زینب سے آنحضرت (ص) کى شادی(1)

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
ثعلبہعظمت اہل بیت کى ایک زندہ سند

زمانہ بعثت سے پہلے اور اس کے بعد جب کہ حضرت خدیجة الکبرى (ع) نے پیغمبر اسلام سے شادى کى تو حضرت خدیجہ (ع) نے ''زید'' نامى ایک غلام خریدا،جسے بعد میں آنحضرت(ص) کو ہبہ کردیا_
آپ(ص) نے اسے آزاد کردیا_ چونکہ اس کے قبیلے نے اسے اپنے سے جدا کردیا تھا،لہذا رسول رحمت نے اسے اپنا بیٹا بنالیا تھا،جسے اصطلاح میں''تبنّی'' کہتے ہیں_
ظہور اسلام کے بعد زید مخلص مسلمان ہوگیا اور اسلام کے ہر اول دستے میں شامل ہوگئے اور اسلام میں ایک ممتاز مقام حاصل کرلیا_ آخر میں جنگ موتہ میں ایک مرتبہ لشکر اسلام کے کمانڈر بھى مقرر ہوئے اور اسى جنگ میں شربت شہادت نوش کیا_
جب سرکار رسالت (ص) نے زید کا عقد کرنا چاہا تو اپنى پھوپھى زاد،بہن زینب بنت حجش ''بنت امیہ بنت عبد المطلب سے اس کے لئے خواستگارى کی_ زینب نے پہلے تو یہ خیال کیا کہ آنحضرت(ص) اپنے لئے اسے انتخاب کرناچاہتے ہیں_لہذا وہ خوش ہوگئی اور رضا مندى کا اظہار کردیا،لیکن بعدمیں جب اسے پتہ چلا کہ آپ(ص) کى یہ خواستگارى تو زید کے لئے تھى تو سخت پریشان ہوئیںاور انکار کردیا _ اس کے بھائی عبداللہ نے بھى اس چیز کى سخت مخالفت کی_
یہى وہ مقام تھا جس کے بارے میںوحى الہى نازل ہوئی او رزینب اور عبداللہ جیسے افراد کو تنبیہ کى کہ جس وقت خدا اور اس کا رسول کسى کام کو ضرورى سمجھیں تو وہ مخالقت نہیں کر سکتے_
جب انھوں نے یہ بات سنى تو سر تسلیم خم کردیا _ (البتہ آگے چل کرمعلوم ہوگا کہ یہ شادى کوئی عام شادى نہیں تھى بلکہ یہ زمانہ جاہلیت کى ایک غلط رسم کو توڑنے کے لئے ایک تمہید تھى کیونکہ زمانہ جاہلیت میں کسى باوقار اور مشہور خاندان کى عورت کسى غلام کے ساتھ شادى کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتى تھی،چاہے وہ غلام کتنا ہى اعلى قدر وقیمت کا مالک کیوں نہ ہوتا_
لیکن یہ شادى زیادہ دیرتک نہ نبھ سکى اور طرفین کے درمیان اخلاقى نا اتفاقیوں کى بدولت طلاق تک نوبت جا پہنچى _ اگر چہ پیغمبر اسلام(ص) کا اصرار تھا کہ یہ طلاق واقع نہ ہو لیکن ہوکر رہی_
اس کے بعد پیغمبر اکرم(ص) نے شادى میں اس نا کامى کى تلافى کے طور پر زینب کو حکم خدا کے تحت اپنے حبالہ عقد میں لے لیا اور یہ بات یہیں پر ختم ہوگئی_
لیکن دوسرى باتیں لوگوں کے درمیان چل نکلیں جنہیں قرآن نے مربوط آیات کے ذریعے ختم کردیا_اسکے بعد زید اور اس کى بیوى زینب کى اس مشہور داستان کو بیان کیا گیا ہے جو پیغمبر اسلام(ص) کى زندگى کے حساس مسائل میں سے ایک ہے اور ازواج رسول(ص) کے مسئلہ سے مربوط ہے _
چنانچہ ارشاد ہوتاہے کہ:''اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص کو جسے خدا نے نعمت دے رکھى تھى اور ہم نے ابھى ،اے رسول(ص) اسے نعمت دى تھى او رتم کہتے تھے کہ اپنى بیوى کو روکے رکھو اور خدا سے ڈرو''_(2)
نعمت خدا سے مراد وہى ہدایت اور ایمان کى نعمت ہے جو زید بن حارثہ کو نصیب ہوئی تھى اور پیغمبر(ص) کى نعمت یہ تھى کہ آپ(ص) نے اسے آزاد کیا تھا اور اپنے بیٹے کى طرح اسے عزت بخشى تھی_
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زید او رزینب کے درمیان کوئی جھگڑا ہوگیا تھا اور یہ جھگڑا اس قدرطول پکڑ گیا کہ نوبت جدائی اور طلاق تک جاپہنچى _ اگرآیت میںلفظ''تقول''کى طرف توجہ کى جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فعل مضارع ہے او راس بات پر دلالت کررہا ہے کہ آنحضرت(ص) بارہا بلکہ ہمیشہ اسے نصیحت کرتے اور روکتے تھے_
کیا زینب کا یہ نزاع زید کى سماجى حیثیت کى بناء پر تھا جو زینب کى معاشرتى حیثیت سے مختلف تھی؟کیونکہ زینب کا ایک مشہور ومعروف قبیلہ سے تعلق تھا اور زید آزاد شدہ تھا_ یا زید کى اخلاقى سختیوں کى وجہ سے تھا؟یا ان میں سے کوئی بات بھى ،نہیں تھى بلکہ دونوں میں روحانى او راخلاقى موافقت اور ہماآہنگى نہیں تھی؟کیونکہ ممکن ہے دو افراد اچھے تو ہوں لیکن فکر ونظر اور سلیقہ کے لحاظ سے ان میں اختلاف ہوجس کى بناء پر اپنى ازدواجى زندگى کوآئندہ کے لئے جارى نہ رکھ سکتے ہوں؟
پیغمبر(ص) کى نظر میں تھا کہ اگر ان میاں بیوى کے درمیان صلح صفائی نہیں ہوپائی اور نوبت طلاق تک جاپہنچتى ہے تو وہ اپنى پھوپھى زادبہن زینب کى اس نا کامى کى تلافى اپنے ساتھ نکاح کى صورت میں کردیں گے،اس کے ساتھ آپ(ص) کو یہ خطرہ بھى لاحق تھا کہ لوگ دو وجوہ کى بناء پر آپ(ص) پر اعتراض کریں گے اور مخالفین ایک طوفان بدتمیزى کھڑا کردیں گے_
اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے :''تم اپنے دل میں ایک چیز کو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا آشکار کرتا ہے اور تم لوگوں سے ڈرتے ہوحالانکہ تمہارا پروردگارزیادہ حق رکھتا ہے کہ اس سے ڈرو''_(3)
پہلى وجہ تویہ تھى کہ زید آنحضرت(ص) کا منہ بولا بیٹا تھا،اور زمانہ جاہلیت کى رسم کے مطابق منہ بولے بیٹے کے بھى وہى احکام ہوتے تھے جو حقیقى بیٹے کے ہوتے ہیں _ منجملہ ان کے یہ بھى تھا کہ منہ بولے بیٹے کى مطلقہ سے بھى شادى کرنا حرام سمجھاجاتا تھا _
دوسرى یہ کہ رسول اکرم (ص) کیونکراس بات پر تیار ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے عقد کریں جبکہ آپ کى شادى بہت بلندوبالاہے _
بعض اسلامى روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ ارادہ حکم خداوندى سے کیا ہوا تھا اوربعد والے حصے میں بھى اس بات کا قرینہ موجود ہے_
اس بناء پر یہ مسئلہ ایک تو اخلاتى اور انسانى مسئلہ تھا اور دوسرے یہ زمانہ جاہلیت کى غلط رسموں کو توڑنے کا ایک نہایت ہى مو ثر ذریعہ تھا (یعنى منہ بولے بیٹے کى مطلّقہ سے ازادکردہ غلام کى مطلّقہ سے عقد)_
مسلم ہے کہ پیغمبراکرم (ص) کو ان مسائل میں نہ تو لوگوں سے ڈرنا چاہئے تھا اور نہ ہى فضا کے مکدر ہونے اور زہریلے پروپیگنڈے سے خوف ووحشت کا شکارہى ہوجاتے ،خاص کرجب یہ احتمال ہوکہ ایک جنجال کھڑاہوجائے گااور آپ اور آپ کے مقدس مشن کى ترقى اور اسلام کى پیش رفت کےلئے رکاوٹ کھڑى ہوجائے گى اور یہ بات ضعیف الایمان افراد کو متزلزل کردے گى اور ان کے دل میں شک وشبہات پیدا ہوجائیں گے _
اس لئے قرآن میںاس سلسلہ کے آخرمیں فرمایا گیا ہے:
'' جس وقت زید نے اپنى حاجت کو پورا کرلیا اور اپنى بیوى کو چھوڑدیا تو ہم اسے تمہارى زوجیت میں لے آئے تاکہ منہ بولے بیٹوں کى بیویوں کے مطلّقہ ہونے کے بعد مومنین کو ان سے شادى کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو''_(4)
یہ کام ایسا تھا جسے ا نجام پاجانا چاہئے تھا
''اور خدا کافرمان انجام پاکر رہتا ہے''_ (5)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن ہرقسم کے شک وشبہ کو دور کرنے کےلئے پورى صراحت کے ساتھ اس شادى کا اصل مقصد بیان کرتا ہے جو زمان ہ جاہلیت کى ایک رسم توڑنے کے لئے تھى یعنى منہ بولے بیٹوں کى مطلقہ عورتوں سے شادى نہ کرنے کے سلسلے میں یہ خود ایک کلى مسئلہ کى طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر (ص) کا مختلف عورتوں سے شادى کرنا کوئی عام سى بات نہیں تھى بلکہ اس میں کئی مقاصد کا ذکر کرنا مقصود تھا جو آپ کے مکتب کے مستقبل کے انجام سے تعلق رکھتا تھا _
پیغمبر اکرم (ص) کى زینب کے ساتھ شادى کى داستان قرآن نے پورى صراحت کے ساتھ بیان کردى ہے اور یہ بھى واضح کردیا ہے کہ اس کا ہدف منہ بولے بیٹے کى مطلقہ سے شادى کے ذریعے دور جاہلیت کى ایک رسم کو توڑنا تھا، اس کے باوجود دشمنان اسلام نے اسے غلط رنگ دے کر ایک عشقیہ داستان میں تبدیل کردیا اس طرح سے انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کى ذات والا صفات کو آلودہ کرنے کى ناپاک جسارت کى ہے اور اس بارے میں مشکوک اور جعلى احادیث کا سہارالیا ہے ان داستانوں میں ایک یہ بھى ہے کہ جس وقت رسول اکرم (ص) زید کى احوال پرسى کے لئے اس کے گھرگئے اور جو نہى آپ نے دروازہ کھولا تو آپ کى نظر زینب کے حسن وجمال پر جا پڑى تو آپ نے فرمایا :
''سبحان اللہ خالق النور تبارک اللہ احسن الخالقین''
''منزہ ہے وہ خدا جو نور کا خالق ہے اور جاویدو بابرکت ہے وہ اللہ جو
احسن الخالقین ہے''_
ان لوگوں نے اس جملے کو زینب کے ساتھ آنحضرت (ص) کے لگائو کى دلیل قراردیا ہے، حالانکہ ،عصمت ونبوت کے مسئلہ سے قطع نظر بھى اس قسم کے افسانوں کى تکذیب کے لئے واضح شواہد ہمارے پاس موجود ہیں :
پہلا یہ کہ حضرت زینب، رسول پاک کى پھوپھى زاد بہن تھیں اور خاندانى ماحول میں تقریباً آپ کے سامنے پلى بڑھى تھیں اور آپ ہى نے زید کے لئے ان کى خواستگارى کى تھى اگر زینب حد سے زیادہ حسین تھیں اور بالفرض اس کے حسن وجمال نے پیغمبر اکرم کى توجہ کو اپنى طرف جذب کرلیا تھا تونہ تو اس کا حسن وجمال ڈھکا چھپا تھا اور نہ ہى اس ماجرے سے پہلے ان کے ساتھ آنحضرت کا عقد کرنا کوئی مشکل امر تھا بلکہ اگر دیکھا جائے تو زینب کو زید کے ساتھ شادى کرنے سے دلچپى نہ تھى ، بلکہ اس بارے میں انہوں نے اپنى مخالفت کا اظہار صراحت کے ساتھ بھى کردیا تھا اور وہ اس بات کو کا ملاً ترجیح دیتى تھیں کہ زید کى بجائے رسول اللہ کى بیوى بنیں، کیونکہ جب آنحضرت زید کےلئے زینب سے رشتہ دینے آئے تو وہ نہایت خوش ہوگئیں، کیونکہ وہ یہ سمجھ رہى تھیں کہ آپ ان سے اپنے لئے خواستگارى کى غرض سے تشریف لائے ہیں ،لیکن بعد میں وحى الہى کے نزول اور خدا وپیغمبر (ص) کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے زید کے ساتھ شادى کرنے پر راضى ہوگئیں تو ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے توہم کى کونسى گنجائشے باقى رہ جاتى ہے کہیں آپ زینب کے حالات سے بے خبر تھے؟ یا آپ ان سے شادى کى خواہش رکھتے ہوئے بھى اقدام نہیں کرسکتے تھے؟
دوسرا یہ کہ جب زیدنے اپنى بیوى زینب کو طلاق دینے کے لئے رسول اللہ (ص) کى طرف رجوع کیا تو آپ نے بار باراسے نصیحت کى اور اطلاق دینے کے لئے روکا اور یہ چیز بجائے خود ان افسانوں کى نفى کا ایک اورشاہدہے _
پھر یہ کہ خود قرآن صراحت کے ساتھ اس شادى کا مقصد بیان کرتا ہے تاکہ کسى قسم کى دوسرى باتوں کى گنجائشے باقى نہ رہے_
چوتھا امر یہ ہے کہ قرآنى آیت میں خداو ندعا لم اپنے پیغمبر (ص) سے فرماتاہے کہ زید کى مطلقہ بیوى کے ساتھ شادى کرنے میں کوئی خاص بات تھى جس کى وجہ سے آنحضرت (ص) لوگوں سے ڈرتے تھے، جبکہ انھیں صرف خدا سے ہى ڈرنا چاہئے_
خوف خدا کا مسئلہ واضح کرتا ہے کہ یہ شادى ایک فرض کى بجا آورى کے طور ر انجام پائی تھى کہ خدا کى ذات کے لئے شخصى معاملات کو ایک طرف رکھ دینا چاہئے تاکہ ایک خدائی مقدس ہدف پورا ہوجائے، اگرچہ اس سلسلے میں کو ردل دشمنوں کى زبان کے زخم اور منافقین کى افسانہ طرازى کا پیغمبر کى ذات پر الزام ہى کیوں نہ آتا ہو پیغمبر اکرم (ص) نے حکم خدا کى اطاعت اور غلط رسم کو توڑنے کى پاداش میں یہ ایک بہت بڑى قیمت ادا کى ہے اور اب تک کررہے ہیں _
لیکن سچے رہبروں کى زندگى میں ایسے لمحات بھى آجاتے ہیں ، جن میں انھیں ایثار اور فداکارى کا ثبوت دینا پڑتاہے ، اور وہ اس قسم کے لوگوں کے اتہامات اور الزامات کا نشانہ بنتے رہتے ہیں تاکہ اس طرح سے وہ اپنے اصل مقصد تک پہنچ جائیں
البتہ اگر پیغمبر گرامى قدر نے زینب کو بالکل ہى نہ دیکھا ہوتا اور نہ ہى پہچانا ہوتا اور زینب نے بھى آپ کے ساتھ ازدواج کے بارے میں رغبت کا اظہار نہ کیا ہوتا اور زید بھى انھیں طلاق دینے پر تیار نہ ہوتے (نبوت وعصمت کے مسئلہ سے ہٹ کر)پھر تو اس قسم کى گفتگو اور توہمات کى گنجائشے ہوتی،لیکن پیغمبر(ص) کى تو وہ دیکھى دکھائی تھیںلہذا ان تمام امکانات کى نفى کے ساتھ ان افسانوں کا جعلى اور من گھڑت ہونا واضح ہو جاتا ہے_
علاوہ ازیں نبى اکرم(ص) کى زندگى کا کوئی لمحہ یہ نہیں بتاتا کہ آپ(ص) کو زینب سے کوئی خاص لگائو او ررغبت ہو،بلکہ دوسرى بیویوں کى نسبت ان سے کوئی رغبت رکھتے تھے اور ان افسانوں کى نفى پر یہ ایک اور دلیل ہے _


(1)اکثر مفسرین و مورخین اسلامى کے بقول سورہ احزاب کى آیات 36تا38/اس سلسلے میں نازل ہوئی ہیں

(2)سورہ احزاب آیت 37
(3)سورہ احزاب آیت37

(4) سورہ احزاب آیت 37
(5) سورہ ا
حزاب آیت 37

 

 

ثعلبہعظمت اہل بیت کى ایک زندہ سند
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma