اس مقام پر قرآن مجید کے الفاظ یہ ہیں : ''ہم نے اسے اور اسکے گھر کو زمین میں غرق کردیا''_(1)
یہ درست ہے کہ جب منکرین کا طغیان اور سرکشى اور ان کى جانب سے تہى دست مومنین کى تحقیر و تذلیل،اور پیمبر الہى کے خلاف سازش اپنى انتہا کو پہنچ جاتى ہے تو اس وقت دست قدرت الہى دراز ہوتا ہے_اور ان متکبر گستاخوں کى زندگیوں کو ختم کردیتا ہے_اور انھیں ایسى سزادیتا ہے کہ ان کى افتاد سب لوگوں کے لئے سبب عبرت بن جاتى ہے_
قرآن میںکلمہ ''خسف'' اس مقام پر زمین میں گڑجانے اور زمین میں پوشیدہ ہوجانے کے معنى میں استعمال ہوا ہے_ انسان کى پورى تاریخ میں ایسے واقعات بارہا پیش آئے ہیں کہ سخت زلزلہ آیا اور زمین شگافتہ ہوگئی اور اس نے شہر یا آبادیوں کو نگل لیا_ مگر اس مقام پر جس حادثہ ''خسف'' کا ذکر ہے،یہ مختلف نوعیت کا ہے_اس میں فقط قارون اور اس کے خزانے ہى لقمہ زمین ہوئے_
کیا عجب واقعات ہیں کہ فرعون تو دریائے نیل کى موجوں میں غرق ہوجاتا ہے اور قارون شکم زمین میں سما جاتا ہے_اس مقام پر یہ امر ہے کہ پانى جو مایہ حیات ہے،وہ فرعون اور اس کے ہمکاروںکو نابود کرنے پرمامور ہوتا ہے_اورزمین جو انسان کے لئے جائے راحت ہے وہ قارون اور اس کے ساتھیوں کے لئے گورستان بن جاتى ہے_
یہ مسلم ہے کہ قارون اپنے گھر میں تنہا نہ تھا_وہ اور اس کے اہل خاندان،اس کے ہم خیال،اور اس کے ظالم اور ستمگر دوست سب کے سب شکم زمین میں سماگئے_
''لیکن اس وقت اس کى مدد کے لئے کوئی جماعت نہ تھى جو اسے عذاب الہى سے بچا سکتى اور وہ خود بھى اپنى کوئی مدد نہ کرسکتا تھا''_(2)
نہ تو اس کے دستر خوان کے مفت خور،نہ اس کے دلى دوست،نہ اس کا مال و دولت،ان میں سے کوئی شے بھى اسے عذاب الہى سے نہ بچا سکى اور وہ سب کے سب قعر زمین میں سماگئے_
(1)سورہ قصص آیت81
(2)سورہ قصص آیت 81