عدت ۔ حفاظت نسل کا ذریعہ ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
حقوق و فرائض قروء“ سے کیا مراد ہے

عدت کا ایک اور فلسفہ یہ ہے کہ اگر عورت حاملہ ہے تو یہ کیفیت واضح ہوجائے۔ یہ درست ہے کہ ایک مرتبہ ماہواری دیکھنے ہی سے عموما عورت کے حاملہ نہ ہونے کا یقین ہوجاتاہے لیکن بعض اوقات دیکھاگیاہے کہ حاملہ ہونے کے با وجود ابتدائے حمل میں عورتوں کو خون حیض آنے لگتاہے۔ اس لیے اس معاملے کی پوری وضاحت کے لیے حکم دیاگیاہے کہ عورت تین مرتبہ ماہواری دیکھے اور پاک ہوجائے تا کہ حتمی طور پر پہلے شوہر ہے اس کا حاملہ نہ ہونا واضح ہوجائے اور پھر وہ نئے سرے سے کہیں شادی کرسکے۔
”و لا یحل لہن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامہن“
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ عدت کے دنوں کی ابتداء اور انتہا کس طرح معلوم کی جائے ۔ اسلام نے اس معاملے میں خود عورت کی بات کو مستند قراردیاہے۔ اس لیے مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں امام صادق -فرماتے ہیں:
”قد فوض اللہ الی النساء ثلاثة اشیاء الحیض و الظہر و الحمل“
یعنی تین باتیں عورت پر چھوڑ دی گئی ہیں ایک ماہواری دوسرا پاکیزگی تیسرا حمل
یہ بات مندرجہ بالا آیت سے بھی ظاہر ہوتی ہے جس میںفرمایاگیا ہے کہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ اس حق سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے خلاف واقعہ بات کہے یعنی عورت کی بات سند اور قابل قبول ہے۔
”ان یکتمن ما خلق اللہ“۔یہ جملہ دو مفاہیم دیتاہے ایک بچے کے حمل کو چھپانا اور دوسرا ماہواری کی عادت کو پوشیدہ رکھنا یعنی اگر عورت ہے حاملہ ہ تو اسے اپنا حمل چھپاتے ہوئے عدت کی مدت کم کرنے کے لیے یہ دعوی نہیں کرنا چاہئیے کہ وہ ماہواری کے ایام میں ہے (کیونکہ حاملہ عورت کی عدت تو وضع حمل ہی ہے) اور اس طرح پاک ہونے یا ماہواری کی عادت میں ہونے کے بارے میں بھی غلط بیانی سے کام نہیں لینا چاہئیے۔
”و بعولتہن احق بردہن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا“
جب عورت طلاق رجعی کی عدت میں ہوتو شوہر کورجوع کرنے کا حق ہے تا کہ اگر وہ چاہے تو بلا تکلف اپنی بیوی کے ساتھ اپنی زندگی جاری رکھ سکتا ہے البتہ آیت نے (”ان ارادوا اصلاحا“) کی قید لگائی ہے اور اس سے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ حکم یک طرفہ نہ ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ مرد آزادانہ بلا شرط حق رجوع رکھتا ہو اور چاہے زمانہ جاہلیت کی طرح اپنی طاقت سے غلط فائدہ اٹھاتارہے اور عورت پرسختی اور تکلیف روا رکھے لہذا یہ حق اسے اس صورت میں ہے کہ وہ واقعا اپنے طرز و طریقے سے پشیمان ہو اور وہ واقعا اپنی زندگی کانئے سرے سے آغاز چاہتا ہو تب وہ اصطلاح کے مطابق رجوع کا حق رکھتاہے، مقصد یہ ہے کہ وہ عورت کو ضرر، دکھ اور تکلیف نہ پہنچانا چاہتاہو۔
ضمنی طور پر یہ بھی ملحوظ نظر رہنا چاہیے کہ آیت کے آخر میں جو مسئلہ رجوع بیان ہوا ہے آیت کے شروع میں بیان ہونے والے حکم عدت ہی سے مربوط ہے اگرچہ ابتداء میں یہ ایک کلی حکم نظر آتاہے۔ اس لیے آیت صرف طلاق رجعی کے بارے میں سمجھی جائے گی اور اس کے علاوہ طلاق کے کسی طریقے کے بارے میں یہ خاموشی ہے لہذا یہ امر اس بات کے منافی نہیں کہ عدت اور مدت انتظار کے بارے میں جو کچھ یہاں بیان کیاگیاہے طلاق کی کچھ اقسام اس سے مختلف بھی میں۔
”و لہن مثل الذین علیہن بالمعروف و للرجال علیہن درجة“
گذشتہ مسائل کے بعد یہ جملہ عورت اور مرد کے باہمی احترام کے بارے میں ہے جسے طلاق اور عدت کے مسئلے سے بالاتر قراردیاگیاہے اس میں شخصی اور اجتماعی حقوق کی طرف راہنمائی ہے۔ فرمایاگیاہے کہ جیسے مرد کے حقوق وضع کئے گئے ہیں تا کہ عورت ان حقوق کا احترام کرے اسی طرح عورت کے مختلف حقوق بھی مرد کے ذمہ ہیں جن کی ادائیگی کا وہ ذمہ دار ہے۔ ”بالمعروف“کا لفظ اس سلسلہ آیات میں بارہ مرتبہ آیاہے یہ سب اس لیے ہے کہ کوئی اپنے حقوق سے غلط فائدہ نہ اٹھائے۔ عورت اور مرد دونوں کو مصلحت اندیش ہونا چاہئیے اور باہمی حقوق مناسب طریقے سے ادا کرنے چاہئیں
 

حقوق و فرائض قروء“ سے کیا مراد ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma