تابوت کیا ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
پیغمبران خدا کی عظمت اور بلند مقام کی طرف اشارہ ہے قیادت کی شرایط

تابوت کے لغوی معنیٰ ہے وہ صندوق جسے لکڑی سے بنایا جاے ٴ جنازہ کے صندوق کو بھی اسی لیے تابوت کہتے ہیں لیکن تابو ت مردوں سے مخصوص نہیں بلکہ ہر قسم کے لکڑی کے صندوق کے لیے مستعمل ہے
بنی اسراییٴل کا تابوت یا صندوق عہد کیا تھا وہ کس کے ہاتھ سے بنا تھا اور اس میں کیا چیز یں موجود تھیں اسن سلسلے میں ہماری روایات و تفاسیر میں اس طرح عہد قدیم (تورات) میں بہت کچھ کہا گیا ہے سب سے زیادہ واضح چیز جو احادیث اہل بیت اور بعض مفسّرین مثلاً ابن عباس سے منقول یہ ہے کہ یہ تابوت وہی صندوق تھا جس میں ھضرت موسیٰ کی والدہ نے انہیں لپٹا کر دریا میں پھینکا تھا فرعون کے کارندوں نے اسے دریا میں سے پکڑ لیا حضرت موسی ٰ کو اس میں سے نکال لیا گیا اور صندوق جوں کا توں فرعون کے پاس محفوظ کر لیا گیا بعد ازاں وہ بنی اسرائیل کے ہاتھ آیا تو وہ اس عجیب صندوق کو محترم شمار کرنے لگے اور اسے متبرّک سمجھنے لگے
حضرت موسیٰ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ الواح مقدسہ جن پر احکام خدا لکھے ہو ے ٴ تھے اس میں رکھ دیں نیز اپنی زرہ اور دوسری یاد گار چیزوں کو بھی اس میں اضافہ کر دیا صندوق آپ نے اپنے وصی یوشع بن نون کے سپرد کر دیا یو ں صندوق کی اہمیت بنی اسراییٴل کی نگاہ میں اور بڑھ گیی ٴ لہٰذا وہ دشمنوں سے جنگ میں اسے اپنے ہمراہ لے جاتے اور اسکا ن پر نفسیاتی طور پربہت اثر ہوتا اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب تک وہ دل انگیز صندوق ان مقدس چیزوں کے سمیت انکے ساتھ رہا وہ سر بلند رہے اور آبرومندانہ زندگی بسر کرتے رہے لیکن رفتہ رفتہ انکی دینی بنیادیں کمزور پڑ گیی اور دشمن ان پر غلبہ حاصل کرتے رہے وہ صندوق بھی ان سے چھن گیا
ان آیات کے مطابق حضرت اشموییٴل نے وعدہ کیا عنقریب وہ صندوق عہد ان کے قول کی سچایی ٴ کا مظہر بن کر واپس آ جاے ٴگا
فیہ سکینة من ربکم و بقیّة مما ترک اٰل موسیٰ و اٰل ہٰرون
اس جملہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جیسا ک ہم کہہ چکے ہیں صندوق عہد وہ ایسے تبرّکات تھے جو حوادث کے موقع پر بنی اسراییٴل کے لیے اطمینان بخش تھے اور معنوی اور نفسایتی اثرات کے حامل تھے دوسری بات یہ ہے کہ بعد ازاں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے خاندان کی کچھ یادگاریں بھی اس میں رکھ دی گیی ٴ تھیں
توجہ رہے کہ سکینہ سکون کے مادہ سے ہے اور تسکین و آرام کے معنی میں مستعمل ہے یہاں اس سے مراد جان و دل کا سکون اور اطمینان ہے
حضرت اشموئیل نے بنی اسراییٴل کو یہ بات دل نشین کرایی ٴ کہ صندوق عہد دوبارہ انہیں مل جاے ٴگا اور جو سکیو اور اطمینان وہ کھو بیٹھے ہیں دوبارہ حاصل کر لیں گے معنوی و تاریخی کے حامل اس صندوق کی اہمیت در اصل بنی اسراییٴل کے لیے ایک پرچم اور شعار سے بڑھ کر تھی اسے دیکھ کر ان کی نظروں میں اپنی عظمت رفتہ کی یاد تازہ ہو جاتی تھی حضرت اشموییٴل نے خبر دی کہ وہ صندوق لوٹ آے ٴگا  فطری امر یہ کہ یہ بنی اسراییٴل کے لیے بہت بڑی بشارت تھی
تحملہ الملایٴکة فرشتوں نے اسے اٹھا رکھا ہوگا
فرشتے صندوق عہد کیسے لا ے ٴ ؟اس سلسلے میں مفسرین نے مختلف باتیں کی ہیں ان میں سے زیادہ واضح تواریخ کے حوالے سے یہ ہے کہ جب صندوق عہد فلسطینیو ں کے بت پرستوں کے ہاتھ لگا اور وہ اسے اپنے بت خانے میں لے گیے ٴ اسکے بعد وہ بہت سی مصیبتوں اور ابتلاؤں کا شکار ہو گیے ٴ تو ان میں سے بعض کہنے لگے کہ یئہ سب کچھ صندوق عہد کے آچار میں سے ہے لہٰذا انہوں نے طے کر لیا کہ اسے اپنے شہر اور علاقہ سے باہر بھیج دیں گے کویی ٴ شخص اسے باہر لے جانے کو تیار نہ ہوا مجبوراً دو بیل جوتے گیے ٴ اورصندوق عہد کو باند ھ کر بیابان میں چھوڑ دیا گیا اتفاق سے یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب طالوت کو بنی اسرائیل کا فرمانروا بنایا گیا
خدا کے فرشتو کو حکم دیا گیا کہ وہ ان بیلوں کو اشموئیل کے شہر کی طرف ہانک کر لے جاییٴں بنی اسرائیل نے صندوق عہد کو دیکھا تو تو اسے طالوت کے خدا کی طرف سے ماٴمور ہونے کی نشانی کے طور پر قبول کر لیا اس لیے ظاہراً تو دو بیل اسے شہر میں لاے ٴ لیکن در حقیقت یہ کام خدا کے فرشتوں کی وجہ سے انجام پزیر ہوا اسی وجہ سے صندوق اٹھا لانے کی نسبت فرشتوں کی طرف دی گیی ٴ ہے اصلی طور پر فرشتہ اور ملک قرآن حکیم اور روایات میں ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے اس مفہوم میں روحانی عقل رکھنے والے موجودات کے علاوہ اس جہان کی مخفی قوتوںکا ایک سلسہ بھی شامل ہے
ان فی ذالک لا ٰیةلکم ان کنتم موٴمنین
آیت کے آخر میں بنی اسراییٴل کو یاد دہانی کرایی ٴ گیی ٴ ہے کہ صندوق عہد کی تمہارے پاس واپسی تمہارے لیے ایک واضح نشانی ہے بشرطیکہ تم ایمان دار بنو  حقیقت میں یہ جملہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس روشنی اور نشانی کہ باوجود تم میں ایسے افراد موجود ہیں جو حق کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے اس واقعے کے آخر میں یہ حقیقت واضح ہو جاے ٴگی 
۔فَلَمَّا فَصَلَ طالُوتُ بِالْجُنُودِ قالَ إِنَّ اللَّہَ مُبْتَلیکُمْ بِنَہَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّی وَ مَنْ لَمْ یَطْعَمْہُ فَإِنَّہُ مِنِّی إِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِیَدِہِ فَشَرِبُوا مِنْہُ إِلاَّ قَلیلاً مِنْہُمْ
فسل کا معنی ہے علیٰحدہ ہونا اور قطع ہونا ،جنود جند کی جمع ہے جند در اصل ایسی زمین کو کہتے ہیں جو بڑے بڑے پتھروں سے بھری ہو تاہم ہر ٹکرانے والی اور آنکھوں میں کھبنے والی چیز کے لیے بھی یہ لفظ مستعمل ہے اسی لیے عموماً لشکر کی کثیر تعداد کو جند کہتے ہیں  یہ بات وضاحت کی محتاج نہیں کہ ہر گروہ کی کامیابی رہبراور کمانڈر کے حکم کے مطابق فوج کے نظم و ضبط اور ایمان کی مرہون منّت ہے ۔
اگر فوج اپنے کمانڈر کی قابلیت اور حکم پر ایمان رکھتے ہوں تو اپنی ذمہ داری کی ادایٴگی میں کوتاہی نہیں کرتے طالوت جو بنی اسرائیل کو جہاد کے لیے لے جا رہے تھے ان کے لیے یہ جاننا ضروری تھا کہ انکے اہل لشکر انکے حکم کی کتنی اطاعت کرتے ہیں خصوصاً جبکہ یہ وہ لشکر تھا جس نے تردد اور بد دلی سے انکی قیادت قبول کی تھی اگر چہ وہ ظاہراً انکی رہبری کو تسلیم کر چکے تھے لیکن اس بات کا مکان تھا کہ وہ فطرتاً ابھی شک و تردد کے عالم میں ہوں لہٰذا فرمان الٰہی کے ذریعے انہیں حکم دیا گیا کہ انہیں آزمائیں اس پر طالوت نے خبر دی کہ بہت جلد ایک نہر آے گی ساتھ ہی ان سے کہہ دیا کہ وہ پیاس کا مقابلہ کریں اور تھوڑا سا پانی پییٴں تاکہ واضح ہو جاے ٴ کہ دشمن کی شمشیر آتش بار کے مقابلے میں جانے والا لشکر پیاس کو برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہے یا نہیں اس واقعے کی تفصیل مین یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ اکثریت اس آزمائیش کی کٹھالی سے صحیح سالم نہ نکل سکی
اس طرح طالوت کا لشکر تطہیر کے دوسرے عمل سے گزرا پہلی تطہیر وہ تھی جب انہوں نے عام لوگوں کی تیاری کے وقت کہا تھا کہ جو لوگ دل جمعی سے ساتھ نہ دے سکیں اور تکمیل مقصد تک قایٴم نہ رہ سکیں وہ میرے ساتھ نہ آئیں
فلما جاوزہ ھو والذین آمنو معہ قالو لا طاقة لنا الیوم بجالوت وجنودہ
یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ وہ تھوڑے سے لوگ جو پیاس کی آزمائیش پر پورے اترے وہی طالوت کے ساتھ گئے لیکن جب اس طھوٹے سے گروہ نے غور کیا کہ جلد ہی انکا دشمن کے عظیم اور طاقتور لشکر سے سامنا ہوگا تو اپنی تعداد کی کمی پر وہ بہت پریشان ہو ے ٴ یہ وہ وقت تھا جب آزمائیش کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا
”قال الذین یظنون انّہم ملاقو اللہ کم من فئة قلیلةغلبت فئة کثیرة
” فئة“ کا مادّہ ہے ” فئی “اسکا معنی ہے بازگشت گروہ اور تشکیل شدہ جماعت کو بھی فئة کہتے ہیں کیو نکہ وہ ایک دوسرے کی طرف پلٹ آتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں
آیت کہتی ہے کہ اس وقت قیامت پرراسخ ایمان رکھنے والےباقی ساتھیوں کو بیدار اور تنبیہ کرنے لگے کہ کسی جمعیت مقدار اور تعداد پر نگاپ نہیں کرنی چاہئے بلکہ کیفیت اور جذبہ کو دیکھنا چاہئے کیونکہ بہت دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک کم تعداد مگر با ایمان اور عزم صمیم کھنے والی جمعیت نے حکم خدا سے اپنے سے کہیں بڑی تعداد پر غلبہ پا لیا
توجہ رہے کہ ” یظنون “اس مقام پر ”یعلمون “کے معنی میں ہے یعنی جو قیامت پر یقین رکھتے ہیں نہ کہ قیامت کا گمان رکھتے ہیں کیونکہ ظن بہت سے مقامات پر یقین کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اگر اسے گمان کے معنیٰ میں بھی لیا جاے ٴ تب بھی غیر مناسب نہیں ہے کیونکہ پھر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ قیامت کا گمان (چہ جائیکہ علم و یقین ) بھی کافی ہے کہ وہ انسان کو مقاصد الٰہی کے سامنے راسخ العزم بنا دے کیونکہ زندگی میں کامیابی کا گمان رکھنے والے تمام لوگ مثلاً زراعت ،تجارت، صنعت اور سیاست سے وابستہ لوگ صرف گمان کی بنیاد پر اپنا کام پختہ ارادہ سے انجام دیتے ہیں
قیامت کے دن بقاے ٴ پروردگار کا دن کیوں کہا گیا ہے اس سلسلے میں تفسیر نمونہ کی جلد اول اردو ترجمہ کے صفحہ ۱۷۹پر گفتگو کی جا چکی ہے باذن اللہ یعنی حکم خدا سے
عزم صمیم رکھنے والے ایمان دار لوگوںکی بہت سے بے ایمان گروہوں اور جماعتوں پر کامیابی ایک مسلمہ امر ہے جو روحانی اور نفسیاتی عوامل سے مربوط ہے پھر بھی قرآن اسے فرمان الٰہی سے منسلک قرار دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عالم میں کسی بھی طرح کے آثار و نتائیج ہوں سب آفرینش پروردگار کی برکت سے اس کی طرف سے اور اسکے حسب فرمان ہیں ایسی ہی تعبیر قرآن میں بہت سے مواقع پر نظر آتی ہے
”واللہ مع الصابرین “
یہ جملہ عزم صمیم رکھنے والے اہل ایمان کی طرف سے دوسروں کو صبر واستقامت کی دعوت کا حرف آخر ہے
یہ اہل ایمان انہیں دعوت دیتے تھے کہ خدا اہل صبر و استقامت کے ساتھ ہے
”و لمابرزوالجالوت و جنودہ“
”برزو “کا معنی ہے ظہور یہی وجہ ہے کہ اگرکوئی آمادہٴ جنگ ہو اور میدان جنگ میں نکل آے ٴ تو اسکے عمل کو” براز“کہتے ہیں اور جب کوئی دوسرے کو جنگ کی دعوت دے تو کہتے ہیں کہ وہ مبارزہ طلبی کر رہا ہے
یہ آیت کہتی کہ جب طالوت اور انکا لشکر ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں جالوتے کا طاقتور لشکر نمایاں طور پر نظر آرہا تھا تو وہ اس عظیم قوّت کے سامنے صف بستہ ہو گئے انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا ئے اپنے تئےںپروردگا کی لا متناہی قدرت کے سپرد کر دیا اور اس سے استق امت اور صبر کا تقاضا کیا
”ربّنا افرغ علینا صبراً“
”افراغ“کا مطلب ہے کسی سیال مادے کو برتن سے ایسے گرانا کہ برتن خالی ہو جاے ٴ ،حضرت طالوت کے ہمراہی دعا کے وقت کہتے ہیں کہ خدا وندا ہم پر صبر استقامت انڈیل دے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا سے صبر ،استقامت اور پا مردی کا ٓخری درجہ طلب کر رہے ہیں جیسے کسی برتن کا سارا پانی کسی پر ڈال دیا جاے ٴ اوقر برتن خالی ہو جاے ٴ
”ثبت اقدامنا “
یعنی ہمیں ثابت قدم رکھ تاکہ ہمارے قدم اکھڑ نہ جائیں اور میدان سے بھاگ کھڑے نہ ہوں حقیقت میں پہلی دعا باطنی پہلو کی حامل ہے اور یہ دعا ظاہری پہلو رکھتی ہے اور یہ مسلّم ہے کہ ثابت قدمی صبر و استقامت کی روح کا نتیجہ ہے
”وانصرناعلیٰ القوم الکافرین “
در اصل یہ جملہ استقامت اور ثبات قدمی کا نتیجہ ہے جو گذشتہ دو جملوںمیں بیان ہو چکی ہے یعنی خدا وندا استقامت اور ثبات قدمی کے زیر سایہ ہمیںکفار پر فتح عطا فرما
”فھزموہم باذن اللہ و قتل داو ٴد جالوت “
اس آیت مین طالوت کی رہبری اور کمان میں بنی اسرائیل کی جالوت جیسے ظالم اور اسکے طاقتور لشکر سے جنگ کے آخری مرحلے کو بیان کیا گیا ہے جالوت کا لشکر آکر کار شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا خود جالوت بھی حضرت طالوت کے لشکر کے ایک شخص داو ٴد کے ہاتھوں قتل ہو گیا  داو ٴ د کے ہاتھوں جالوت کے قتل کی تفصیلات گذشتہ اوراق میں بیان کی جا چکی ہے
زیر نظر آیت میںیہ صراحت موجود نہیں ہے کہ یہ داوٴد وہی پیغمبر ہیں جو حضرت سلیمان کے والدِ گرامی ہیں یا کوئی اور شخص ہے لیکن اس آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مقام نبوّت کے حامل ہوئے آیت کا اگلا حصہ یہ ہے
”واٰتٰہ اللہ الملک والحکمة و علّمہ مما یشاء“
یعنی خدا نے اسے حکومت اور علم عطا کیا اور جو کچھ وہ چاہتا تھا اسے سکھاےا
ایسی تعبیر عام طور سے انبیاء کے متعلق ہی ہوتی ہے
سورہٴ آیہ ۲۰ میں حضرت داوٴد پیغمبر کے بارے میں ہے
”و شددنا ملکہ و اٰتیناہ الحکمة“
اور ہم نے اس کی حکومت کو مظبوط کردیا اور علم و دانش عطا کیا
اس آیت کے ذیل میں جو احادیث منقول ہیں ان سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ وہی مشہور پیغمبر حضرت داوٴد  تھے
ضمناً”علمہ مما یشاء “ (جو علوم خدا چاہتا تھا اسے سکھاے ٴ )سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء و مرسلین کے علوم اور حکمتیں اس محدود مقدار کی حامل ہوتی ہیں جس کا خدا ارادہ کرتا ہے اگرچہ انکے علم و دانش کا دائیرہ بہت ہی وسیع ہوتا ہے پھر بھی وہ اس مقدار میں ہوتا جو خدا چاہتا ہے
تنازع بقا کا مفروضہ
”و لولا دفع اللہ الّناس بعضھم ببعض لفسدت الارض “
اس طرف توجہ رکھتے ہوئے کہ یہ آیت بنی اسرائیل کے موئمنین کی ایک جماعت ہاتھوں ظالم جالوت اور اسکی فوج کی شکست کے بعد آئی ہے ، تفسیر خود باخود واضح ہو جاتی ہے کیونکہ اگر خدا وند عالم بعض اوقات صاحب ایمان و استقامت لوگوں کے ذریعےستمگروں اور ظالموں کی سر کوبی نہ کرے تو ممکن ہے وہ تمام روے ٴ زمین قدرت حاصل کر لیں پروردگار عالم کی سنت تو یہ ہے کہ دنیا میں ارادہ و اختیار کی آزادی ہو اور لوگ خیر و شر کا راستہ اختیار کرنے میں اازاد ہوں ، لیکن جب ستمگروں کی سر کشی عمومی تباہی کا باعث بن رہی ہو تو خدا اپنے بندوں میں سے کسی ایک گروہ کی مدد کرتا ہے جو راہ سر کشی کو روک دیتے ہیں اور یہ پروردگارعالم کا اپنے بندوں پر ایک لطف و کرم ہے
اس جملے کی نظیر سورہ ٴ حج آیت ۴۰ میں موجود ہے ارشاد ہوتا ہے :
” و لولا دفع اللہ الّناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات ومساجد“
اگر خدا اپنے بعض بندوں کے ذریعے اپنے بعض دوسروں کو دفع نہ کرے تو گرجے،کلیسے ،یہودیوں کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مسجدیں ویران ہو جائیں
جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کے گمان کے بر خلاف ایت تنازع بقا سے کو مطلب نہیں رکھتی انکا خیال ہے کہ محل بحث آیت کہتی ہے کہ انسانوں میں ہمیشہ جنگ و جدال رہنا چاہئے اور اگر ایسا نہ ہوا تو جمود ،سستی اور فساد پوری زمین کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور نسل انسانی تنزل کا شکار ہو جاے ٴگی لیکن نزاع اور دائمی جنگ و جدل کے باعث زیادہ طاقتور باقی رہ جاتے ہیں اور کمزور پامال ہو کر ختم ہو جاتے ہیں اور یوں زیادہ صلاحیت رکھنے والا منتخب ہو جاتا ہے جسے انتخاب اصلح کہتے ہیں
لیکن یہ تفسیر اس صورت میں ہی ممکن ہے ہم آیت کو اس کے ماقبل سے بلکل منقطع کر دیں اور اسکی مشابہ سورہ ٴ حج کی آیت سے بھی صرف نظر کر لیں لیکن اگر ان پر توجہ رکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ظالم اور سرکش لوگوں سے جنگ کے بارے میں ہے اور ان میں اصولی طور پر جنگ کو مقدس و محترم قرار نہیں دیا گیا علاوہ ازیں تنازع بقا کے نام سے جو کچھ کہا جاتا ہے اور جو ڈارون کے چیزوں کے تکامل و ارتقاء کے چار یادگار اصولوں میں شمار ہوتا ہے وہ کوئی مسلمہ علمی قانون نہیں ہے بلکہ ایک باطل شدہ مفروضہ ہے یہاں تک کہ تکامل انواع کہ حامی بھی دنیا میں تکامل بقاء کے قانون کا ہر گز سہارا نہیں لیتے اور جانوروں کے تکامل کو طبیعت اور خلقت کے قانون سے مربوط سمجھتے ہیں (مزید وضاحت کے لئے آخرین فریضہ ہائے تکامل “کا مطالعہ فرمائیں )
انتمام چیزوں سے قطع نظر اگر تنازع بقاء کے مفروضے کی کوئی علمی بنیاد تسلیم کر لی جاے ٴ تب بھی اس سے صرف جانوروں کی زندگی سلسلے میں استفادہ کیا جاسکتا ہے لیکن اسے انسانی زندگی کی بنیاد ہر گز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ انسانی تکامل و ارتقاء تعاون بقاء کے ذریعے ہے نہ کہ تناذع بقاء کے زیر سایہ اس طرح واضح ہوتا ہے کہ تنازع بقاء کے مفروضے میں نوع انسانی کو بھی شامل کرنا ایک طرح کی استعماریاور سامراجی طرز فکر ہے سرمایہ داری کہ بعض حامی اپنی خونی جنگوں اور نفرت انگیز حکومتوں کی توجیح اس طرز فکر سے کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جنگ و جدل کو ایک فطری تقاضے اور انسانی معاشروں کی ترقی کے زینے کے طور پر متعارف کرائیں اور اپنے جرائم کوایک علمی لبادہ اڑھادیں لہٰذا جن لوگوں نے ان کے انسان دشمن افکار کے زیر اثر زیر بحث آیت کو انکی فکر پر منطبق کیا وہ یقینی طور پر قرآنی تعلیمات سے بہت دور چلے گئے کیو نکہ قرآن صراحت سے کہتا ہے :
”یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَافَّةً“(بقرہ آیت۸۰۲)
اے ایمان والو !سب کے سب صلح سلامتی میں داخل ہو جاو ٴ
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :
”ولٰکن اللہ ذو فضل علیٰ العالمین “
خدا عالمین پر لطف و رحمت کی نظر رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ روئے زمین فساد و بربادی کے پھیلنے اور لوگوں کو اس کی لپیٹ میں آنے سے روکتا ہے
”تلک اٰیات اللہ نتلو ھا علیک بالحق و انّک لمن المرسلین “
ہر آیت میں بنی اسرائیل کے بارے بیان کئے گئے متعدد واقعات کی طرف اشارہ موجود ہے ان میں سے ہر واقعہ پروردگار کی قدرت و عظمت کی نشانی ہے اور یہ واقعات خرافات اور ہر افسانوی رنگ سے پاک ہو کر پیغمبر اسلام پر نازل ہوے ٴ اور یہ بذات خود پیغمبر اکرم کی سچّائی اور نبوت پر اک علامت ہے و انک لمن المرسلین
۲۵۳۔ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنا بَعْضَہُمْ عَلی بَعْضٍ مِنْہُمْ مَنْ کَلَّمَ اللَّہُ وَ رَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجاتٍ وَ آتَیْنا عیسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّناتِ وَ اٴَیَّدْناہُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَ لَوْ شاء َ اللَّہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذینَ مِنْ بَعْدِہِمْ مِنْ بَعْدِ ما جاء َتْہُمُ الْبَیِّناتُ وَ لکِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْہُمْ مَنْ آمَنَ وَ مِنْہُمْ مَنْ کَفَرَ وَ لَوْ شاء َ اللَّہُ مَا اقْتَتَلُوا وَ لکِنَّ اللَّہَ یَفْعَلُ ما یُریدُ
ترجمہ
۲۵۳۔ان بعض رسولوں کوب ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے ان میں سے بعض نے خدا سے (براہ راست) گفتگو کی ہے اور بعض کو برتر درجات عطا کئے ہیں اور عیسیٰ بن مریم کو ہم نے واضح نشانیاں دی ہیں اور انکی تائید ہم نے روح القدس کے ذریعے کی ( لیکن کسی پیغمبر کے مقام کی فضیلت سے امّتو کا اختلاف ختم نہ ہوا )اگر خدا چاہتا ان پیغمبروں کے بعد آنے والے لوگ واضھ نشانیاں آجانے کے بعد ایک دوسرے سے جنگ و جدال نہ کرتے ( لیکن خدا لوگوں کو مجبور نہیئں کیا کرتا اور انہیں راہ سعادت اختیار کرنے کے لیے آزاد رہنے دیتا ہے )مگر ان امّتوں نے آپس میں اختلاف کیا  بعض ایمان لے آے ٴ اور بعض کافر ہو گئے( اور جنگ و جدال اور اختلاف کے در پے ہو گئے )پھر بھی اگر خدا چاہتا تو وہ آپس میں جنگ نہ کرتے لیکن خدا جو چاہتا ہے اھکمت کی بناء پر انجام دیتا ہے ۔
 

 

پیغمبران خدا کی عظمت اور بلند مقام کی طرف اشارہ ہے قیادت کی شرایط
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma