کیا مختلف مذاہب اختلاف کا سبب ہیں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
اس ٓیت میں مسلمانوں کی ذمہ داریوں کا بیان ہے پیغمبران خدا کی عظمت اور بلند مقام کی طرف اشارہ ہے

بعض مغربی مصنفین ادیان و مذاہب پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انسانوں میں تفرقہ اور نفاق کا باعث ہیں اور مذاہب کی راہ میں بہت زیادہ انسانی خون بہایا گیا ہے تاریخ میں بہت سی مذہبی جنگوں کے تزکرہ موجود ہیں
اس کے ذریعے وہ مذاہب کی مذمت کرنا چاہتے ہیں اور اسے جنگ و جدال کا موجب قرار دیتے ہیں اسکے مقابلہ مین یہ امور قابل توجہ ہیں
اولاً  ۔جیسا کہ مندرجہ بالا آیت نشاندہی کتی ہے کہ حقیقت میں سچّے پیرو کاروں اور حقیقی مذاہب کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا بلکہ اختلاف تو پیروان مذہب اور مخالفین مذہب کے درمیان تھا اور یہ جو مختلف مذاہب کے پیرو کاروں میں جنگ و جدال دکھائی دیتا ہے وہ انکی مذہبی تعلیمات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اسکی وجہ مذاہب میں تحریف ،ناروا تعصبات اور آسمانی مذاہب میں خرافات کی آمیزش ہے
ثانیاً۔ آج جبکہ بیشتر انسانی معاشروں میں سے مذہب (یا کم از کم اسکی تاثیر ) ختم ہو چکی ہے تو پھر جنگوں میں وحشت ناک ترین صورت میں وسعت کیوں آگئی ہے آج یہ وحشتناک جنگیں دنیا کے وسیع علاقوں میں جاری و ساری ہیں کیا اسکا الزانم بھی مذہب کو دیا جاے ٴ گاپھر یہ تسلیم کر لیا جاے گا کہ انسانوں کا ایکگروہ سرکش نفس ان جنگوں کا حقیقی سر چشمہ ہے  ہاں البتہ یہ لوگکبھی مذہب کا بھیس بدل لیتے ہیں کبھی سیاسی و اقتصادی کمکاتب کا لباس پہن لیتے ہیں اور کبھی کسی اور سانچے میں ڈھل کر سامنے آجاتے ہیں اس لئے قسور مذہب کا نہیں ہے یہ سر کش لوگ ہیں جو اصل مجرم ہیں جو حیلے بہانوں سے جنگون کی آگ بھڑکاتے رہتے ہیں
ثالثاً۔ آسمانی مذاہب بالخصوص اسلام نسل پرستی اور قوم پرستی کے مخالف ہیں اس لیے انہوں نے بہت سی نسلی ،جغرافیائی اور قبائلی سرحدوں کو ختم کر دیا ہے اور جن جنگوں کا سر چشمہ یہ امور تھے وہ فطرتاً ختم ہو گئی ہیں یوں جنگوں کا ایک حصہ انسانی زندگی کے مذہب کے زیر اثر آنے کے باعث تاریخ سے حذف ہو گیا ہے علاوہ ازیں صلھ سلامتی ،اچھے اخلاق و اوصاف تمام ٓاسمانی مذا ہب کی توجہ کا مرکز ہیں اور مختلف قوموں میں دشمنیوں اور نفرتوں کو کم کرنے میں میں مذاہب کی اس تعلیم نے گہرا اثر مرتب کیا ہے رابعاً۔مذاہب اسٓسمانی کا ایک ہیغام محروم اور ستم رسیدہ طبقات کی آزادی تھا اسلئے انبیاء اور انکے پیرو کاروں نے جو جنگیں ستمگروں ،ظالموں ، نمرودوں ،اور فرعونوں سے لڑیں وہ در اصل انسانوں کی وٴزادی کے لئے جہاد کا مرتبہ رکھتی ہیں اور یہ مزاہب کے لئے کسی عیب یا نقص کا موجب نہیں بلکہ انکی قوّت و طاقت کا نقطہ ہے ایک طرف مشرکین عرب اور مکہ کے سود خواروں اور دوسری طرف کسریٰ و قیصر سے پیغمبر اکرم کی جنگ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی
۲۵۴۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناکُمْ مِنْ قَبْلِ اٴَنْ یَاٴْتِیَ یَوْمٌ لا بَیْعٌ فیہِ وَ لا خُلَّةٌ وَ لا شَفاعَةٌ وَ الْکافِرُونَ ہُمُ الظَّالِمُون
ترجمہَ
۲۵۴۔اے ایمان والو!جو کچھ ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن ااے ٴ جس میں نہ خرید و فروخت ہو سکتی ہے (کہ تم اپنے لئے سعادت اور سزا سے نجات خرید سکو)اور نہ دوستی (اور عام رفاقتیں وہاں سود بخش ہونگی )اور نہ ہی شفاعت ( کیونکہ تم شفاعت کے لائق نہ ہونگے )اور کافر تو ظالم ہیں ( وہ اپنے اوپر بھی ظلم کرتے ہیں اور معاشرہ پر بھی )

 

اس ٓیت میں مسلمانوں کی ذمہ داریوں کا بیان ہے پیغمبران خدا کی عظمت اور بلند مقام کی طرف اشارہ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma