طبیعی اور فطری میزان اور پیمانے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
جنگ کیوں اور کس سے رشوت خواری ایک مصیبت

قوانین اسلام کی ایک خصوصیت اور امتیاز یہ ہے کہ انہیں عموما طبیعی اور فطری میزان کے مطابق قرار دیا گیا ہے کیونکہ طبیعی مقیاس ایک ایسا ذریعہ ہے جو سب لوگوں کے ہا تھ میں دیا گیا ہے اور رفتار زمانہ اس پر اثر انداز نہیں ہو تی جب کہ اس کے برعکس غیر طبیعی نظام ہا ئے مقیاس، سب لوگوں کے اختیار میں نہیں ہیں یہاں تک کہ دور حاضر میں بھی تمام لوگ مصنوعی مقیاسوں سے استفادہ نہیں کر پا تے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیںکہ اسلام کبھی بالشت کو اور کبھی قدم کو، کبھی انگلی کی گر ہوں کو اور کبھی انسان کے طول قامت کو پیمانہ قرار دیتا ہے ۔ اس طرح وقت کے تعین کے لیے غروب آفتاب ، طلوع فجر ، سورج کے نصف النہار سے گذر جا نے اور چاند دیکھ لینے کو مختلف مواقع پر میزان قرار دیتا ہے۔
لیس البربان تاتوا البیوت من ظہور ہا یعنی گھر کی پشت سے گھر میں داخل ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ یہاں حج کے متعلق گفتگو جاری ہے اوربتا یا گیا ہے کہ حج کے اوقاف کو چاند کے ذریعے معین کیا جا سکتا ہے۔ اب خداوند عالم نے حج کے موقع پر زمانہ جاہلیت کی ایک رسم کی طرف توجہ دلا تے ہو ئے اس سے منع فرمایا ہے ۔ وہ لوگ جب احرام باند ھ لیتے تو عام راستے اور گھر کی ڈیوڑھی سے گھر میں داخل نہیں ہو تے تھے ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ احرام باند ھے ہو ئے شخص کو گھر کے دروازہ ے سے داخل نہیں ہو نا چا ہیئے ۔ اس بنا ء پر وہ گھر کی پچھلی طرف نقب لگا تے اور احرام کی حالت میں صرف و ہیں سے داخل ہو تے ۔ وہ اس عمل کو کار نیک سمجھ کر انجام دیتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک یہ عمل ایک طرح سے ایک عادت ترک کرنے کا اظہار تھا ۔ احرام چونکہ عادات ترک کر نے کانام ہے لہذا وہ خیال کرتے تھے کہ اس کی تکمیل اس عادت کے ترک کر نے سے ہونا چاہئیے ۔۱۔
لیکن قرآن صراحت سے کہتا ہے کہ نیکی تقوی میں ہے نہ کہ ایسی بے ہودہ عادات و رسوم میں اور پھر بلافاصلہ حکم دیتا ہے کہ گھروں میں عمومی راستے ہی سے داخل ہوا کرو۔
البتہ آیت کا ایک وسیع تراور زیادہ عام معنی بھی ہے اور وہ یہ جب کسی بھی کام کے لئے ابتداء کی جائے چاہے وہ مذہبی اعمال میں سے ہویا ان کے علاوہ چا ہیئے کہ اس کے صحیح راستے سے اس میں داخل ہوا جا ئے نہ کہ انحرافی ، الٹے اور غیر عادی طریقوں سے یہی مفہوم جابر نے امام باقر  کے ارشاد سے نقل کیا ہے ۲
تفاسیر اہل بیت میں اس آیت کے بار ے میں ہے :
ہم ابواب خداوندی اور اس تک پہنچے کا راستہ اور جنت الہی کی طرف بلا نے والے ہیں۔۳۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے تمام مذہبی امور میں اس کے اصلی راستے سے داخل ہو نا چاہئیے اور نظام حیات اہل بیت  سے حاصل کرنا چاہئیے کیونکہ وحی انہی کے گھر میں اتری ہے اور وہ مکتب وحی الہی کے تربیت یافتہ ہیں۔
لیس البر بان یہ جملہ ہو سکتا ہے ایک اور لطیف نکتے کی طرف بھی اشارہ ہو وہ یہ کہ معارف دینی کے متعلق سوال کرنے کے بجا ئے مہینے کے چاند کے بار ے میں تمہارا سوال کرنا ایسا ہے گویا کوئی شخص گھر کے اصلی دروازہ ے کو چھوڑ کر اس کی پشت پر نقب زنی کر کے اس میں داخل ہو جو کتنا برا کام ہے۔
۱۹۰۔
وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَتَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لاَیُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ
ترجمہ:
۱۹۰۔ اور راہ خدا میں تم ان لوگوں سے قتال کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو کیونکہ خدا تجاوز کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔
شان نزول:
ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے موقع پرنازل ہوئی۔ واقعہ یوں ہے کہ رسول خدا اپنی ۱۴۰۰ اصحاب کے ساتھ عمرہ کے لیے تیار ہو ئے ۔ جب سرزمین حدیبیہ پر (جو مکہ کے قریب ایک جگہ ہے)پہنچے تو مشرکین نے انہیں مکہ میں داخل ہو نے اور مناسک عمرہ بجالا نے سے روکا۔ طویل سلسلہ گفتگو کے بعد انہوں نے پیغمبر اکرم سے صلح کر لی اور طے یہ پایا کہ رسول اللہ ﷺا گلے برس عمرہ اداکر نے آئیں اور وہ ان کے لیے تیں دن تک مکہ خالی کردیں گے تا کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کرسکیں اگلے سال جب آپ مکہ کی طرف جانے کہ لئے آمادہ ہو ئے تو ڈر تھا کہ شاید مشرکین وعدہ وفا نہ کریں اور رکاوٹ پیدا کریں ۔ یوں جنگ شروع ہو جانے کا امکان تھا ۔ اور آپ ماہ حرام میں جنگ کرنے پر خوش نہ تھے۔ اس موقع پر یہ آیہ نازل ہوئی او رحکم دیا گیا کہ اگر دشمن جنگ شروع کرد ے تو تم بھی اس کے مقابلے میں کھڑے ہو جاوٴ۔
تفسیر:
اس آیت میں قرآن نے ان لوگوں سے قتال کا حکم صادر فرمایا ہے جو آغاز جنگ کریں اور مسلمانوں کے سامنے تلوار نکال لیں۔ قرآن نے اجازت دی ہے کہ دشمن کو خاموش کر نے کے لیے ہتھیارپر ہا تھ رکھا جا ئے اور ہر قسم کے دفاعی ذرائع سے استفادہ کیا جا ئے اور حقیقت میں اب مسلمانوں کے صبر و تحمل کا زمانہ ختم ہو گیا ہے ۔ اوراب وہ صراحت اور جانبازی سے اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں -


 
۱ تفسیر بیضاوی
۲ مجمع البیان
۳۔ مجمع البیان

 

 

جنگ کیوں اور کس سے رشوت خواری ایک مصیبت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma