''نحن معاشر الانبیاء لا نورث''

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
مباہلہفدک

اہل سنت کى مختلف کتابوں میں پیغمبراسلام (ص) کى طرف منسوب ایک حدیث موجود ہے جو اس طرح کے مضمون پر مشتمل ہے:
''نحن معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقة''
''ہم پیغمبر(ص) لوگ اپنى میراث نہیں چھوڑتے جو ہم سے رہ جائے اسے راہ خدا میں صدقے کے طور پر خرچ کردیا جائے''_
اور بعض کتابوں میں ''لا نورث''کا جملہ نہیں ہے بلکہ''ما ترکناہ صدقة''کى صورت میں نقل کیا گیا ہے _
اس روایت کى سند عام طور پر ابوبکر تک جا کر ختم ہوجاتى ہے جنھوں نے آنحضرت (ص) کے بعد مسلمانوں کى زمام امور اپنے قبضے میں لے لى تھی_ اور جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا یا پیغمبر اکرم (ص) کى بعض بیویوں نے ان سے پیغمبر(ص) کى میراث کا مطالبہ کیا تو انھوں نے اس حدیث کا سہارا لےکر انھیں میراث سے محروم کردیا_
اس حدیث کو مسلم نے اپنى صحیح (جلد 3 کتاب الجھاد والسیر ص1379)میں ،بخارى نے جزو ہشتم کتاب الفرائض کے صفحہ 185پر اور اسى طرح بعض دیگر افراد نے اپنى اپنى کتابوں میں درج کیا ہے_
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ کتابوں میں سے بخارى میں بى بى عائشےہ سے ایک روایت نقل کى گئی ہے:فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور جناب عباس بن عبد المطلب (رسول (ص) کى وفات کے بعد )ابو بکر کے پاس آئے اور ان سے اپنى میراث کا مطالبہ کیا _ اس وقت انھوں نے اپنى فدک کى اراضى اور خیبر سے ملنے والى میراث کا مطالبہ کیا تو ابو بکر نے کہا میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا_''ہم میراث میں کوئی چیز نہیں چھوڑتے،جو کچھ ہم سے رہ جائے وہ صدقہ ہوتا ہے''_
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے جب یہ سنا تو نا راض ہو کر وہاں سے واپس آگئیں اور مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی_
البتہ یہ حدیث مختلف لحاظ سے تجزیہ و تحلیل کے قابل ہے لیکن اس تفسیر میں ہم چند ایک نکات بیان کریں گے:
1_یہ حدیث،قرآنى متن کے مخالف ہے اور اس اصول اور کلیہ قاعدہ کى رو سے نا قابل اعتبار ہے کہ جو بھى حدیث کتاب اللہ کے مطابق نہ ہو اس پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے اور ایسى حدیث کو پیغمبر اسلام (ص) یا دیگر معصومین علیھم السلام کا قول سمجھ کر قبول نہیں کیا جا سکتا_
ہم قرآنى آیات میں پڑھتے ہیں کہ حضرت سلیمان(ع) جناب دائود (ع) کے وارث بنے اورآیت کا ظاہر مطلق ہے کہ جس میں اموال بھى شامل ہیں_ جناب یحیى (ع) اور زکریا (ع) کے بارے میں ہے:
''یرثنى ویرث من ال یعقوب''
''خداوندا مجھے ایسا فرزند عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے''_(سورہ مریم آیت 6)
حضرت''زکریا(ع) ''کے بارے میں تو بہت سے مفسرین نے مالى وراثت پر زور دیا ہے_
اس کے علاوہ قرآن مجیدمیں''وراثت''کى آیات کا ظاہر بھى عمومى ہے کہ جو بلا استثناء سب کے لئے ہے_
شاید یہى وجہ ہے کہ اہل سنت کے مشہور عالم علامہ قرطبى نے مجبور ہوکر اس حدیث کو غالب اور اکثر فعل کى حیثیت سے قبول کیا ہے نہ کہ عمومى کلیہ کے طور پر اور اس کے لئے یہ مثال دى ہے کہ عرب ایک جملہ کہتے ہیں:
''انا معشرالعرب اقرى الناس للضیف''_
ہم عرب لوگ دوسرے تمام افراد سے بڑھ کر مہمان نوازہیں (حالانکہ یہ کوئی عمومى حکم نہیں ہے)_
لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات اس حدیث کى اہمیت کى نفى کررہى ہے کیونکہ حضرت سلیمان(ع) اور یحیى (ع) کے بارے میں اس قسم کا عذر قبول کرلئے تو پھر دوسرے کے لئے بھى یہ قطعى نہیں رہ جاتی_
2_مندرجہ بالا روایت ان کے خلاف ہے جن سے معلوم ہوتا ہو کہ ابو بکر نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو فدک واپس لوٹا نے کا پختہ ارادہ کر کیا تھا لیکن دوسرے لوگ اس میںحائل ہوگئے تھے چنانچہ سیرت حلبى میں ہے:
فاطمہ(ص) بنت رسول(ص) ،ابو بکر کے پاس اس وقت آئیں جب وہ منبر پر تھے _ انھوں نے کہا:
''اے ابو بکر کیا یہ چیز قرآن میں ہے کہ تمھارى بیٹى تمہارى وراث بنے لیکن میں اپنے باپ کى میراث نہ لوں''؟
یہ سن کر ابو بکر رونے لگے اور ان کى آنکھوں سے آنسو جارى ہوگئے پھر وہ منبر سے نیچے اترے اور فدک کى واپسى کا پروانہ فاطمہ (ص) کو لکھ دیا_ اسى اثناء میں عمر آگئے _ پوچھا یہ کیا ہے؟انھوں نے کہاکہ میں نے یہ تحریر لکھ دى ہے تا کہ فاطمہ کو ان کے باپ سے ملنے والى وراثت واپس لوٹا دوں عمر نے کہا: اگرآپ یہ کام کریں گے تو پھر دشمنوں کے ساتھ جنگى اخراجات کہاں سے پورے کریں گے؟
جبکہ عربوں نے آپ کے خلاف قیام کیا ہوا ہے _ یہ کہا اور تحریر لے کر اسے پارہ پارہ کردیا_(1)
یہ کیونکر ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے تو صریحى طور پر ممانعت کى ہو اور ابو بکر اس کى مخالفت کى جرا ت کریں؟اور پھر عمر نے جنگى اخراجات کا تو سہارا لیا لیکن پیغمبر اکرم(ص) کى حدیث پیش نہیں کی_
مندرجہ بالا روایت پر اگر اچھى طرح غور کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ یہاں پر پیغمبر اسلام(ص) کى طرف سے ممانعت کا سوال نہیں تھا_ بلکہ سیاسى مسائل آڑے تھے اور ایسے موقع پر معتزلى عالم ابن ابى الحدید کى گفتگو یادآجاتى ہے_ وہ کہتے ہیں:
میںنے اپنے استاد'' على بن فارقی'' سے پوچھا کہ کیا فاطمہ(ص) اپنے دعوى میں سچى تھیں ؟ تو انھوں نے کہا جى ہاں پھر میں نے پوچھا تو ابوبکر انھیں سچا اور بر حق بھى سمجھتے تھے _
اس موقع پر میرے استاد نے معنى خیز تبسم کے ساتھ نہایت ہى لطیف اور پیارا جواب دیا حالانکہ انکى مذاق کى عادت نہیں تھی،انھوں نے کہا:
اگر وہ آج انھیں صرف ان کے دعوى کى بناء پر ہى فدک دےدیتے تو پھر نہ تو ان کے لئے کسى عذر کى گنجائشے باقى رہتى اور نہ ہى ان سے موافقت کا امکان ''_(2)
3_پیغمبر اسلام (ص) کى ایک مشہور حدیث ہے جسے شیعہ اور سنى سب نے اپنى اپنى کتابوں میں درج کیا ہے،حدیث یہ ہے: ''
العلماء ورثة الانبیاء''_ ''علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں''_
نیز یہ قول بھى آنحضرت(ص) ہى سے منقول ہے: ''
ان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درھماً''_ ''انبیاء اپنى میراث میں نہ تودینار چھوڑتے ہیں اور نہ ہى درہم''_
ان دونوں حدیثوں کو ملا کر پڑھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ(ص) کا اصل مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو یہ بات باور کرائیں کہ انبیاء کے لئے سرمایہ افتخار ان کا علم ہے اور اہم ترین چیز جو وہ یادگارکے طور پر چھوڑ جاتے ہیں ان کا ہدایت و راہنمائی کا پروگرام ہے اور جو لوگ علم و دانش سے زیادہ بہرہ مند ہوں گے وہى انبیاء کے اصلى وارث ہوں گے_ بجائے اس کے کہ ان کى مال پر نگاہ ہو اور اسے یادگار کے طور پر چھوڑجائیں _ اس کے بعد اس حدیث کے نقل بہ معنى کردیا گیا اور اس کى غلط تعبیریں کى گئیں اور شاید''
ماترکناہ صدقة'' والے جملے کا بعض روایات میںاس پر اضافہ کردیا گیا_
 


(1)سیرہ حلبى ج3/ص361

(2)شرح نہج البلاغہ،ابن ابى الحدید جلد_16ص284

 

مباہلہفدک
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma