جناب داؤد علیہ السلام پر الہى نعمتیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
حضرت داؤد علیہ السلام کى آزمائشے(1)حضرت داؤد علیہ السلام

قرآن مجید اجمال کے بعد تفصیل کى اپنى خاص روش کے مطابق اب حضرت داؤد علیہ السلام پر نعمات الہى کى کچھ تفصیل بیان کرتا ہے_ ارشاد ہوتا ہے:''ہم نے اس کے لئے پہاڑ مسخر کردیئے،اس طرح سے کہ صبح و شام وہ اس کے ساتھ تسبیح خدا کرتے تھے''_(1)
''نہ صرف پہاڑ بلکہ سب پرندے بھى اس کے لئے مسخر کردیئے تا کہ ہمیشہ اس کے ہمراہ اللہ کى تسبیح کریں''_(2)
''یہ سب پرندے اور پہاڑ حکم داؤدکے مطیع تھے،اس کے ساتھ ہم آواز تھے اور اس کى طرف بازگشت کرنے والے تھے''_(3)(4)
اگر چہ عالم کے تمام ذرات خداکا ذکر، تسبیح اور حمد کرتے ہیں_خواہ کوئی داؤد علیہ السلام ان کے ساتھ ہم صدا ہو یا نہ ہو،لیکن داؤد علیہ السلام کا امتیاز یہ تھا کہ ان کے صدا بلند کرنے اور تسبیح کى نغمہ سرائی کے وقت ان موجودات کے اندر جو کچھ پوشیدہ تھا وہ آشکار و ظاہر ہو جاتا تھا اور اندرونى زمزمہ بیرونى نغمہ کے ساتھ تبدیل ہو جاتا تھا،جیسا کہ پیغمبر اسلام(ص) کے ہاتھ پر''سنگریزہ''کى تسبیح کے بارے میں بھى روایات آئی ہیں_
ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ: ''داؤد(ع) ،دشت و بیابان کى طرف نکلے اور جس وقت آپ(ع) زبور کى تلاوت کرتے تو کوئی پہاڑ اور پتھر اور پرندہ ایسا نہ تھا کہ جو ان کے ساتھ ہم آواز نہ ہوتا ہو''_
قرآن اس معنوى فضیلت کا ذکر کرنے کے بعد ایک مادى فضیلت کا بیان شروع کرتے ہوئے کہتا ہے:''اور ہم نے اس کے لئے لوہے کو نرم کردیا_''
ہو سکتا ہے کہ یہ کہا جائے کہ یہ خدا نے داؤد(ع) کو معجزانہ طور پر لوہے کو نرم کرنے کا طریقہ سکھایا تھا: ''اس طرح سے کہ وہ اس سے زرہ بنانے کے لئے مضبوط و محکم اور پتلى پتلى نازک قسم کى کڑیاں بنا سکیں''_(5)
2_بعض کہتے ہیںکہ یہ تسبیح ظاہرى آواز کے ساتھ ساتھ ایک طرح کے ادراک و شعور کے ہمراہ تھى کہ جو ذرات عالم کے باطن میں ہے_اس نظریہ کے مطابق تمام موجودات عالم ایک قسم کى عقل اور شعور کے حامل ہیں اور جب یہ موجودات اس عظیم پیغمبر(ع) کى مناجات کے وقت دل انگیز آواز سنتے تھے توان کے ساتھ ہم آواز ہوجاتے اور یوں سب باہم ملکر تسبیح کرتے_
3_بعض نے اس احتمال کا ذکر بھى کیا ہے کہ یہ تسبیح تکوینى ہے کہ جو تمام موجودات زبان حال سے کرتے ہیں اور ان کا نظام خلقت اس امر کى بخوبى حکایت کرتا ہے کہ اللہ ہر عیب سے پاک و منزہ ہے اور علم و قدر او رہر قسم کى صفات کمال کا حامل ہے_
لیکن یہ بات حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں کہ اسے ان کى خصوصیات میں سے شمار کیا جائے_اس لحاظ سے مناسب تر دوسرى تفسیر ہے اور یہ امر قدرت الہى سے بعید نہیںہے_یہ ایک زمزمہ تھا کہ جو ان موجودات عالم کے اندر اور ان کے باطن میں ہمیشہ سے جارى تھا لیکن خدا نے قوت اعجاز سے اسے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے ظاہر کیا جیسے پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وآلہ و سلم کى ہتھیلى پر سنگریزوں کا تسبیح کرنا مشہور ہے_
یا یہ کہا جائے کہ داؤد(ع) سے پہلے بھى جنگوں میں دفاع کے لئے لوہے کى سلیٹوں سے استفادہ ہوتا تھا،کہ جو بھارى بھى ہوتى تھیں،اور اگر انہیں پہنا جاتا تو وہ اتنى خشک اور بے لچک بھى ہوتى تھیں کہ جو جنگجو غازیوں کے لئے انتہائی پریشان کن ہوتى تھیں،کوئی بھى شخص اس زمانہ تک لوہے کى باریک اور مضبوط کڑیوں سے زرہ کى مانند کوئی ایسى چیز نہ بنا سکاتھا کہ جو لباس کى مانند آسانى کے ساتھ بدن پر آسکے اور بدن کى حرکات کے ساتھ نرم اور رواں رہے_
قرآن کا ظاہر یہ ہے کہ لوہے کا داؤد(ع) کے ہاتھ میں نرم ہونا،خدا کے حکم سے اورمعجزانہ صورت میں انجام پذیر ہوتا تھا_اس بات میں کیا چیز مانع ہے کہ وہى ذات کہ جو بھٹى کو لوہا نرم کرنے کى خاصیت بخشى ہے،اسى خاصیت کو ایک دوسرى شکل میں داؤد(ع) کے پنجوں میں قرار دے دے،بعض اسلامى روایات میں بھى اسى معنى کى طرف اشارہ ہوا ہے_ایک حدیث میں آیا ہے کہ خدا نے داؤد(ع) کى طرف وحى بھیجى کہ:
''تم ایک اچھے آدمى ہو،مگر تم بیت المال سے اپنى روزى حاصل کرتے ہو،داؤد(ع) چالیس دن تک روتے رہے،(اور خدا سے اس کے حل کى درخواست کی)تو خدا نے لوہے کو ان کے لئے نرم کردیا اور ہر روز ایک زرہ بنالیتے تھےاور اس طرح سے وہ بیت المال سے بے نیاز ہوگئے_''(6)
بہر حال داؤد(ع) اس توانائی کے ذریعہ ،کہ جو خدا نے انہیں دى تھی،بہترین طریق یعنى جہاد کا وسیلہ بنانے سے،ایسا وسیلہ جو دشمن سے حفاظت کرے_ استفادہ کرتے تھے،اور اس سے زندگى کے عام وسائل میں ہر گز فائدہ نہ اٹھایا،اور عجب یہ کہ اس کى آمدنى سے بعض روایات کے مطابق_ اپنى ساددہ زندگى کى ضروریات پورا کرنے کے علاوہ کچھ نہ کچھ حاجت مندوں پر بھى خرچ کیا کرتے تھے،ان تمام باتوں کے علاوہ اس کا ایک فائدہ یہ تھا کہ وہ ان کا ایک بولتا ہوا معجزہ شمار ہوتا تھا_
 


(1)سورہ ص، آیت 18
(2)سورہ ص، آیت 19
(3)سورہ ص، آیت 19
(4)مفسرین کى اس سلسلے میں مختلف آراء ہیں کہ پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ کس طرح ہم آواز تھے اور اس کى کیفیت کیا تھی؟ ان آراء کا خلاصہ یہ ہے:
1_بعض کہتے ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کى دلکش،جاذب اور دل گداز آواز تھى کہ جو پہاڑوں پر اثر انداز ہوتى تھى اور پرندوں کو اپنى طرف کھینچ لیتى تھی(لیکن یہ کوئی ایسى اہم فضیلت نہیں کہ قرآن اسے اس اہمیت کے ساتھ ذکر کرے_)
2_بعض کہتے ہیںکہ یہ تسبیح ظاہرى آواز کے ساتھ ساتھ ایک طرح کے ادراک و شعور کے ہمراہ تھى کہ جو ذرات عالم کے باطن میں ہے_اس نظریہ کے مطابق تمام موجودات عالم ایک قسم کى عقل اور شعور کے حامل ہیں اور جب یہ موجودات اس عظیم پیغمبر(ع) کى مناجات کے وقت دل انگیز آواز سنتے تھے توان کے ساتھ ہم آواز ہوجاتے اور یوں سب باہم ملکر تسبیح کرتے_

(5)سورہ ء سباء آیت 11

(6)یہ ٹھیک ہے کہ بیت المال ایسے لوگوں پر خرچ کرنے کے لئے ہوتا ہے کہ جو معاشرے کى بغیر عوض کے خدمت کرتے ہیں،اور ایسے اہم بوجھ اٹھاتے ہیں کہ جو پسماندہ ہوں،لیکن یہ بات زیادہ بہتر ہے کہ انسان کسى خدمت کو بھى انجام دے اور اپنے ہاتھ کى کمائی سے (توانائی کى صورت میں)گذراوقات کرے اور داؤد(ع) یہ چاہتے تھے کہ وہ اسى قسم کے ممتاز بندے بنیں_''

 

 

 

حضرت داؤد علیہ السلام کى آزمائشے(1)حضرت داؤد علیہ السلام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma