آیت کے آخر میں شیطان کو واضح دشمن قرار دیا گیاہے۔ یہ یا تو اس دشمنی کی بناپر ہے جو اسے پہلے دن سے حضرت آدم سے تھی جب کہ وہ حضرت آدم کو سجدہ کرنے کے حکم نافرمانی کرکے ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھا یا اس لئے ہے کہ قتل، جارحیت اور تباہ کاری پر مبنی اس کے دعوتیں، کرتوت اور طریقے سب پر واضح ہیں اور سب جانتے ہیں کہ ایسے کام کسی دوست کی طرف سے نہیں ہوسکتے۔ ایسے کام جن کا نتیجہ بدبختی اور پشیمانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ان کی دعوت ایک خطرناک دشمن کی طرف سے ہی ہوسکتی ہے۔
یہ اس طرف بھی اشارہ ہوسکتاہے کہ اس نے انسا ن سے اپنی دشمنی کا صراحت سے اعلان کیاہے اور اس نے انسان کی دشمنی پر کمر باندھ رکھی ہی اور اس نے کہہ رکھاہے کہ:لاغوینہم اجمعین
مجھ سے ہوسکا تو سب کو گمراہ کردوں گا۔(حجر۔۳۹)