حرام و باطل معاملات .1765_1752

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
توضیح المسائل
سود کھانا حرام ہے۔ 1774_1766 مکروہ معاملات. 1751

مسئلہ ۱۷۵۲: درج ذیل مقامات پر معاملہ باطل ہے:
۱۔۔عین نجس یعنی جو چیزیں ذاتا نجس ہیں بنابر احتیاط واجب ان کی خرید و فروخت حرام ہے جیسے پیشاب، پاخانہ، خون اس لئے نجس کھادکی خرید و فروخت محل اشکال ہے لیکن اس سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
البتہ ہمارے زمانے میں زخمیوں اور بیماروں کے لئے خون سے استفادہ کیا جاتا ہے اس لئے اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔ اسی طرح شکاری اور گھر کی حفاظت کرنے والے کتوں کی خرید و فروخت جائز ہے۔
۲۔ غصبی چیزوں کی خرید و فروخت حرام و باطل ہے۔ البتہ اگر مالک اجازت دیدے تو جائز ہے۔
۳۔ جن چیزوں سے حاصل ہونے والے فائدے عام طور سے حرام ہیں ان کی خرید و فروخت حرام ہے۔ جیسے موسیقی و جوئے کے آلات۔
۴ ایسی چیزوں کی خرید و فروخت جو لوگوں کی نظر میں مالیت نہیں رکھتی حرام ہے، چاہے مخصوص شخص کے لئے اس میں بہت سے فائدہ ہو جیسے بہت سے حشرات الارض
۵ سودی معاملہ بھی حرام ہے
۶ ان ملاوٹ والی اشیاء کا بیچنا جس کے بارے میں خریدار کو کچھ پتہ نہ ہو، جیسے دودھ میں پانی ملاکر یا گھی ہیں چربی یا اور کوئی چیز ملا کر بیچنا۔ اس عمل کو غش کہتے ہیں۔ اور یہ گناہ کبیرہ ہے رسول اکرم سے منقول ہے: جو شخص مسلمانوں سے خرید و فروخت میں ملاوٹ کرے یا ان کو نقصان پہونچائے لے یا ان سے حیلہ و چالبازی کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے برابر مومن سے دھو کہ کرتاہے خدا اس کی روزی سے برکت اٹھا لیتا ہے اور اس کے معاش کے راستے بند کردیتا ہے اور اس کو خود اس کے حوالہ کردیتا ہے۔
مسئلہ ۱۷۵۳: متنجس (وہ پاک چیز جو نجس ہوجائے) کا اگر پاک کرنا ممکن ہو جیسے میوہ ، فرش ، کپڑا و غیرہ تو اس کے بیچنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر خریدار اس کو ایسے کاموں میں استعمال کرنا چاہتا ہے جس میں طہارت شرط ہے جیسے کھانے کے لئے ، نماز کے لئے تو خریدار کو بتانا واجب ہے۔
مسئلہ ۱۷۵۴: اگر تیل جیسی پاک چیز میں نجاست گر جانے کے بعد پاک کرنا ممکن نہ ہو اگر وہ نجس ہوجائے اور اس کا مصرف صرف کھانا ہو تو اس کی خرید و فروخت حرام و باطل ہے لیکن اگر وہ ایسے کاموں میں استعمال ہو تا ہے جس میں طہارت شرط تو اسکی خرید و فروخت جائز ہے۔ جیسے مٹی کا تیل جو نجس ہو۔
مسئلہ ۱۷۵۵: وہ غذا اور دوائیں و غیرہ جو دوسرے ملکوں سے (یعنی غیر اسلامی ملکوں سے) لائی جاتی ہیں اگر ان کا نجس ہونا یقینی نہ ہو توان کی خرید و فروخت جائز ہے جیسے پنیر، دودھ، گھی و غیرہ کے بارے میں احتمال دیتے ہیں کہ مشینوں کے ذریعہ نکا لا جاتاہے
مسئلہ ۱۷۵۶: غیر اسلامی ملکوں سے لائی جانے والی چربی و گوشت یا کافر کے ہاتھ سے خریدے ہوئے چربی یا گوشت کی خرید و فروخت باطل ہے۔ اسی طرح بنا بر احتیاط جانوروں کی کھالیں۔ لیکن اگر معلوم ہو کہ یہ ایسے حیوان کا گوشت یا چربی ہے جس کو شرعی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہے یا مسلمانوں کی نگرانی میں ذبح کیا گیاہے تو خرید و فروخت میں اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۷۵۷: جو گوشت و چربی مسلمانوں کے ہاتھ سے لی جائے اس کی خرید و فروخت جائز ہے لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ مسلمان نے اس کو کافر سے لیاہے یا کافر ملک سے بہ تحقیق کئے بغیر لیاہے کہ حیوان مطابق شرع ذبح کیا گیاہے کہ نہیں؟ تو اس کے خرید و فروخت باطل و حرام ہے (کھاں کا بھی بنابر احتیاط یہی حکم ہے۔) ہاں اگر ایسے مسلمان سے لیاہے جو بظاہر پایبند شرع ہے اور احتمال ہو کاس نے تحقیق کیا ہو گا تو پھر خرید و فروخت صحیح ہے۔
مسئلہ ۱۷۵۸: ہر قسم کے مسکرات (نشہ آور چیزیں) کی خرید و فروخت حرام و باطل ہے۔
مسئلہ ۱۷۵۹: غصبی مال کی خرید و فروخت بھی حرام و باطل ہے۔ اس لئے بیچنے والے کو چاہئے رقم خریدار کو واپس کردے لیکن خریدار کو حق نہیں ہے کہ مال کو مالک کے علاوہ کسی اور کے حوالہ کرے اور اگر اس کے مالک کو نہیں جانتا تو حاکم شرع کے حکم کے مطابق عمل کرے۔
مسئلہ ۱۷۶۰: اگر خریدار کا ارادہ شروع ہی سے ہو کہ مال کی قیمت نہ دی گا تو معاملہ میں اشکال ہے یہی صورت ہے اگر اس کی نیت ہو کہ حرام مال سے قیمت ادا کرے گا لیکن اگر شروع سے قصد نہ ہو مگر حرام مال سے قیمت ادا کرے تو معاملہ صحیح ہے لیکن حرام مال کافی نہ ہوگا اس کو چاہئے کہ دوبارہ حلال مال سے قیمت ادا کرے۔
مسئلہ ۱۷۶۱: آلات لہو و لعب جیسے و ائیلن و غیرہ کی فروخت و خرید حرام ہے۔
چاہے چھوٹے آلات ہی ہوں۔ ہاں اگر مشترک آلات سے ہوں یانچوں کے کھیل کا آلہ ہو اور آلات لہو سے شمار نہ ہو تا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۷۶۲: جس چیز میں جائز منفعت ہو اگر اس کو ایسے شخص کے ہاتھ بھییں جو اس کو یقینی طور سے حرام میں صرف کرے تو معاملہ باطل ہے۔ (مثلا شراب بنانے والے کارخانہ کے ہاتھ انگور کا بیچنا۔)
مسئلہ ۱۷۶۳: مجسمہ کا بنانا اور اس کی خرید و فروخت محل اشکال ہے۔ لیکن ایسی چیزوں کا خرید نا اور فروخت کرنا (جیسے صابن و غیرہ) جس پر مجسمہ کی شکل یا برجستہ نقوش ہے ہوں کوئی اشکال نہیں رکھتا۔
مسئلہ ۱۷۶۴: جو ا، چوری، باطل معاملات کے ذریعہ ہاتھ آئی ہوئی چیزوں کی خرید و فروخت حرام و باطل ہے اس میں اس میں تصرف کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی اس کو خرید بھی لے تو اصلی مالک تک پہونچانا ضروری ہے۔ اور اگر اصلی مالک کو جانتا ہو تو حاکم شرع کے حکم پر عمل کرے۔
مسئلہ ۱۷۶۵: ملاوٹ والی چیز، مثلا چربی ملا ہوا گھی کو اگر معین کرکے بیچے مثلا اس طرح کہے: اس گھی کو بیچتاہوں تو خریدار جب بھی اس بات کی طرف متوجہ ہوجائے معاملہ کو فسخ کرسکتا ہے لیکن اگر معین نہ کیا ہو مثلا اس طرح کہے: ایک کلو گھی بیچتاہوں اور دیتے وقتی چربی ملا ہوا گھی دے تو خریدار اس کو واپس کرکے صحیح جنس لے سکتاہے۔

سود کھانا حرام ہے۔ 1774_1766 مکروہ معاملات. 1751
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma