الف)انفاق اضافہ کا سبب ہے کمی اور نقصان کا نہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
دولت کا بهترین مصرف
(ب) اپنے اموال خدا کے پاس محفوظ کرو ۶. سرمایہ جاودانی

مذکو رہ بالا آیت میں فرمان خدا ہے: ”راہ خدا میںجوکچھ بھی خرچ کروگے خدا وندعالم بہرحال اس کا بدلہ دے گا“یہ ایک بہت ہی معنی دار تعبیر ہے:
۱) کلمہٴ”شیء“ اپنے وسیع اور عام معنی میں ہر قسم کے مادی ،معنوی او رچھو ٹے بڑے انفاق کو شامل ہے اسی طرح ہر ضرورت مند شخص جس پر انفاق کیا جائے سب کو شامل ہے۔
سب سے اہم بات انسان کا اپنے مال کو راہ خدا میں خرچ کرنا ہے کیفیت اور کمیت (مقدار) معیارنہیں ہے۔
۲) پروردگار اپنی راہ میں خرچ ہونے والے مال کو فنا سے نکال کر بقا کا رنگ دینا چاہتا ہے اس لئے کہ اس نے ضمانت لی ہے کہ اپنی کئی گنا اور کبھی ہزار گنا (اور کم ازکم دس گنا)مادی اور معنوی نعمتوں کے ذریعہ اس انفاق کا عوضدے گا ۔
لہٰذا انفاق کرنے والا جب اس جذبہ اور عقیدہ کے تحت راہ خدا میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے تو وہ زیادہ سخاوت کے ساتھ خرچ کرتا ہے ،اور کبھی بھی نقصان ، کمی اور فقر و تنگدستی کی فکر نہیں کرتا بلکہ پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے اسے اپنے ساتھ ایک فائدہ مند تجارت کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔
اوریہ وہی تعبیر ہے جسے پروردگار عالم نے سورئہ صف کی دسویں اور گیارہویں آےت میں بیان فرمایا ہے :
<
یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰ تِجَارَةٍ تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذَاْبٍ اَلِیْمٍ تُوٴْ مِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اے ایمان والو!کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچائے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور راہ خدا میں اپنی جان ومال سے جہاد کرو اگر تم جاننے والے ہوتو یہی تمہارے حق میںسب سے بہتر ہے۔
رسول خداسے منقول ہے کہ آپ نے ارشادفرمایا :
ینادی مناد کل لیلة لدوا للموت!
ینادی منادابنواللخراب !
وینادی منا داللّہمّ ھبّ للمنفق خلفاً!
و ینادی مناد اللّہمّ ہبّ للممسک تلفاً!
وینادی مناد لےت الناس لم یخلقوا!
وینادی مناد لیتہم اذخلقوا فکروافیمالہ خلقوا!
ہر رات ایک آسمانی منادی ندا دیتا ہے (اے انسانوں!) پیدا کرو مرنے کے لئے ۔
دوسرا ندا دیتا ہے:گھر بناؤ ویران ہونے کے لئے۔
ایک منادی ندادیتا ہے :پروردگارا!جو لوگ انفاق کرنے والے ہیں ان کے لئے عوض اور بدلہ قرار دے۔
اور ایک منادی ندا دیتا ہے :پروردگارا!جو لوگ کنجوسی کرتے ہیں ان کے اموال کوضائع کر دے۔
دوسرا ندا دیتا ہے : اے کاش کہ انسان خلق نہ ہوئے ہوتے۔
دوسرا ندا دیتا ہے : اب جبکہ انسان خلق کر دئیے گئے ہیں اے کاش کہ ذرا فکر کرتے کہ کس لئے خلق کئے گئے ہیں ۔
یہ ندا دینے والے فرشتے ہیں جو پروردگار کے حکم سے اس کائنات کے امور کی تدبیر کرتے ہیں۔ایک دوسری حدیث میں آنحضرت ارشاد فرماتے ہیں :من ایقن بالخلف سخت نفسہ بالنّفقة“
جو عوض اور بدلے کا یقین رکھتا ہوگا وہ سخاوت کے ساتھ راہ خدا میں خر چ کرتا ہے ۔
امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہماالسلام نے بھی ایک حدیث میں اسی مطلب کو بیان فرمایا ہے۔
لیکن سب سے اہم مسئلہ انفاق کا حلال اورجائز مال میں سے ہونا ہے اس لئے کہ خدا وند مال حرام سے انفاق کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی اس میں برکت عطا کرتا ہے۔
ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کی: قرآن میں دو ایسی آیتیں ہیں جن کو میں کافی غور وفکر کے بعد بھی نہیں سمجھ پا رہا ہوں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:وہ کون سی آیات ہیں ؟ اس شخص نے عرض کی: پہلی آیت یہ ہے جس میں خدا وندعالم ارشاد فرماتا ہے ”اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ“ ”مجھ سے دعامانگومیں تمہاری دعاؤںکو قبول کروں گا“۔اس آیت کے مطابق میں پروردگار سے دعا کرتا ہوںلیکن میری دعا قبول نہیں ہوتی ۔
امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:کیا تم فکر کر رہے ہو کہ پروردگار نے وعدہ خلافی کی ہے ؟اس نے عرض کی:
ہر گز نہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:پھر کیا وجہ ہے ؟
اس نے کہا :میں نہیں جانتا ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا :لیکن میں تمہیں اس کی وجہ بتاتا ہوں:
”من اطاع اللّٰہ عزوجل فیما اٴمرہ من دعائہ من جھة الدعا ء اجابہ“
خداوند عالم نے دعا کرنے کے سلسلہ میں جس طریقہٴ دعا کا حکم دیا ہے جو شخص بھی اس میں پروردگار کی اطاعت کرے گا وہ اس کی دعا قبول کرے گا ۔
اس نے سوال کیا :وہ طریقہٴ دعا کیا ہے؟
آپ  نے فرمایا: سب سے پہلے خدا کی حمد وثنا کرو اور اس کی نعمتوں کو یاد کرو اور اس کا شکر ادا کروپھر صلوات پڑھو،اس کے بعد اپنے گناہوں کو یاد کرو،اور بارگاہ الٰہی میں ان کا اعتراف کرو اور خدا سے پناہ طلب کرو ، گناہوں سے توبہ کرو، یہ ہے طریقہٴ دعا۔
اس کے بعد آپ - نے فرمایا :دوسری آیت کون سی ہے ؟
اس نے عرض کی: یہ آیہٴ کریمہ ہے:”وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہ“
میںراہ خدامیں خرچ کرتا ہوں لیکن کوئی ایسی چیز جو اس کابدلہ ہو مجھے نظر نہیں آتی ۔
امام علیہ السلام نے فرمایاکیا تم خیال کر رہے ہو کہ خدا نے اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے ؟
اس نے کہا: نہیں ہر گز نہیں۔
آپ -نے فرمایا: پھر ایسا کیوں ہے؟
اس نے عرض کی: مجھے علم نہیں۔
آپ- نے فرمایا :لوان احد کم اکتسب المال من حلّہ وانفقہ فی حلّہ لم ینفق درہماً اِلّااخلف علیہ
تم میں سے جو شخص بھی مال حلال حاصل کرے اور راہ خدا میں حلال طریقہ سے خرچ کرے تو وہ ایک درہم بھی انفاق نہیں کرے گا مگر یہ کہ پروردگار اس کا عوض اسے ضرور عطا کرے گا۔

 

(ب) اپنے اموال خدا کے پاس محفوظ کرو ۶. سرمایہ جاودانی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma