یہ نکتہ بھى قا بل تو جہ ہے کہ جس وقت حضرت یو سف کے بھا ئیو ں نے انہیں کنویں میں پھینکا تو ان کا کرتہ اتار لیا اور ان کا بدن برہنہ ہو گیا تو یوسف(ع) نے بہت دادو فریاد کى کہ کم از کم میر ا کرتہ تو مجھے دے دو تا کہ اگر میں زندہ رہو ںتو میرا بدن ڈھا پنے اور اگر مر جائوں تو میرا کفن بن جائے_ بھائی کہنے لگے :اسى سورج ،چاند اور ستاروں سے کہہ جنہیں خواب میں دیکھا تھا، تقاضا کرو کہ اس کنویں میں تیرے مونس وغمخوار ہو ں اور تجھے لباس پہنائیں_
یو سف(ع) کے بھا ئیوں نے جو منصوبہ بنارکھا تھا اس پر انہوں نے اپنى خواہش کے مطا بق عمل کر لیا_ لیکن آخر کار انہیں واپس لوٹنے کے بارے میں سوچنا تھا کہ جا کر کوئی ایسى بات کریں کہ باپ کو یقین آجائے کہ یو سف کسى سازش کے تحت نہیں بلکہ طبیعى طور پر وادى عدم میں چلا گیا ہے اور اس طرح وہ باپ کى نوازشات کو اپنى جانب مو ڑسکیں _