مساوات کے مفہوم میں اشتباہ نہ ہو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
یہاں دو نکات قابل توجہ ہیں: عورت کی زندگی میں نیا مرحلہ

اسلام نے مساوات کی طرف خاص توجہ دی ہے اور ہمیں بھی متوجہ ہونا چاہئیے لیکن خیال رہے کہ بعض لوگ بے سوچے سمجھے جذبات کی رومیں بہہ کر افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں اور مرد اور عورت کے روحانی و جسمانی فرق اور اُن کی ذمہ داریوں کے اختلاف تک سے انکار کر بیٹھتے ہیں۔
ہم جس چیز کا چاہے انکار کریں تا ہم اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے کہ ان دو صنفوں میں جسمانی و روحانی طور پر بہت فرق ہے ۔ مختلف کتب میں اس کی تفصیلات موجود ہیں اور یہاں ہمیں اس کی تکرار کی ضرورت نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ عورت وجود انسانی کی پیدائش کا ظرف ہے۔ نونہالوں کا رشد اسی کے دامن میں انجام پاتاہے۔ جیسے وہ جسمانی طور پر آنے والی نسلوں کی پیدائش ، تربیت اور پرورش کے لیے پیدا کی گئی ہے اسی طرح روحانی طور پر بھی اسے عواطف، احساسات اور جذبا ت کا زیادہ حصہ دیاگیاہے۔
ان وسیع اختلافات کی موجودگی میں کیا یہ کہاجاسکتاہے کہ مرد اور عورت کو تمام حالات میں ہم قدم ہونا چاہئیے اور تمام کاموں میںانہیں سوفیصد مساوی ہونا چاہئیے۔
کیا عدالت اور مساوات کے حامیوں کو معاشرے کے تقاضوں کے حوالے سے بات کرنا چاہیے؟ کیایہ عدالت نہیں کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری ادا کرے اور اپنے وجود کی نعمتوں اور خوبیوں سے بہرہ مند ہو؟ اس لیے ، کیا عورت کا ایسے کاموں میں دخیل ہونا جو اس کی روح اور جسم سے مناسبت نہیں رکھتے، خلاف عدالت نہیں؟
یہی وہ مقام ہے جہاں ہم دیکھتے، ہیں کہ اسلام جو عدالت کا ہی طرفدار ہے مرد کو کئی ایک اجتماعی کاموں میں سختی یا زیادہ دقت نظر کی ضرورت ہے مثلا گھرکے معاملات کی سرپرستی و غیرہ میں مقدم رکھتاہے اور معاونت و کمک کا مقام عورت کے سپرد کردیتاہے ایک گھر اور ایک معاشرے کو منتظم کی ضرورت ہے اور نظم و ضبط کا آخری مرحلہ ایک ہی شخص تک انجام پذیر ہونا چاہیے ورنہ کشمکش اور ہرج و مرج پیدا ہوگا۔
اگر تمام تعصبات سے بے نیاز ہوکر غور کیاجائے تو یہ واضح ہوگا کہ مرد کی ساخت کے پیش نظر ضروری ہے کہ گھرکی سرپرستی اس کے ذمے رکھی جائے اور عورت اس کی معاون ہو۔ اگر چہ کچھ لوگ ان حقائق سے چشم پوشی اختیار کرنے پر مصر ہیں۔
آج کی دنیا میں بھی بلکہ ان اقوام میں بھی جو عورتوں کا مکمل آزادی و مساوات دینے کا دعوی کرتے ہیں، خارجی حالات زندگی نشاندہی کرتے ہیں کہ عملی طور پر وہی بات ہے جو ہم بیان کرچکے ہیں اگر چہ باتوں میں اس کے برخلاف کہتے ہیں۔
۲۲۹۔الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ اٴَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَیَحِلُّ لَکُمْ اٴَنْ تَاٴْخُذُوا مِمَّا آتَیْتُمُوہُنَّ شَیْئًا إِلاَّ اٴَنْ یَخَافَا اٴَلاَّ یُقِیمَا حُدُودَ اللهِ فَإِنْ خِفْتُمْ اٴَلاَّ یُقِیمَا حُدُودَ اللهِ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیمَا افْتَدَتْ بِہِ تِلْکَ حُدُودُ اللهِ فَلاَتَعْتَدُوہَا وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُودَ اللهِ فَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الظَّالِمُون
ترجمہ
۲۲۹ طلاق (جس میں رجوع ہے) دو ۲ مرتبہ ہے (اور ہر مرتبہ ) مناسب طریقے سے اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے (اور صلح کرلے) یا نیکی کے ساتھ اسے چھوڑدے (اور اس سے الگ ہوجائے) اور تمہارے لیے حلال نہیں کہ انہیں جو چیزدی ہے وہ اُن سے واپس لو۔ مگر یہ کہ دونوں (میاں بیوی) اس سے ڈریں کہ وہ حدود الہی کی پاسداری نہیں کرسکیں گے اگر انہیں خوف ہے کہ وہ حدود الہی کا لحاظ نہ کرسکیں گے تو پھر ان کے لیے کوئی حرج نہیں کہ عورت فدیہ اور عوض دے دے (اور طلاق لے لے) یہ حدود اور خدائی سرحدیں ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو شخص ان سے تجاوز کرے وہ ظالم ہے۔
تفسیر
گذشتہ آیت کی تفسیر میں کہاجاچکاہے کہ عدت اور رجوع کا قانون خاندانوں کی اصلاح اور جدائی کو روکنے کے لیئے ہے لیکن اسلام لانے والے نئے مسلمان اس سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے اور بیوی کو تکلیف اور سختی پہنچانے کے لیئے پے در پے طلاق دیتے اور عدت ختم ہونے سے قبل رجوع کرلیتے ۔ اس طرح وہ عورت پرسختی کرتے اور اُسے مصیبت میں مبتلا رکھتے۔
زیر بحث آیت اس غیر انسانی فعل کو روکتی ہے۔ ارشاد ہے کہ دو مرتبہ تک طلاق اور رجوع صحیح ہے لیکن اگر تیسری مرتبہ طلاق انجام پذیر ہوئی تو پھر رجوع کا حق نہیں ہے۔ اور آخری طلاق ہے۔ البتہ ”الطلاق مرتان“سے مراد ہے وہ طلاق جس میں رجوع ممکن ہے اور جس کے بارے میں ”امساک بمعروف“صادق آتاہے جو دوسے زیادہ نہیں اور تیسری طلاق میں رجوع نہیں ہے جیسا کہ آیت گواہی دیتی ہے۔
”امساک“کا معنی ہے۔ روکے رکھنا اور ”تسریع“کا معنی ہے چھوڑدینا ۔ جب کشمکش ، طلاق اور پھر صلح اور رجوع کی نوبت دو مرتبہ ہو گزرے تو پھر مرد کو چاہئیے کہ معاملے کو ایک طرف کرے۔
 

یہاں دو نکات قابل توجہ ہیں: عورت کی زندگی میں نیا مرحلہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma