نعیم بن مسعود کى داستان اور دشمن کے لشکر میں پھوٹ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
حذیفہ کا واقعہضربت على (ع) ثقلین کى عبادت پر بھاری

نعیم جو تازہ مسلمان تھے اور ان کے قبیلہ''غطفان ''کو لشکر اسلام کى خبر نہیں تھی،وہ پیغمبر اکرم (ص) کى خدمت میں آئے اور عرض کى کہ آپ(ص) مجھے جو حکم بھى دیں گے ،میں حتمى کامیابى کے لئے اس پر کار بند رہوں گا_
رسول اللہ (ص) نے فرمایا :
''تمہارے جیسا شخص ہمارے درمیان اور کوئی نہیںہے _اگر تم دشمن کے لشکر کے درمیان پھوٹ ڈال سکتے ہو تو ڈ الو _کیونکہ جنگ پوشیدہ تدابیر کا مجموعہ ہے ''_
نعیم بن مسعود نے ایک عمدہ تدبیر سوچى اور وہ یہ کہ وہ بنى قریظہ کے یہودیوںکے پاس گیا ،جن سے زمانہ جاہلیت میں ان کى دوستى تھى ان سے کہا اے بنى قریظہ تم جانتے ہوکہ مجھے تمہارے ساتھ محبت ہے_
انھوں نے کہا آپ سچ کہتے ہیں :ہم آپ پراس بارے میں ہر گز کوئی الزام نہیں لگاتے _
نعیم بن مسعود نے کہا :قبیلہ قریش اور عظفان تمہارى طرح نہیں ہیں، یہ تمہارا اپنا شہر ہے، تمہارا مال اولاد اور عورتیں یہاں پر ہیں اور تم ہر گز یہ نہیں کر سکتے کہ یہاں سے کو چ کر جا ئو_
قریش اور قبیلہ عظفان محمد(ص) اور ان کے اصحاب کے ساتھ جنگ کرنے کے لے آئے ہوئے ہیںاور تم نے ان کى حمایت کى ہے جبکہ ان کا شہر کہیںاو رہے اور ان کے مال او رعورتیں بھى دوسرى جگہ پر ہیں، اگر انھیں موقع ملے تو لوٹ مار اور غارت گرى کر کے اپنے ساتھ لے جائیں گے، اگر کوئی مشکل پیش آجا ئے تو اپنے شہر کو لوٹ جائیں گے، لیکن تم کو اور محمد(ص) کو تو اسى شہر میں رہنا ہے او ریقیناتم اکیلے ان سے مقابلہ کرنے کى طاقت نہیں رکھتے ،تم اس وقت تک اسلحہ نہ اٹھائوجب تک قریش سے کوئی معاہدہ نہ کر لو او رو ہ اس طرح کہ وہ چندسرداروں اور بزرگوں کو تمہارے پاس گروى رکھ دیں تاکہ وہ جنگ میں کو تاہى نہ کریں_
بنى قریظہ کے یہودیوں نے اس نظریہ کوبہت سراہا_
پھر نعیم مخفى طور پر قریش کے پاس گیا اور ابو سفیان اور قریش کے چندسرداروں سے کہا کہ تم اپنے ساتھ میرى دوستى کى کیفیت سے اچھى طرح آگاہ ہو، ایک بات میرے کانوںتک پہنچى ہے، جسے تم تک پہنچا نا میں اپنا فریضہ سمجھتا ہوں تا کہ خیر خواہى کا حق اداکر سکوں لیکن میرى خواہش یہ ہے کہ یہ بات کسى او رکو معلو م نہ ہونے پائے _
انھوں نے کہا کہ تم بالکل مطمئن رہو _
نعیم کہنے لگے : تمہیں معلوم ہو نا چاہیے کہ یہودى محمد(ص) کے بارے میںتمھارے طرز عمل سے اپنى برائت کا فیصلہ کر چکے ہیں ،یہودیوں نے محمد(ص) کے پاس قاصد بھیجا ہے او رکہلوایا ہے کہ ہم اپنے کئے پر پشیمان ہیں اور کیا یہ کافى ہو گا کہ ہم قبیلہ قریش او رغطفان کے چندسردار آپ(ص) کے لئے یرغمال بنالیں اور ان کو بندھے ہاتھوں آپ کے سپرد کردیں تاکہ آپ ان کى گردن اڑادیں، اس کے بعد ہم آپ کے ساتھ مل کر ان کى بیخ کنى کریں گے ؟محمد(ص) نے بھى ان کى پیش کش کوقبول کرلیا ہے، اس بنا ء پر اگر یہودى تمہارے پاس کسى کو بھیجیں او رگروى رکھنے کا مطالبہ کریں تو ایک آدمى بھى ان کے سپرد نہ کر نا کیونکہ خطرہ یقینى ہے _
پھر وہ اپنے قبیلہ غطفان کے پاس آئے اور کہا :تم میرے اصل اور نسب کو اچھى طرح جانتے ہو_
میں تمھاراعاشق او رفریفتہ ہوں او رمیں سوچ بھى نہیں سکتا کہ تمھیں میرے خلوص نیت میںتھوڑا سابھى شک اور شبہ ہو _
انھوںنے کہا :تم سچ کہتے ہو ،یقینا ایسا ہى ہے _
نعیم نے کہا : میںتم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں لیکن ایسا ہو کہ گو یا تم نے مجھ سے بات نہیں سنى _
انھوں نے کہا :مطمئن رہویقینا ایسا ہى ہو گا ،وہ بات کیا ہے ؟
نعیم نے وہى بات جو قریش سے کہى تھى یہودیوں کے پشیمان ہونے او ریر غمال بنانے کے ارادے کے بارے میں حرف بحرف ان سے بھى کہہ دیا او رانھیں اس کام کے انجام سے ڈرایا _
اتفاق سے وہ ( ماہ شوال سن 5 ہجرى کے ) جمعہ او رہفتہ کى درمیانى رات تھى _ ابو سفیان او رغطفان کے سرداروں نے ایک گروہ بنى قریظہ کے یہودیوںکے پاس بھیجا او رکہا : ہمارے جانور یہاں تلف ہو رہے ہیں اور یہاں ہمارے لئے ٹھہر نے کى کو ئی جگہ نہیں _ کل صبح ہمیں حملہ شروع کرنا چاہیے تاکہ کام کو کسى نتیجے تک پہنچائیں _
یہودیوں نے جواب میں کہا :کل ہفتہ کا دن ہے او رہم اس دن کسى کام کو ہاتھ نہیں لگاتے ،علاوہ ازیں ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ اگر جنگ نے تم پر دبائو ڈالا تو تم اپنے شہروں کى طرف پلٹ جائو گے او رہمیں یہاں تنہاچھوڑدوگے _ ہمارے تعاون او رساتھ دینے کى شرط یہ ہے کہ ایک گروہ گروى کے طور پر ہمارے حوالے کردو، جب یہ خبر قبیلہ قریش او رغطفان تک پہنچى تو انھوں نے کہا :خداکى قسم نعیم بن مسعود سچ کہتا تھا،دال میں کالا ضرو رہے _
لہذا انھوںنے اپنے قاصد یہودیوں کے پاس بھیجے اور کہا : بخدا ہم تو ایک آدمى بھى تمھارے سپرد نہیں کریں گے او راگر جنگ میں شریک ہو تو ٹھیک ہے شروع کرو _
بنى قریظہ جب اس سے با خبر ہوئے تو انھوں نے کہا :واقعا نعیم بن مسعود نے حق بات کہى تھى یہ جنگ نہیں کرنا چاہتے بلکہ کوئی چکر چلا رہے ہیں، یہ چا ہتے ہیں کہ لوٹ مار کر کے اپنے شہروں کو لوٹ جائیں او رہمیں محمد(ص) کے مقابلہ میں اکیلا چھوڑجا ئیں پھر انہوں نے پیغام بھیجا کہ اصل بات وہى ہے جو ہم کہہ چکے ہیں ،بخدا جب تک کچھ افرادگروى کے طور پر ہمارے سپرد نہیں کروگے ،ہم بھى جنگ نہیں کریں گے ،قریش اورغطفان نے بھى اپنى بات پراصرار کیا، لہذا ان کے درمیان بھى اختلاف پڑ گیا _ اور یہ وہى موقع تھا کہ رات کو اس قدر زبردست سرد طوفانى ہوا چلى کہ ان کے خیمے اکھڑگئے اور دیگیں چو لہوں سے زمین پر آپڑیں _
یہ سب عوامل مل ملاکر اس بات کا سبب بن گئے کہ دشمن کو سر پر پائوں رکھ کر بھا گنا پڑا اور فرار کو قرار پر ترجیح دینى پڑى _ یہاں تک کہ میدان میں انکا ایک آدمى بھى نہ رہا_

 

 


حذیفہ کا واقعہضربت على (ع) ثقلین کى عبادت پر بھاری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma