۲۰. موانع قبول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
دولت کا بهترین مصرف
۲۱. انفاق کی قبولیت کے دوسرے موانعدوسری خوبصورت مثال

<قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَتْبَعُھَا اٴَذیً وَّاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ (سورئہ بقرہ:آیت ۲۶۳)
(حاجت مندوں کے سامنے)نیک کلام اور مغفرت، اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل دکھانے کا سلسلہ بھی ہو۔خدا سب سے بے نیاز اور بڑا بردبارہے۔
وضاحت
گذشتہ آیات کی طرح یہ آیہٴ کریمہ بھی انفاق کرنے والوںکو خبردار کر رہی ہے کہ جو لوگ حاجت مندوں کے سامنے نیک کلامی کرتے ہیں اور ان کے اصرار ، یہاں تک کہ ان سخت کلامی کے باوجود بھی انہیں معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کایہ برتاؤ ان لوگوں کے انفاق سے بہتر ہے جو انفاق کے بعد صاحبان حاجت کو اذیت پہونچاتے ہیں ۔
یہ آیہٴ کریمہ انسانوں کی سماجی حیثیت اور عزت و آبرو کے سلسلہ میں اسلامی اصول کو بیان کر رہی ہے اور جو اس انسانی سرمایہ کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے ہیں اور حاجت مندوں کو نیک کلام اور اچھائی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے راز کو فاش نہیں کرتے ایسے لوگوں کے عمل کو خود خواہ اور کوتاہ نظر افراد کے انفاق سے برتر اور با لاتر قرار دیتی ہے جو ذرا سے انفاق کے بعد با عزت لوگوں کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور ان کی شخصیت اور عزت وآبرو سے کھیلتے ہیں۔ درحقیقت ایسے افراد دوسروں کو نفع سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں اور اگر کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو اس کے بدلے میں اس سے کئی چیزیں لے بھی لیتے ہیں ۔
گذشتہ باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ ”قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ“وسیع اور عام معنی میں ہے اور ہر نیک کلام ،دلداری اوررہنمائی کو شامل ہے۔
مغفرت صاحبان حاجت کی سخت کلامی کو معاف کردینے کے معنی میں ہے جن کا پیمانہٴ صبر سختیوں اور پریشانیوں کے پے در پے حملہ کی وجہ سے لبریزہو جاتا ہے اورکبھی کبھی بغیر قصد و ارادہ کے ان کی زبان پر سخت کلمات جاری ہو جاتے ہےں ۔
ایسے افراد اس طرح اس ظالم سماج سے انتقام لینا چاہتے ہیں جس نے ان کے حق کو ادا نہیں کیا ہے۔ لہٰذا سماج اور مالدار افراد ان کی محرومیت کو کم کرنے کے لئے کم سے کم جو کام انجام دے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کی سخت کلامی کو برداشت کریں اور خوش دلی اور نرمی سے جواب دے کر ان کی زبانیں بند کر دیں۔
بے شک فقراء کی سخت کلامی کو برداشت کرنا اور ان کے برے برتاوٴ کو معاف کر دینا ان کے غضب کو کم کر دے گا۔ یہاں پر اس اسلامی حکم کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور کبھی کبھی ایسے نیک برتاوٴ کی اہمیت انفاق کرنے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
بعض علماء نے اس آیہٴ کریمہ میں کلمہٴ مغفرت کو اس کے اصل معنی (یعنی پوشیدہ کرنا ،چھپا نا )میں لیا ہے اور اس کلمہ کو آبرو مند فقراء اور حاجت مندوں کے اسرار کی پردہ پوشی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ البتہ اس تفسیر اور اوپر بیان کی گئی تفسیر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اس لئے کہ اگر مغفرت کی ایک عمومی معنی میں تفسیر کی جائے تو عفو و بخشش کو بھی شامل ہو جا ئے گا اور فقراء اور حاجت مندوں کے اسرار کو پوشیدہ رکھنے کو بھی۔
تفسیر نور الثقلین میں رسولخدا سے منقول ہے کہ نے آپ نے ارشاد فرمایا:
اذا سئل السائل فلا تقطعوا علیہ مساٴلتہ حتّی یفرغ منھا ثُمَّ ردّوا علیہ بوقارٍ و لینٍ اما ببذل یسیراٴوردّ جمیل فاِنّہ قد یاٴتکم من لّیس باٴنس ولا جان ینظر ونکم صنیعکم فیماخوّلکم اللّٰہ تعالیٰ
اس حدیث نبوی میں آداب انفاق کے ایک گوشہ کی وضاحت کی گئی ہے۔ آنحضرت نے ارشاد فرمایا: جب کوئی حاجت مند تم سے کسی چیز کا سوال کرے تو اس کے کلام کو قطع نہ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری طرح بیان کردے۔اس کے بعدادب اور نرمی سے اس کا جواب دو یا اپنی قدرت بھر کوئی چیز اسے عطا کردو یا شائستہ طریقہ سے اسے واپس کر دو اس لئے کہ ممکن ہے کہ سوال کرنے والا فرشتہ ہو جو تمہارا امتحان لینے کے لئے بھیجا گیا ہے تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم خدا کی دی ہوئی نعمتوں میں کس طرح عمل کرتے ہو۔
وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْم ٌ
چھوٹے چھوٹے جملے جو آیات کے آخر میں آئے ہیں اور خدا کی کچھ صفتوں کو بیان کرتے ہیں ان کے مضمون انھیں آیات سے مربوط ہوتے ہیں ۔اس نکتہ کے پیش نظر جملہ ”وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْم ٌ “ سے مراد یہ ہے کہ چونکہانسانی طبیعت سرکش اور باغی ہے لہٰذا وہ منصب ا ور دولت پانے کے بعد اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگتی ہے اور کبھی کبھی یہ حالت فقراء کے ساتھ بد کلامی کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا پروردگارفرما رہا ہے کہ صرف خدا ہے جو بے نیاز ہے ۔
درحقیقت صرف خدا ہے جو ہر شے سے بے نیاز ہے اور انسان کی بے نیازی سراب سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا مال ودولت، فقراء اورحاجت مندوں کے سامنے غرورو گھمنڈ کا سبب نہ بننے پائے اور اس سے بڑھ کر اگر خدا وندعالم اپنے نا شکرے بندوں کے سا تھ حلیم اور برد بار ہے تو صاحبان ایمان کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔
ممکن ہے کہ مذکورہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ خدا تمہاری بخشش اور انفاق سے بے نیاز ہے اورتم جو کچھ بھی انجام دیتے ہووہ سب تمہارے ہی فائدہ کے لئے ہے۔ لہٰذا کسی پر احسان نہ جتاوٴ ۔اس کے علاوہ وہ تمہارے برے برتاوٴ کی نسبت حلیم اور بردبار ہے اور وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتاتاکہ تم بیدار ہو جاوٴاور اپنی اصلاح کر سکو۔اس پر غور وفکر کیجئے۔

۲۱. انفاق کی قبولیت کے دوسرے موانعدوسری خوبصورت مثال
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma