وصیت میں عدالت:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 واجب اور مستحب وصیت:  و صیت کا فلسفہ:

مندرجہ بالا آیت میں وصیت میں تعدی و تجاوز نہ کرنے کا حکم آپ نے ملاحظہ کیا۔ اس سلسلے میں اسلامی روایات میں بھی ظلم و جور اور ضرر نہ پہنچانے کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ ان روایات کے اجتماعی مطالعے سے ظاہر ہوتاہے کہ جیسے وصیت کرنے کی بہت اہمیت ہے اسی طرح وصیت میںظلم روا رکھنا بہت برا عمل ہے اور گناہان کبیرہ میں سے ہے۔
ایک حدیث میں امام محمد باقر کا ارشاد ہے:
من عدل فی وصیة کان کمن تصدق بہا فی حیاتہ و من جار فی وصیتہ لقی اللہ عزوجل یوم القیامة و ہو عنہ معرض۔
جو شخص اپنی وصیت میں عدل کرے وہ ایسے ہے جیسے اس نے اپنی زندگی میں یہ مال راہ خدا میں صدقہ کردیا ہو اور جو اپنی وصیت میں ظلم و تعدی کرے قیامت کے دن پروردگار کی طرف سے نگاہ لطف و کرم اس سے اٹھالی جائے گی۱
وصیت میں ظلم و جور اور ضرر رسانی یہ ہے کہ انسان اپنے ترکے کے تیسرے حصے سے زیادہ وصیت کرے اور ورثہ کو ان کے جائز حق سے محروم کردے یا بلا وجہ محبت و دشمنی کی بناء پر ایک کو دوسرے پرترجیح دے۔ اسی لئے اگر ورثہ زیادہ ضرورتمند ہوں تو حکم دیا گیاہے کہ تیسرے حصے کی بھی وصیت نہ کی جائے اور ایسے مقام پر وصیت میں چوتھے یا پانچویں حصے تک کمی کی جاسکتی ہے۔۲
وصیت میں عدالت کے بارے میں اسلام کے پیشواؤں نے اپنے ارشادات میں اس حد تک تاکید کی ہے کہ ایک حدیث میں ہے:
انصار میں سے ایک شخص فوت ہوگیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے باقی رہ گئے لیکن وہ مرتے وقت سارا مال راہ خدا میں صرف کرگیا یہاں تک کہ کچھ باقی نہ رکھا۔
پیغمبر اسلام اس واقعے سے آگاہ ہوئے تو فرمایا:
اس شخص سے تم نے کیا سلوک کیا۔
لوگوں نے عرض کیا:
ہم نے (اس کی نماز جنازہ پڑھ کر) اسے دفن کردیاہے۔
آپ نے فرمایا:
مجھے پہلے معلوم ہوجاتا تو میں اجازت نہ دیتا کہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیاجائے کیونکہ اس نے اپنے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ دیے ہیں تا کہ وہ گدائی کرتے پھریں۔ ۳



 
1 وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۹
۲ وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۶۰
۳ سفینة البحار، ج۲، ص۶۵۹، مادہ وصیت
 واجب اور مستحب وصیت:  و صیت کا فلسفہ:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma