قمار بازی کے برے اثرات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
دوقابل غور نکات قمار بازی کے برے اثرات

ایسے افراد بہت کم ملیں گے جو قماربازی کے زبر دست نقصانات سے بے خبرہوں۔ وضاحت کے لیے اس منحوس کار و بار اور گھروں کی بربادی کے باعث کام، کے چند گوشوں کا تذکرہ کیاجاتاہے۔
قمار بازی ہیجان انگیزی کا بہت بڑا ذریعہ ہے: تمام علماء نفسیات کا یہ نظریہ ہے کہ روحانی ہیجانات اور اضطراب بہت سی بیماریوں کا باعث ہیں مثلا وٹا من کی کمی۔ زخم معدہ، جنون و دیوانگی ، کم و بیش اعصابی و روحانی بیماریاں و غیرہ۔
یہ بیماریاں زیادہ تر ہیجان ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ قماربازی ہیجان کا سب سے بڑا عامل ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کا ایک اسکالر کہتاہے کہ امریکہ میں ہر سال دوہزار افراد صرف قمار بازی کے ہیجان سے مرجاتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک لالو اوسطا ایک پوکر ۱
باز کا دل اوسطا ایک منٹ میں سوسے زیادہ مرتبہ دھڑکتاہے۔ کبھی کبھی قمار بازی سے دل و دماغ پر سکتہ بھے طاری ہوجاتاہے ۔ قمار بازی یقینی طورپر جلد بڑھا پالانے کا باعث بنتی ہے۔
علاوہ ازیں علماء کے بقول جو شخص قمار بازی میں مشغول ہے اس کا دل ہے تشنج کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اس کے تمام اعضاء جسم سخت حالت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس کے دل کی حرکت بڑھ جاتی ہے۔ شوگر کا مواد اس کے خون میں گرتاہے، داخلی غدودوں میں خلل واقع ہوتا، چہرے کا رنگ اڑجاتا ہی اور بھوک ختم ہوجاتی ہے۔ قمار بازی کے ختم ہوںے پر جب جوا باز سوتاہے تو اس کے اندرا عصابی جنگ جاری ہوتی ہے اور جسم پر بحران کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ جواری اکثر اوقات اعصاب کی تسکین اور بدن کے آرام کے لیے شراب اور دوسری نشہ آور چیزوں کا سہارا لیتا ہے اس طرح شراب اور قمار بازی کے نقصانات جمع ہوکر فزون تر ہوجاتے ہیں۔
بعض محققین کہتے ہیں کہ قمارباز ایک بیمار شخص ہے۔ یہ ہمیشہ روح کی نگرانی کا محتاج ہے۔ اُسے ہمیشہ سمجھانا چاہئیے اورنفسیاتی ذریعوں سے اسے قمار بازی سے روکنے کی کوشش کرنے چاہئیے شاید اس طرح وہ اپنی اصلاح کی طرف مائل ہوسکے۔
قمار بازی کا جرائم سے تعلق: عالمی اعداد و شمار کے ایک بہت بڑے ادارے نے ثابت کیاہے کہ ۳۰ فیصد جرائم کا تعلق قماربازی سے ہے اور ۷۰ فیصد دیگر جرائم کے عوامل میں بھی یہ حصہ دار ہے۔
قمار بازی کے اقتصادی نقصانات: ایک سال میں کئی ملین بلکہ کئی ارب ڈالر کی دولت دنیا میں اس راستے سے برباد ہوتی ہے
انسانی توانائیوں کا اس راستے میں ضیاع اس پر مستزاد ہے بلکہ یہ عمل تو دوسری مصروفیات میں سے بھی لگن اور دلچسبی چھین لیتاہے۔
مونٹ کا رلو جو دنیا میں قمار بازی کا مشہور مرکز ہے کے بارے میں اخبارات میں چھپاہے کہ ایک شخص نے ۱۹ گھنٹے میں قمار بازی میں ۷۵ لاکھ تومان 2
ہارے ۔ جب قمارخانے کے دروازے بند ہوئے تو وہ سیدھا جنگل کی طرف گیا اور ایک ہی گولی سے اپنا دماغ پاش پاش کرلیا۔ اس طرح اس نے خود کشی کرلی۔ نامہ نگار مزید لکھتاہے کہ
”مونٹ کارلو کے جنگل ان پاکبازوں کی کئی خود کشیوں کے شاہد ہیں۔“
قمار بازی کے اجتماعی نقصانات: بہت سے جوا باز جیت بھی جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی گھنٹے میں دوسروں کے ہزاروں روپے ان کی جیب میں چلے جاتے ہیں ۔ نتیجتا وہ کوئی پیدا واری اور اقتصادی کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اسطرح اجتماعی پیداوار اور اقتصادی حالت لنگڑی ہوجاتی ہے۔ صحیح غور کیاجائے تو یہ واضح ہوگا کہ قمار باز اور ان کے اہل و عیال معاشرے پر بوجھ ہیں۔ وہ معاشرے کو ذرہ بھر فائدہ پہنچائے بغیر اس کی کمائی کھاتے ہیں اور کبھی ہارنے کی صورت میں جوری چوری اور ڈاکہ زنی سے اپنی ہارکی تلافی کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ قمار بازی کے نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ بعض غیر مسلمان ملکوں کو بھی اسے قانونا ممنوع قرار دینا پڑا اگرچہ وہاں بھی عملا وسیع پیمانے پر جوا بازی کا کاروبار جاری ہے۔
مثلا برطانیہ نے ۱۸۵۳ میں، امریکہ نے ۱۸۵۵ میں، روس نے ۱۸۵۴ میں اور جرمنی نے ۱۸۷۳ میں قمار بازی کے ممنوع ہونے کا اعلان کیا۔
اس بحث کے آخر میں بعض محققین کے پیش کر دہ ذیل کے اعداد شمار پر ایک نظر ڈالنا مفید رہے گا۔
(۱) جیب تراشی کی وارداتیں : ۹۰ فیصد
(۲) اخلاقی جرائم : ۱۰ فیصد
(۳) دنگا فساد کے واقعات : ۴۰ فیصد
(۴) جنسی جرائم : ۱۵ فیصد
(۵) طلاقیں : ۳۰ فیصد
اور (۶) خودکشی کے واقعات : ۵ فیصد ۔۔۔قمار بازی ہی کہ بدولت ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
قمار بازی کی جامع تعریف کرنا چاہیں تویوں ہوگی:
() دوسروں کے مال پر دھوکا، فریب اور جھوٹ سے قبضے کے لیئے
() تفریح کے نام پر
() اور کبھی بلا مقصد
() مال ، عزت اور آبرو کی قربانی۔
یہاں تک تو ہم نے شراب اور قمار بازی کے ناقابل تلافی نقصانات بیان کیے ہیں اب ایک اور نکتے کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ خداوند عالم نے شراب پرسرزنش کیوں رکھی ہے اور اس کے ذکر کے وقت اس کے فوائد نقصانات کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔
ہوسکتاہے اس کی وجہ یہ ہوکہ زمانہ جاہلیت میں (ہمارے زمانے کی طرح) شراب اور قماربای بہت عام تھی اور اگر اس طرح اشارہ نہ ہوتا تو ہوسکتاہے بعض کوتاہ نظریہ تصور کرتے کہ مسئلے کے ایک ہی پہلو کو مدنظر رکھاگیاہے۔
ضمنا محل بحث آیت ان ڈاکٹروں کے موقف کا جواب بھی ہے جو شراب کو بعض بیماریوں کے لیے مفید سمجھتے ہیں کیونکہ اس قسم کے اجتماعی فوائد کا اس کے نقصانات سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا۔ اگر وہ ایک بیماری کے لیئے مثبت اثر ہوبھی تو بہت سی بیماریوں کا سرچشمہ بھی ہوسکتی ہے نیز روایات میں یہ جو آیاہے کہ:
”خدا تعالی نے شراب میں شفا نہیں رکھی“
شاید اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہو۔“ و یسئلونک ما ذا ینفقون
تفسیر در منشور میں آیت کے اس حصے کی شان نزول کے بارے میں ابن عباس سے منقول ہے کہ جب خدانے مسلمانوں کو حکم دیا کہ دین حق کی ترقی کے لیئے خرچ کرو بعض اصحاب و انصار پیغمبر نے آپ سے پوچھا کہ ہم نہیں جانتے کہ اپنے مال میں سے کتنی مقدار خرچ کریں۔ کیاسارے کا سار امال خرچ یا اس کا کچھ حصہ۔
اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور انہیں ” ”عفو“ کا حکم دیاگیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ عفو سے یہاں کیا مراد ہے۔
”عفو“ سے کیا مراد ہے
”عفو“ کے لغت میں کئی معانی بیان کیئے گئے ہیں۔
۔ ”بخشش و عنایت“
۔ ”اثر زائل کرنا“
۔ ”کسی چیز کو پکڑنے کا ارادہ کرنا“
۔ ”ہر چیز کا وسط اور در میان“
۔ ”کسی چیز کی اضافی مقدار“
اور ۔ ”مال کا بہترین حصہ“ یہ سب عفو کے مختلف معانی ہیں۔
تین پہلے معانی ظاہرا آیت کے مفہوم سے مناسبت نہیں رکھتے بلکہ آخری تین معانی میں سے یہاں کوئی اس کا مفہو م ہے یعنی خرچ کرنے میں حد اوسط اور اعتدال کا خیال رکھنا، یا اپنی ضروریات سے اضافی مقدار خرچ کرنا (یہ دونوں معانی ایک ہی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں، کیونکہ اعتدال کو ملحوظ رکھنے کا معنی یہی ہے کہ اپنی ضرورت سے زیادہ مال خرچ کیاجائے اور اپنی زندگی کو تباہ نہ کیاجائے)۔
اگر آخری معنی مراد لیاجائے تو آیت کا مضمون یہ ہے:
خرچ کرتے وقت گھٹیا اور بے قدر و قیمت مال کا انتخاب نہ کرو، بلکہ را خدا میں خرچ کرنے کے لیے اپنے مال کے بہترین حصے کا انتخاب کرو۔
یہ معنی بھی پہلے دو معانی پر پوری طرح سے منطبق ہوتاہے کیونکہ خرچ کرتے وقت حد وسط اور اعتدال کو بھی مد نظر رکھا جائے اور اچھے مال کا بھی انتخاب کیاجائے تو ان تمام معانی پر عمل ہوسکتاہے۔
اسی لیے ھادیان اسلام علیہم السلام نے اس لفظ کی تفسیر کرتے ہوئے بعض اوقات لفظ ”وسط“ استعمال کیاہے جبکہ تفسیر عیاشی اور کتاب کافی میں چھٹے پیشوائے اسلام امام صادق  سے منقول ہے، آپ نے فرمایا:
”عفو“ یعنی حد وسط۔
اور کبھی اس کا معنی لفظ ”فضل“ سے کیا گیا ہے جس کا معنی ہے زیادتی، اضافہ ۔ جیسا کہ مجمع البیان میں پانچویں پیشوائے اسلام حضرت امام باقر سے منقول ، آپ نے فرمایا:
”العفو ما فضل عن قوة السنة“
عفو۔ وہ چیز ہے جو سال کے مخارج سے بچ جائے۔
آیت میں ایک اور احتمال بھی ہے کہ عفو اسی پہلے معنی میں ہو یعنی مغفرت اور دوسروں کی لغزشوں سے در گزرکرنا۔ اگر چہ جہاں تک ہم نے دیکھا ہے یہ احتمال کسی مفسر نے بیان نہیں کیا۔ اس احتمال کے مطابق آیت کا مفہوم یوں ہوگا: کہہ دو کہ بہترین انفاق اور خرچ کرنا یہ ہے کہ عفو در گزر کو خرچ کرو۔
چند امور ایسے ہیں کہ جن کے پیش نظر اس احتمال کا درست ہونا کچھ بعید بھی نہیں مثلا جزیرة العرب کی وضع و کیفیت خصوصا اہل مدینہ کی دشمنی اور کینہ پروری کی قدیم عادت اور ان پست حالات اور افراد میں پیغمبر اکرم کے نزدیک عفو در گزر کی اہمیت۔
اور پھریہ مفہوم ان کے سوال کے بھی منافی نہیں ہے۔ انہوں نے مالی امور کے بارے میں سوال کیاتھا۔ وہ بعض اوقات ایسی چیز کے بارے میں سوال کرتے تھے جس سے زیادہ ضروری چیز کی بارے میں انہیں پوچھنا چاہئیے تھا تو قرآن سوال کے حوالے سے ان کی آمادگی اور پذیرائی سے استفادہ کرتے ہوئے جواب میں اس چیز کا تذکرہ کرتاہے جو اہم ہوتی ہے یعنی ان کے سوال سے قطع نظر کرتے ہوئے زیادہ اہم بات بیان کرتاہے۔
یہ نظر نواز انداز قرآن ہی سے مخصوص نہیں کیونکہ اکثر اوقات ایسا ہوتاہے کہ کوئی شخص ہم سے ایک مسئلے کے بارے میں سوال کرتاہے جب کہ وہ اس سے اہم مسائل بھولے ہوئے ہوتاہے تو ہم بجائے اس کے کہ آسان اور سادہ سوال کا جواب دیں۔ اس کی ضرورت کے اہم مسائل کو تفصیل سے بیان کردیتے ہیں۔


 

۱ پوکر۔ یہ قمار بازی کی ایک قسم ہے
2 تومان ایرانی کرنسی ہے (مترجم)

دوقابل غور نکات قمار بازی کے برے اثرات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma