انطاکیہ کے رسول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
ہم اپ کو سنگسار کر دیں گےتُبّع شہر مکہ میں

''انطاکیہ ''شام کے علاقہ کا ایک قدیم شہر ہے بعض کے قول کے مطابق یہ شہر مسیح علیہ السلام سے تین سو سال پہلے تعمیر ہوا،یہ شہر قدیم زمانے میں دولت و ثروت اور علم و تجارت کے لحاظ سے مملکت روم کے تین بڑے شہروں میں سے ایک شمار ہوتا تھا_
شہر انطاکیہ ،حلب سے ایک سو کلو میٹر سے کچھ کم اور اسکندریہ سے تقریبا ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے _
یہ خلیفہ ثانى کے زمانہ میں ''ابو عبیدہ جراح'' کے ہاتھوں فتح ہوااور رومیوں کے ہاتھوں سے نکل گیا اس میں رہنے والے لوگ عیسائی تھے انھوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا اور اپنے مذہب پر باقى رہ گئے _
پہلى عالمى جنگ کے بعد یہ شہر'' فرانسیسیوں'' نے اسے چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس بات کے پیش نظر کہ ان کے شام سے نکلنے کے بعد اس ملک میں ہونے والے فتنہ و فساد سے عیسائیوں کو کوئی گزند نہ پہنچے، انھوں نے اسے ترکى کے حوالے کردیا_
انطاکیہ عیسائیوں کى نگاہ میں اسى طرح دوسرا مذہبى شہر شمار ہوتا ہے جس طرح مسلمانوں کى نظر میں مدینہ ہے اور ان کا پہلا شہر بیت المقدس ہے جس سے حضرت عیسى علیہ السلام نے اپنى دعوت کى ابتداء کى او راس کے بعد حضرت عیسى (ع) پر ایمان لانے والوں میں سے ایک گروہ نے انطاکیہ کى طرف ہجرت کى اور'' پولس'' اور'' برنابا'' شہروں کى طرف گئے، انھوں نے لوگوں کو اس دین کى طرف دعوت دى ،یہاں سے دین عیسوى نے وسعت حاصل کی، اسى بناء پرقرآن میں اس شہر کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ گفتگو ہوئی ہے_
قرآن اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ''تم ان سے بستى والوں کى مثال بیان کرو کہ جس وقت خدا کے رسول ان کى طرف آئے_''(1)
قرآن اس اجمالى بیان کے بعد ان کے قصے کى تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: '' وہ وقت کہ جب ہم نے دو رسولوںکو ان کى طرف بھیجا لیکن انھوں نے ہمارے رسولوں کى تکذیب کى ،لہذا ہم نے ان دو کى تقویت کے لئے تیسرا رسول بھیجا ،ان تینوں نے کہا کہ ہم تمہارى طرف خدا کى طرف سے بھیجے ہوئے ہیں''_(2)
اس بارے میں کہ یہ رسول کون تھے ،مفسرین کے درمیان اختلا ف ہے ،بعض نے کہا ہے کہ ان دو کے نام''
شمعون ''اور ''یوحنا''تھے اور تیسرے کا نام ''پولس ''تھا اور بعض نے ان کے دوسرے نام ذکر کئے ہیں_
اس بارے میں بھى مفسرین میں اختلاف ہے کہ وہ خدا کے پیغمبراور رسول تھے یا حضرت مسیح علیہ السلام کے بھیجے ہوئے اور ان کے نمائند ے تھے (اور اگر خدا یہ فرماتا ہے کہ ہم نے انھیں بھیجا تواس کى وجہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کے بھیجے ہوئے بھى خدا ہى کے رسول ہیں )_یہ اختلافى مسئلہ ہے اگر چہ قران ظاہر پہلى تفسیر کے موافق ہے اگر چہ اس نتیجہ میں کہ جو قران لینا چاہتا ہے کوئی فرق نہیں پڑتا _
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس گمراہ قوم نے ان رسولوں کى دعوت پر کیا رد عمل ظاہر کیا ؟قران کہتا ہے: انھوں نے بھى وہى بہانہ کیاکہ جو بہت سے سرکش کافروں نے گزشتہ خدائی پیغمبروں کے جواب میں کیا تھا: ''انھوں نے کہا ،تم تو ہم ہى جیسے بشر ہو اور خدائے رحمن نے کوئی چیز نازل نہیں کى ہے، تمہارے پاس جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں ہے _''(3)
اگر خدا کى طرف سے کوئی بھیجا ہوا ہى انا تھا تو کوئی مقرب فرشتہ ہونا چاہئے تھا ،نہ کہ ہم جیسا انسان اور اسى امر کو انھوں نے رسولوں کى تکذیب اور فرمان الہى کے نزول کے انکار کى دلیل خیال کیا _
حالانکہ وہ خود بھى جانتے تھے کہ پورى تاریخ میں سب رسول نسل ادم علیہ السلام ہیسے ہوئے ہیں ان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام بھى تھے کہ جن کى رسالت سب مانتے تھے ،یقینا وہ انسان ہى تھے اس سے قطع نظر کیا انسانوں کى ضروریات ،مشکلات اور تکلیفیں انسان کے علاوہ کوئی اور سمجھ سکتا ہے_؟(4)
بہر حال یہى پیغمبر اس گمراہ قوم کى شدید اور سخت مخالفت کے باوجود مایوس نہ ہوئے اور انھوں نے کمزورى نہ دکھائی اور ان کے جواب میں ''کہا:ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ یقینا ہم تمہارى طرف اس کے بھیجے ہوئے ہیں _''
''اور ہمارے ذمہ تو واضح اور اشکار طورپر ابلاغ رسالت کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے _''(
وما علینا الا البلاغ المبین)

مسلمہ طورپر انھوں نے صرف دعوى ہى نہیں کیا اور قسم پر ہى قناعت نہیں کی، بلکہ''بلاغ مبین ''ان کا ابلاغ ''بلاغ مبین ''کا مصداق نہ ہونا کیونکہ ''بلاغ مبین''تو اس طرح ہونا چاہئے کہ حقیقت سب تک پہنچ جائے اور بات یقینى اور محکم دلائل اور واضح معجزات کے سوا ممکن نہیں ہے _ بعض روایات میں بھى ایا ہے کہ انھوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کى طرح بعض ناقابل علاج بیماروںکو حکم خدا سے شفا بخشی_


(1)سورہ ىس آیت 13
(2)سورہ یس آیت 14

(3)سورہ یس آیت 15
(4)یہاں پر خدا کى صفت رحمانیت کا ذکر کیوں کیاگیا ہے ؟ممکن ہے کہ یہ اس لحاظ سے ہو کہ خدا ان کى بات کو نقل کرتے ہوئے خصوصیت سے اس صفت کاذکر کرتا ہے تاکہ ان کا جواب خود ان کى بات ہیسے حل ہو جائے ،کیونکہ یہ بات کیسے ممکن ہو سکتى ہے کہ وہ خدا کہ جس کى رحمت عامہ نے سارے عالم کو گھیررکھا ہے وہ انسانوں کى تربیت اور رشد و تکامل کى طر ف دعوت دینے کے لئے پیغمبر نہ بھیجے _ یہ احتمال بھى ہے کہ انھوں نے خصوصیت کے ساتھ وصف رحمن کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ خدا وند مہربان اپنے بندوں کا کام پیغمبروں کے بھیجنے اور مشکل ذمہ داریاں عائد کرنے سے نہیں کرتا وہ تو ازاد رکھتا ہے ،یہ کمزور اور بے بنیاد منطق اس گروہ کے انکار کے ساتھ ہم اہنگ تھی_
 

 


ہم اپ کو سنگسار کر دیں گےتُبّع شہر مکہ میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma