بعض مقامات پر تقیہ حرام ہے ، مثلاً جب بعض لوگ اس حالت میں تقیہ کریں کہ اگر وہ
خاموش رہ گئے تو اسلام خطرے میں پڑجائے گا یا مسلمان سخت مصیبت میں گرفتار ہوجائیں
گے تو پھر ان پر واجب ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کا اظہار کریں اگر چہ وہ خود اس کے بعد
مصیبتوں سے دوچار ہوجائیں ۔
اوروہ لوگ جو ان موارد کو
( ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکة)
کو دلیل بنا کر اعتراض کرتے ہیں وہ سخت اشتباہ کررہے ہیں، اس لئے کہ اس قول
کا لازمہ یہ ہے کہ پھر جہاد کیلئے میدان جنگ میں بھی نہ اترا جائے ، جب کہ کوئی بھی
عقلمند اس منطق کو قبول نہیں کرسکتا ۔
یہیں سے یہ مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ یزید کے مقابلہ میں امام حسین علیہ السلام کا
قیام ایک دینی وظیفہ کے تحت تھا کہ جس کی وجہ سے امام نے تقیہ سے دوری کرتے ہوئے
یزیدیوں اوربنی امیہ کے ساتھ سازش نہیں کی اس لئے کہ اگر ان کے ساتھ سازش کرلیتے تو
پھر اسلام خطرے میں پڑجاتا لہذا آپ کا قیام مسلمانوں کی بیداری اور جاہلیت کے پنجوں
سے اسلام کی نجات کے لئے تھا ۔