دوسری خوبصورت مثال

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
دولت کا بهترین مصرف
۲۰. موانع قبول ۱۹. انفاق قبول ہونے کی شرط

ایک سر سبز و شاداب باغ اور کھیت کو نظر میں رکھیں جو بلند اور زرخیز زمین کھلی فضا میں ہوں اوراس پر دھوپ پڑتی ہو اوراس پر بارش کے بڑے بڑے قطرے گریں اوراگر بارش نہ ہو تب بھی کم سے کم شبنم اور ہلکی ہلکی پھوار کے ذریعہ باغ کی لطافت و شادابی ویسے ہی باقی رہتی ہے۔
اس کے نتیجہ میں ایسے کھیت دوسرے کھیتوں کے مقا بلہ میں دو گنا پھل دیتے ہےں اس لئے کہ اس کی زمین بھی زرخیز ہے اورہلکی ہلکی پھوار بھی پھل کو تیار کرنے کے لئے کافی ہیں چہ جائیکہ موسلادھار بارش اس کی وجہ یہ ہے کہ کھیت ایک بلندی پر واقع ہے اور وہ کھلی فضا اور دھوپ سے اچھی طرح بہرہ مند ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ دور سے دیکھنے والوں کی نگاہوں میں ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے اور سیلاب کے خطرے سے بھی محفوظ ہو تا ہے۔
لہٰذا جو لوگ رضائے پروردگار اور روح میں ایمان کے راسخ ہو جانے کی غرض سے انفاق کرتے ہیںوہ اس کھیت کے مانند ہیں جو بابرکت،مفید اورقیمتی ثمر دےتے ہیں۔
یہاں پر چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:
(۱)
”لَاْ تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاٴَ ذیٰ“(اپنے انفاق کو احسان جتانے اوراذیت کے ذریعہ باطل نہ کرو)سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کچھ برے اعمال، نیک اعمال کے اثر کو ختم کر دیتے ہیں اور اسی کو احباط کہا جاتا ہے جس کی وضاحت عقائد کی کتابوں میں آئی ہے
(۲) دکھاوے کے عمل کو ایک سخت و صاف پتھر کے ٹکڑے سے تشبیہ دینا جسے مٹی کی ایک ہلکی سی پرت نے چھپا رکھا ہوایک واضح تشبیہ ہے اس لئے کہ ریاکار انسان اپنے سخت باطن اور بے فائدہ وجود کو خیر خواہی اور احسان کے پردے میں پوشیدہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسے اعمال انجام دیتا ہے جن کی اس کے وجود میں کوئی ثابت جڑ نہیں ہوتی لیکن بہت جلدہی اس کی زندگی کے نشیب و فراز اس کے اوپر پڑے ہوئے پردے کو ہٹا دیتے ہیں اور اس کےباطن کو سب کے سامنے ظاہر کر دیتے ہیں ۔
(۳) جملہٴ”ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثْبِیْتاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ“انفاق کے صحیح اور الٰہی مقاصد کو بیان کر رہا ہے اور وہ دو چیزہے: رضائے پروردگار کی طلب (۲) ایمان کو قوی اور مستحکم بنانا اور روحی سکون و اطمینان حاصل کرنا ۔
یہ جملہ بیان کررہا ہے کہ حقیقی انفاق کرنے والے وہ لوگ ہیں جو پروردگار کی خوشنودی اور اچھے اخلاق کو پروان چڑھانے اور ان صفات کو اپنے اندر مستحکم کرنے اور اسی طرح ان اضطراب اور تکلیفوں کو ختم کرنے کے لئے انفاق کرتے ہیں جو محروموں اور فقیروں کی نسبت احساس ذمہ داری کی وجہ سے ان کے وجدان میں پید اہو تی ہیں لہٰذا آیہٴ کریمہ میں ”مِن“”فی“ کے معنی میں آیاہے۔
(۴) جملہ”وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر“ (تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے ) ہر نیک کام انجام دینے والے کو ٹہوکا دے رہا ہے کہ تمہاری نیت میں یا طرز عمل میں ذرہ برابر بھی ریا کاری کا شائبہ تمہارے نیک عمل کے اجروثواب کو برباد کر سکتا ہے اس لئے کہ خدا مکمل طور سے تمہارے اعمال کانگراں اور دیکھنے والاہے۔

۲۰. موانع قبول ۱۹. انفاق قبول ہونے کی شرط
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma