ ہے کہ اس کے بعد والی آیت میں فرماتا ہے : اور ان میں سے بعض لوگوں نے ( جنگ میں شریک مدینہ والوں سے ) کہا کہ یہ تمہاری جگہ نہیں ہے اپنے گھروں کو لوٹ جا ؤ۔ ( واذقالت طائفة منھم یا اھل یثرب لامقام لکم فارجعوا)
ان کے علاوہ بعض لوگ حضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جنگ سے فرار ہونے کے لئے بہانہ کر نے لگے جن کے متعلق قرآن فرماتا ہے : ( و یستاذن فریق منھم النبی یقولون ان بیوتنا عورة وما ھی بعورة ان یریدون الا فرارا) ان میں سے بعض لوگ اپنے گھروں کے محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)سے اجازت طلب کرنے لگے تا کہ وہ مدینہ لوٹ کر اپنے گھروں کی حفاظت کرسکیں ، جب کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے ، ان کے گھر نا امن نہ تھے بلکہ وہ جنگ سے جان چھڑا نا چاہتے تھے ۔
اب ہمیں انصاف سے بتائیں کہ کیونکر ان حرکتوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے ان پر ہونے والے انتقادات کی طرف توجہ نہ دیں ۔
٥۔ ان تمام موارد سے بدتر صحابہ کی طرف سے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کو خیانت سے متہم کرنا جس کی طرف سورہ آل عمران کی آیت ١٦١نے اشارہ کیا ہے : ( وماکان لنبی ان یغل و من یغلل یات بما غل یوم القیامة ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لایظلمون ) کسی پیغمبر کا خیانت کرنا غیر ممکن ہے اور جو بھی خیانت کرے گا ، قیامت کے دن میدان محشر میں جس چیز کی خیانت کی ہے اسے اپنے ساتھ لائے گا اور پھر جس نے جو کچھ جمع کیا ہے اسے دیا جائے گا اور کسی پر کوئی بھی ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ یعنی اگروہ عذاب کا مستحق بھی ہوگا تو اس کے اعمال کا نتیجہ ہوگا ۔
اس آیت کے ذیل میں دو شان نزول ذکر کئے گئے ہیں ، بعض مفسرین نے عبد اللہ بن جبیر کے ساتھیوں کی خلاف ورزی سے منسوب کیا ہے ۔
جنگ احد میں رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)نے عبد اللہ بن جبیر کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ مقام عینین پر رہنے کا حکم دیا اور فرمایاکہ جنگ جیتی جائے یا ہاری جائے، تم لوگ اپنی جگہ نہ چھوڑنا ،جب جنگ کے پہلے مرحلہ میں سپاہ اسلام کامیاب ہوئی اور مشرکین میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ،تو عبد اللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے سپاہ اسلام کو غنائم اکٹھا کرتے ہوئے دیکھا تو رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑدی اور عذر بدتر از گناہ تو یہ تھا کہ شاید رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)غنیمت کی تقسیم میں ہماری رعایت نہ کریں ، اس مقام پر ان لوگوں نے ایسے جملات کہے جنہیں ہم ذکر نہیں کرسکتے ۔
دوسری شان نزول جسے ابن کثیر اور طبرینے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ بدر کی کامیابی کے بعد ایک لال رنگ کا گرانبہا کپڑا گم ہوگیا ، بعض احمقوں نے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی طرف خیانت کی نسبت دی لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ مل گیا جوحقیقت میں لشکرکے ایک سپاہی کے پاس تھا ۔
کیا رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی طرف خیانت کی نسبت دینا عدالت کے خلاف نہیں ہے ؟
اگراس مقدمہ میں اپنے ضمیر کو حاکم اور قاضی بنایا جائے تو کیا یہ قبول کیا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگ پاک اور عادل تھے اور کسی کوکوئی حق حاصل نہیں کہ وہ صحابہ پر تنقید کرے ؟
ہمیں اس بات کا انکار نہیں ہے کہ صحابہ کے درمیان پاکیزہ اور پرہیزگار لوگ تھے ، لیکن ہرگز یہ قابل قبو ل نہیں ہے کہ ہم ایک کلی حکم جاری کریں اور سب کو تقویٰ و عدالت کے پانی سے دھوڈالیں اورلوگوں سے ان کے کردار سے متعلق تنقیدات کے حق کو چھین لیں، واقعاً یہ حیرت انگیز بات ہے ۔
٦۔یہ کیسی عدالت ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کا ایک صحابی ( معاویہ ) علی جیسی شخصیت پر لعنت کرنے کی جرات کرتا ہے یہی نہیں بلکہ اس نے تمام شہروں میں یہ فرمان جاری کیا کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ علی پر لعنت بھیجے اور یہ سلسلہ اسی سال تک جاری رہا ۔
مندرجہ ذیل دو حدیثوں کو ملاحظہ کریں:
١۔ اہلسنت کی سب سے معتبر کتاب صحیح مسلم میں آیا ہے کہ ایک دن معاویہ نے سعد بن وقاص سے کہا: تم کیوں ابو تراب ( علی ابن ابی طالب ) پر لعنت بھیجنے سے پرہیز کرتے ہو؟ سعد نے جواب دیا: میں نے علی کے حق میں رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)سے تین ایسی فضیلتیں سنی ہیں کہ اگر ان میں سے مجھے ایک بھی مل جاتی تو وہ میرے لئے دنیا کی تمام ثروت سے عظیم ہوتی ، جس کی وجہ سے میں اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتا کہ علی پر لعنت بھیجوں ۔
٢۔اہلسنت کے مشہور دانشمند ابن عبد ربہ اندلسی اپنی کتاب العقد الفرید میں لکھتے ہیں: جب حسن ابن علی علیہما السلام کی شہادت ہوگئی تو معاویہ خانہ خدا کی زیارت کے لئے مکہ آیا اور وہاں سے مدینہ کی طرف حرکت کی تاکہ منبر رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) سے علی پر سب و لعن کرے ، کسی نے معاویہ کو خبر دی کہ مسجد میں سعد ابن ابی وقاص ہیں اور ہمیں یقین نہیں ہے کہ وہ خاموش رہیں اور سب و لعن کو تحمل کرسکیں لہذا کسی کو ان کے پاس بھیج کر ان کی رائے کو معلوم کریں ۔
معاویہ نے کسی کو ان کے پاس بھیجا ، جب معاویہ کے فرستادہ نے سعد سے ان کا عقیدہ معلوم کرنا چاہا تو سعد نے کہا: اگر تونے ایسی حرکت کی تو میں مسجد رسول سے چلا جاؤں گا اور ہرگز واپس لوٹ کر نہیں آؤں گا ۔
جب معاویہ کو سعد کا نظریہ معلوم ہوا تو جب تک وہ زندہ رہے اس نے منبر سے علی پر لعنت نہیں بھیجی اور پرہیز کرتا رہا لیکن ان کی وفات کے بعد منبر سے علی پر سب و لعن کی اور اپنے تمام والیوں کو فرمان دیا کہ وہ بھی منبروں سے علی پر لعنت بھیجیں ، ان لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا ،جب یہ خبر جب ام سلمہ کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے معاویہ کو ایک خط لکھاکہ تم منبر سے خدا اور اس کے رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) پر سب و لعن کرتے ہو ؟!
کیا تم یہ نہیں کہتے ، علی بن ابی طالب اور ان کے چاہنے والوں پرلعنت بھیجو میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا علی کو چاہتاہے اور اس کے رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) بھی علی سے محبت کرتے ہیں پس تم حقیقت میں خدا اور ا سکے رسول(صلی الله علیه و آله وسلم)پر لعنت بھیج رہے ہو ، معاویہ نے جناب ام سلمہ کا خط پڑھا لیکن ان سنی کردی ۔
کیا ایسے برے اعمال عدالت کے خلاف نہیں ہیں ؟ کیا کوئی خردمند اور عادل شخص اپنے آپ کو اجازت دے سکتا ہے کہ وہ ایسی عظیم ہستی کو اس طرح سب و لعن کا نشانہ بنائے ۔
عرب کا شاعر کہتا ہے:
اعلی المنابر تعلنون بسبہ
وبسیفہ نصبت لکم اعوادہا ؟!
ترجمہ : تم ان منبروں سے علی پر سب ولعن کرتے ہو جن کی برکت سے آج یہ منبر قائم ہیں ۔
1) صحیح مسلم، جلد 4 ص 1871، کتاب فضائل الصحابہ اور اسى طرح کتاب فتح البارى فى شرح صحیح البخاری، جلد 7 ص 60 پر بھى یہ حدیث بیان ہوئی ہے ( وہ تین فضلتیں یہ ہیں: 1_ حدیث منزلت، 2_حدیث لاعطین الرایة غداً 3_ آیت مباہلہ)_
2) صحیح مسلم، جلد 4 ص 1871، کتاب فضائل الصحابہ اور اسى طرح کتاب فتح البارى فى شرح صحیح البخاری، جلد 7 ص 60 پر بھى یہ حدیث بیان ہوئی ہے ( وہ تین فضلتیں یہ ہیں: 1_ حدیث منزلت، 2_حدیث لاعطین الرایة غداً 3_ آیت مباہلہ)_
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma