یوسف نے بھى چورى کى تھی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
برادران یو سف کى فداکا رى کیوں قبول نہ ہوئی اے بنیا مین تم نے ہمیں ذلیل کر دیا

آخر کار بھائیوں نے یقین کر لیا کہ ان کے بھا ئی بنیامین نے ایسى قبیح اور منحوس چورى کى ہے اور اس طرح اس نے عزیز مصر کى نظروں میں ان کا سا بقہ ریکار ڈسارا خراب کردیا ہے لہذا اپنے آپ کو برى الذمہ کرنے کے لئے انہوں نے کہا : ''اگر اس لڑکے نے چورى کى ہے تو یہ کوئی تعجب کى بات نہیں کیو نکہ اس کا بھائی یوسف بھى پہلے ایسے کا م کا مرتکب ہو چکا ہے ''_(1)اور یہ دونوں ایک ہى ماں اور باپ سے ہیں اور ہم جو دوسرى ماں سے ہیں ہمارا حساب کتاب ان سے الگ ہے _
اس طرح سے انہوں نے اپنے اور بنیا مین کے درمیان ایک حد فاصل قائم کر نا چاہى اور کا تعلق یوسف سے جوڑدیا _
یہ بات سن کر یو سف بہت دکھى اور پریشان ہوئے اور ''اسے دل میں چھپا ئے رکھا اور ان کے سامنے اظہار نہ کیا ''_( 2)
عارضى سى بات تھى جو صرف برادران یو سف کے سامان کى تلاشى پر ختم ہو گیا اور جودر حقیقت مراد تھا یعنى ''بنیامین ''وہ پہچان لیاگیا_
کیو نکہ وہ جانتے تھے کہ یہ بات کہہ کر انہوں نے ایک بہت بڑا بہتان باندھا ہے لیکن انہوں نے اس کا کو ئی جواب نہ دیا بس اجمالى طور پر اتنا کہا کہ جس کى طرف تم یہ نسبت دیتے ہو تم اس سے بد تر ہو یا میرے نزدیک مقام و منزلت کے لحاظ سے تم بد ترین لوگ ہو_''(3)
اس کے بعد مزید کہا :'' جو کچھ تم کہتے ہو خدا اس کے بارے میں زیادہ جاننے والا ہے ''_(4)
یہ ٹھیک ہے کہ یوسف کے بھائیوں نے ان بحرانى لمحوں میں اپنے آپ کو برى الذمہ ثابت کر نے کے لئے اپنے بھائی یو سف پر ایک نا روا تہمت باندھى تھی_
لیکن پھر بھى اس کا م کے لئے کو ئی بہا نہ اور سند ہو نا چا ہیے جس کى بناء پر وہ یو سف کى طرف ایسى نسبت دیں _
اس سلسلے میں مفسرین کا وش وزحمت میں پڑے ہیں اور گذشتہ لو گوں کى تواریخ سے انہوں نے تین روایات نقل کى ہیں _
پہلى یہ کہ یو سف اپنى ما ں کى وفات کے بعد اپنى پھوپھى کے پاس رہا کرتے تھے اور انہیں یو سف سے بہت زیا دہ پیار تھا جب آپ بڑے ہوگئے اور حضرت یعقوب (ع) نے انہیں ان کى پھوپھى سے واپس لینا چاہا تو ان کى پھوپھى نے ایک منصوبہ بنایا اور وہ یہ کہ کمر بند یا ایک خاص شال جو حضرت اسحاق (ع) کى جانب سے ان کے خاندان میں بطور یاد گار چلى آرہى تھى یو سف کى کمر سے باندھ دى اور دعوى کیا کہ یو سف اسے چھپا لے جانا چا ہتا تھا ایسا انہوں نے اس لئے کیا تا کہ اس کمر بند یا شال کے بدلے یو سف کو اپنے پاس رکھ لیں _
دوسرى روایت یہ ہے کہ حضرت یو سف کے مادرى رشتہ داروں میں سے ایک کے پاس ایک بت تھا جسے یو سف نے اٹھا کر توڑ دیا اور اسے سٹرک پر لاپھینکا لہذا انہوں نے حضرت یوسف پر چورى کا الزام لگا دیا حالا نکہ اس میں تو کوئی گناہ نہیں تھا _
تیسرى روایت یہ ہے کہ کبھى کبھا روہ دستر خوان سے کچھ کھانا لے کر مسکینوں اور حاجت مندوں کو دے دیتے تھے لہذا بہا نہ تراش بھائیوں نے اسے بھى چورى کا الزام دینے کے لئے سند بنا لیا حالانکہ ان میں سے کو ئی چیز گناہ کے زمرے میں نہیں تھا
اگر ایک شخص کسى کو کوئی لباس پہنا دے اور پہننے والا نہ جانتا ہو کہ یہ کسى دوسرے کا مال ہے تو کیا اسے چورى کا الزام دینا صحیح ہے _ اسى طرح کیا کسى بت کو اٹھاکر پٹخ دینا گناہ ہے _ نیز انسان کو ئی چیز اپنے باپ کے دستر خوان سے اٹھا کر مسکینوں کو دے دے جب کہ اسے یقین ہو کہ اس کا باپ اس پر راضى ہے تو کیا اسے گناہ قرار دیا جاسکتا ہے _


(1) سورہ یوسف آیت 77
(2) سورہ یوسف آیت 77

(3) سورہ یوسف آیت 77
(4) سورہ یوسف آیت 77
 

 

برادران یو سف کى فداکا رى کیوں قبول نہ ہوئی اے بنیا مین تم نے ہمیں ذلیل کر دیا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma