کیا خالق کابھی کوئی خالق ہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
شفاعت کوئی پارٹی بازی نہیں ہے فضیلت ایه الکرسی

مادہ پرستوں کا مشہور اعتراض ہے کہ سب چیزوں کو تو خاد نے پیدا کیا ہے پھر خدا کو کس نے پیدا کیا ہے مندرجہ بالا بحث سے یہ مسئلہ خود بخود ہل ہو جاتا ہے کیونکہ اس بے بنیاد اعتراض کی بنیاد یہ بے بنیاد مفروضہ ہے کہ ہر کہ ہر موجود ایک پیدا کرنے والے کا محتاج ہے حالانکہ مسلماً یہ کوئی کلیہ قاعدہ نہیں ہے کیونکہ وہ موجودات جو پیدا کرنے والے کے محتاج ہیں وہ ایسے ہیں کہ جنکے وجود کا سر چشمہ انکی ذات سے خارج ہو اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ جن کی حیات اور وجود انکی ذات کا جزء نہیں یعنی جو ممکن الوجود ہیں لیکن وہ وجود جسکی ہستی اسکی ذات سے ہے یا بہتر الفاظ میں جس کی ہستی اسکا عین وجود ہے ایسی ذات کو ہیدا کرنےوالے کی کوئی احتیاج نہیں اسے کوئی حیات دینے والا نہیں وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا اسکی ذات کے لئے موت کا کوئی تصور ہی نہیں کہ کہا جا سکتا کہ وہ پیدا کرنے والے کی محتاج ہے  گویا وہ واجب الوجود ہے
آسان تر عبارت میں کہا جا سکتا ہے کہ جو حقیقت بھی اس جہان میں وجود رکھتی ہے آخر کار اسکا کوئی منبع اور سر چشمہ ہے مثلاً اگر سوال کیا جاے کہ یہ کمرہ کیوں روشن ہے ،ہم جواب دیں گے کہ نور نے اسے روشن کیا ہے اب اگر یہ سوال ہو کہ نور کیوں روشن ہے تو ہم کہیں گے کہ نور کے لئے یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کیوں روشن کیونکہ یہ تو اسکی خاصیت ہے
یہی بات موجودات عالم کی ہستی کے بارے میں بعینہثابت ہے  انسان سبزہ زار اور تمام جہان خلقت وجود میں آے ٴ ہیں ہم کہیں گے کہ ان سب کو خدا نے پیدا کیا ہے اور انکی حیات خداکی طرف سے ہے لیکن اگر یہ سوال ہو کہ خدا نے کس طرح وجود پایا ہے تو ہم کہیںگے کہ ہستی اسکی عین ذات ہے اور وہ جہان ہستی کا سر چشمہ ہے (۱)
القیوم
”قیوم “مبالغہ کا صیغہ ہے اسکا مادہ ”قیام“ہے اسی بناء پر اسکا معنی ہے وہ وجود جسکا قیام اپنی ذات کے ساتھ ہے اور تمام موجودات کا قیام اسکے ساتھ دوسرے لفظوں میں عالم ہستی کے تمام موجودات اسی کے بھروسے اور سہارے پر قائم ہیں
واضح ہے کہ قیام کا معنی کھڑا ہونا  روز مرّہ میں یہ لفظ اسی مخسوص ہیئت و کیفیت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس معنی کا خدا کے لئے کوئی مفہوم نہیں کیونکہ وہ جسم اور صفات جسمانی سے منزہ ہے اسا لئے اس سے مراد تخلیق ، تدبیر اور نگہداری کے لئے قیام کرنا ہے  صرف وہی ذات ہے جس نے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے اور اسی نے انکی نگہداری و تربیت اپنے ذمہ لے رکھی ہے وہ کبھی اس کی انجام دہی میں غفلت نہیں کرتا اور وہ ہمیشہ سے بغیر کسی وقفے کے ان امور کو انجام دینے کے لئے قیام کئے ہو ےٴ ہے
اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ قیوم حقیقت میں تمام صفات ِفعل کی بنیاد ہے صفات فعل سے مراد وہ صفات ہیں جو کسی موجود سے خدا کے ارتباط کو بیان کرتی ہیں ، مثلاً پیدا کرنے والا ،روزی دینے والا زندہ کرنے والا ہدایت کرنے والا وغیرہ
موجودات عالم کی خلقت و تدبیر کے لئے قیام کرنے میں یہ تمام امور شامل ہیں  وہی جو روزی دیتا ہے جو زندہ کرتا ہے وہی ہے جو مارتا ہے وہی ہے جو ہدایت کرتا ہے اس لئے خالق، رازق اور محی وغیرہ صفات سب قیوم میں جمع ہیں
لا تاخذہ سنة ولا نوم
سنة “ مخصوص سستی ہے جو نیند کیابتداء میں عارض ہوتی ہےدوسرے لفظوں میں اونگھ یا نیند کے جھونکے کو سنة کہتے ہیں
نوم “کا معنی ہے نیند یعنی وہ حالت جب انسان کے کچھ حواس ظبیعی عوامل کے ذریعے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں
لا تاخذہ سنة ولا نوم در اصل خدا کے قیوم ہونے کی تاکید کرتا ہے کیونکہ عالم ہستی کے لئے کامل و مطلق قیام کا تقاضا ہے کہ اک لمحہ بھر کی غفلت نہ ہو یعنی حکو مت مطلقہ اور عالم ہستی کے کے امور کی تدبیر کے لئے خدا تعالیٰ لمحہ بھر کی غفلت نہیں کرتا لہٰذا ہر وہ چیز جو خدا کی اصل ”قیومیت “کے ساتھ سازگار و مناسب نہیں اسکی خود بخود اللہ کی بارگاہ سے نفی ہو جاتی ہے
یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اونگھ کا ذکر آیت میں نیند سے پہلے کیوں ہے جبکہ قوی چیز کا ذکر پہلے ہونا چاہئے تھا پھر ضعیف کا اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ فطری ترتیب ہے پہلے اونگھ کی حالت پیدا ہوتی ہے اس کے بعد گہری نیند کا مرحلہ آتا ہے
یہ جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کا فیض اور لطف دائمی ہے اور یہ اک لمحہ کے لئے بھی اسکے وجود سے منقطع نہیں ہوتا وہ بندوں کی طرح نہیں ہے کہ نیند یا دیگر عوامل کے زیر اثر دوسروں سے غافل ہو جاےٴ
لا تاخذہ “(یعنی اسے نہیں پکڑ سکتی ) یہ بھی ایک جاذب نظر اور مو ثر تعبیر ہے اس سے انسان پر نیند کے تسلط کی کیفیت مجسم ہو کر سامنے آجاتی ہےگویا نیند ایک طاقتور پنجے کی مانند ہے جو انسان کو مضبوطی سے جکڑ لیتا ہے اور اسیر کر لیتا ہے  بیداری کے بر عکس نیند کے عالم میں قوی ترین انسانوں کی جو حالت ہوتی ہے اس احساس کیا جا سکتا ہے 
خدا کی مالکیت مطلقہ
لہ مافی السمٰوات وما فی الارض “
آسمانوں ، زمینوں اور جو کچھ ان میں ہے اس کی ملکیت کے بغیر امور عالم کی تدبیرلئے قیام ممکن نہیں اس لئے خدا کی قیومیت کا ذکر کرنے بعد اس حقیقت کی تصریح کی گئی ہے کہ تمام عالم اس کا ملک خاص ہے عالم ہستی میں جو بھی تصرف ہو اسی کی طرف سے ہے
اس بناء پر کچھ انسان کے اختیار میں ہے اور جن چیزوں سے وہ استفادہ کرتا ہے وہ اسکی حقیقی ملکیت نہیں ہے انسان ان چیزوں سے مالک حقیقی کی معین کردہ شرائط کے تحط ایک محدود کے لئے حق تصرف رکھتا ہے اس وجہ سے عوام مالک کی ذمہ داری ہے کہ مالک حقیقی کی طرف سے جو شرائط معین ہوے ہیں ان کا پورا لحاظ رکھے اگر ایسا نہ کرے تو اس کی ملکیت باطل ہو جاتی ہے اور تصرف جائز نہیں رہتا ملک خدا میں تصرفات کی شرائط وہی ہین جو قوانین اسلامی کے ذریعے لوگوں تک پہنچی ہیں
بناء کہے واضح ہے کہ اس مفہوم کی طرف توجہ کرنا حقیقت میں ایک اہم تربیتی عامل ہے کیو نکہ اگر انسان میں یہ عقیدہ پیدا ہو جاے ٴ کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ در اصل اسکا نہیں ہے بلکہ چند روز کے لئے اسے عاریتاً ملا ہے تو حقیقتاً یہ عقیدہ اسے دوسروں کے حقوق میں تجاوز استشمار ذخیرہ اندوزی ، حرص ،طمع اور بخل سے باز رکھے گا کیونکہ ممکن ہے شدید دنیا پرستی کی وجہ سے یہچیزیں انسان میں پیدا ہو جائیں یہ عقیدہ انسان کی یہ تربیت کرتا ہے کہ وہ اپنے شرعی حقوق پر راضی رہے
من ذاالذی یشفع عندہ الا بازنہ “
اصطلاحی طور پر یہ جملہ استفہام انکاری ہے یعنی کوئی شخص بھی خدا کے حکم کے بغیر اس کی بار گاہ میں سفارش و شفاعت نہیں کر سکتا یہ جملہ در حقیقت تمام موجودات عالم ہستی پر خدا کی قیومیت اور مالکیت مطلقہ کے مفہوم کی تکمیل کرتا ہے یعنی اگر کچھ لوگ بارگاہ الٰہی میں شفاعت کرتے نظر آتے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل نہیں
کہ وہ کسی چیز کے مالک ہیں اور وہ تاثیر میں استقلال رکھتے ہیں بلکہ یہ مقام شفاعت بھی انہیں خدا نے عطا کیا ہے ان کی شفاعت کیونکہ حکمخدا سے ہے اس لئے یہ خود خدا کی قیومیت اور مالکیت پر ایک دلیل ہے


 

(۱)مزید وضاحت کے لئے کتاب جستجوے ٴ خدا کی طرف رجوع فرمائیں

 

 

شفاعت کوئی پارٹی بازی نہیں ہے فضیلت ایه الکرسی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma