زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
قروء“ سے کیا مراد ہے زمانہ جاہلیت کے ایک طرز عمل کا خاتمہ

زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرد اپنی بیوی سے متنفر ہو جاتا تو بعض اوقات قسم کھالیتا کہ وہ اس سے ہمبستری نہیں کریگا اس طرح وہ اپنی بیوی کو اپنے اس غیر انسانی سلوک سے ایک شدید عذاب میں مبتلا کردیتا۔ نہ رسمی طور پرطلاق دیتا کہ وہ آزادی سے اپنے لیئے کسی دوسرے شوہر کا انتخاب کرکے اپنی خواہشات پوری کرسکے نہ اس قسم کے بعد و ہ خود تیار ہوتا کہ اس سے صلح کرکے ایک شوہر کی طرح زندگی بسر کرے۔
زیر نظر آیت میں اس سلسلے میں اسلام کا معین کردہ طریق کار بیان کیاگیاہے۔ فرمایاگیا ہے کہ شوہر کو چارماہ کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اس مصیبت اور عذاب سے نجات دے۔ اس عرصے میں وہ اپنی قسم کو ترک کردے اور اپنی بیوی کے ساتھ زندگی بسر کرے یا اُسے طلاق دے کر آزاد کردے۔
پہلی راہ کا انتخاب یعنی گھر کے ما حول کو خرابی سے بچانا بلا شبہ عقل و دانش کا تقاضا بھی ہے اور رضائے پروردگار کے حصول کا ذریعہ بھی، اسی لیے آیت کے آخر میں فرمایاگیاہے۔
”فان فاءُ فان اللہ غفور رحیم“
اگر اپنے ارادے کو ترک کردیں تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
(فان اللہ غفور رحیم)۔ یہ جملہ دلالت کرتاہے کہ اس قسم کو ترک کرنا کوئی گناہ نہیں، اگرچہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ قسم کھانا خود بھی ایک پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
اگر مرد علیحدگی کا ارادہ کرلے اور طلاق دے دے تو اس صور ت میں بخشش و مغفرت مسلم نہیں ہے۔ خدا جو تمام اسرار سے آگاہ ہے، جانتا ہے کہ ہوس پرستی نے شوہر کو قانون طلاق سے غلط فائدہ اٹھانے پر ابھارا ہے یا اس کے حالات کا یہی تقاضا تھا۔ ظاہری طلاق جاری کرنے کے بارے میں، اس کا سبب اور محرک سب کچھ خدا کے علم میں ہے اسی لیے آیت کے آخر میں فرماتاہے۔
”وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیم“
اور اگر وہ طلاق ہی کا ارادہ کرلیں تو اللہ تعالی سننے والا اور جاننے والاہے
توجہ رہے کہ اسلام لے ”ایلا“ کو بالکل تو ختم نہیں کیا البتہ اس کے بُرے آثار کو ختم کردیاہے کیونکہ وہ کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ ”ایلاء“ یا بیوی سے مباشرت ترک کرنے کی قسم کھانے سے وہ اپنی بیوی سے جدا ہوجائے۔
اسلام نے ایلاء کرنے والے کے لیئے مدت کا تعین اس لیے نہیں کیا کہ واقعا قسم کھانے سے ازدواجی حقوق میں سے کوئی حق باطل ہوجاتاہے۔ بلکہ یہ اس لیے ہے کہ واجب شرعی ہونے کے لحاظ سے مباشرت چار ماہ میں ایک مرتبہ ضروری ہے (البتہ یہ بھی اس صورت میں ہے کہ عورت طویل مدت کی وجہ سے گناہ کا شکار نہ ہو ورنہ اس صورت کے علاوہ خصوصا جوان عورتوں کے بارے میں کہ جہاں خطرہ ہو کہ وہ گناہ میں مبتلا ہوجائیںگی، ضروری ہے کہ عدم مباشرت کی مدت کم کردی جائے تا کہ اس کی جنسی ضرورت پوری ہوسکے)
حکم اسلام اور دنیائے مغرب کا ایک تقابل
”ایلا“ کی رسم پر اسلام کی گرفت اور زمانہ جاہلیت کی گذشتہ تاریخ میں ایلاء کی طرح سے بدنی علیحدگی (یورپی ممالک میں جس کی تائید کی جاچکی ہے) پر نظر کی جائے تو اسلام اور قرآن میں عورت کے حقوق کی کیفیت سے کافی آگاہی ہوسکتی ہے۔
وضاحت کچھ یوں ہے کہ فرانس کے عظیم انقلاب کے بعد اہل فرانس کو طلاق کے لیے اس صورت کی بھی اجازت دی گئی تھی کہ وہ ایک دوسری سے بدنی جدائی اختیار کرلیں اس قانون کے مطابق جو عورت مرد ایک دوسرے سے مصالحت نہیں کرسکتے تھے اُن کے لیے ممکن تھا کہ وقتی طور پر ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں اور علیحدہ گھروں میں زندگی بسر کریں (البتہ روابط اور حقوق برقرار رہتے تھے صرف شوہر کے ذمے اخراجات نہ رہتے اور عزت و پذیرائی عورت کی ذمہ نہ رہتی) لیکن اس قانون کی روسے مرد دوسری بیوی نہ کرسکتا تھا اور عورت دوسرا شوہر کرنے کی مجاز نہ تھی۔ اس جدائی کی مدت زیادہ سے زیادہ تین سال تھی۔ تین سال کے بعد میاں بیوی مجبور تھے کہ مل جل کر زندگی بسر کریں اور علیحدگی ترک کردیں۔ اسی طرح سے زمانہ جاہلیت کا ایک طرز عمل اس معاشرے کا حصہ بن گیا۔
دنیا ئے مغرب نے تو اس علیحدگی کی اجازت تین سال تک کے لیے دی ہے لیکن اسلام چارماہ سے زیادہ جدائی کی اس کیفیت کو روا نہیں جانتا (جب کہ قسم نہ بھی کھائی جائے تب بھی مباشرت میں اس مدت تک کی تاخیر مباح ہے)۔ اگر اس مدت کے اختتام پر بھی مرد ٹال مٹوسے کام لے اور اپنے پروگرام کو واضح نہ کرے تو حکومت اسلامی اسے طلب کرسکتی ہے اور مخالفت کی صورت میں اسے مجبور کرسکتی ہے کہ وہ معاملے کو طے کرے۔
۲۲۸۔وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ وَلاَیَحِلُّ لَہُنَّ اٴَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللهُ فِی اٴَرْحَامِہِنَّ إِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ
وَبُعُولَتُہُنَّ اٴَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِی ذَلِکَ إِنْ اٴَرَادُوا إِصْلاَحًا وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَةٌ وَاللهُ عَزِیزٌ حَکِیم
ترجمہ
۲۸۸۔ طلاق یافتہ عورتیں تین مرتبہ ماہواری دیکھنے (اور پاک ہونے) کا انتظار کریں (اور اس طرح عدت پوری کریں( اوراگر خدا اور روز جزا پر ایمان رکھتی ہیں تو اُن کے لیے حلال نہیں کہ جو کچھ خدا نے ان کے رحم میں پیدا کیاہے اسے چھپائیں اور ان کے شوہر اس مدت میں اُ ن کی طرف رجوع کرنے (اور ازدواجی عہد و پیمان کی نئے سرے سے بحالی کے دوسروں سے زیادہ حق دار ہیں اگر (واقعا)وہ صلح چاہتے ہیں اور جیسے عورتوں کے کندھوں پر فرائض عائدہیں ایسے ہی ان کے لیئے شائستہ حقوق مقرر کئے گئے ہیں اور مردان پر برتری رکھتے ہیں، اور خدا توانا اور حکیم ہے۔
اکثر گھریلو معاملات کی خرابی معاشرتی ڈھانچے کے لیئے ناقابل تلافی نقصانات کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے اسلام نے ایسے قوانین اور احکام وضع کئے ہیں کہ امکان کی آخری حد تک گھریلو رشتے ٹوٹنے سے بچ جائیں۔ ایک طرف اسلام نے طلاق کو مباح اور حلال چیزوں میں سب سے زیادہ قابل نفرت قراردیاہے اور دوسری طرف گھریلو اختلافات کے لیے خاندانی عدالت کا تصور دیاہے۔ یہ عدالت رشتہ داروں پر ہی مشتمل ہوتی ہے تا کہ طرفین کے قریبی رشتہ داروں کے ذریعے صلح و آشتی کی کوئی صورت نکل آئے۔ طلاق کے معاملے کو تاخیر و التوامیں ڈالنے اور اس فیصلے کو متزلزل کرنے کے لیئے ”عدت“ مقرر کی گئی ہے جس کی مدت تین ”قرو“ ہے جس کا ذکر زیر نظر آیت میں کیاگیاہے۔
 

قروء“ سے کیا مراد ہے زمانہ جاہلیت کے ایک طرز عمل کا خاتمہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma