سب اپنے اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
صرف ہم حق پر ہیںحضرت ابراهیم انسان نمونه

جیسا کہ شان نزول میں ہے آیت کے ظاہر سے بھی یہ سمجھ میں آتاہے کہ کسی گفتگو کے دوران منکرین اسلام کا ایک گروہ حضرت یعقوب سے کوئی غلط بات منسوب کرتاتھا۔ قرآن ان کے اس بے دلیل دعوی کے متعلق کہتاہے: کیا تم یعقوب کی موت کے وقت موجود تھے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو ایسی وصیت کی تھی ( ام کنتم شھدآء اذا حضر یعقوب الموت
 جو بات تم ان سے منسوب کرتے ہو وہ تو نہیں بلکہ جو کچھ انہوں نے اس وقت اپنے بیٹوں سے گفتگو کی یہ تھی کہ انہوں نے پوچھا: میرے بعد کس چیز کی پرستش و عبادت کروگے (اذقال لبنیہ ما تعبدون من بعدی)انہوں نے جواب میں کہا: آپ کے خدا کی اور اس اکیلے خدا کی جو آپ کے آباابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا خدا ہے (قالوا نعبد الہک و الہ ابائک ابراہیم و اسمعیل و اسحق الہا واحد)اور ہم اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں (و نحن لہ مسلمون)
 یعقوب نے توحید اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی وصیت نہیں کی اور یہی اصول تمام حقائق تسلیم کرنے کی بنیاد ہے۔ زیر بحث آیت سے معلوم ہوتاہے کہ موت کے وقت حضرت یعقوب کو اپنی اولاد کی آئندہ زندگی کے بارے میں کچھ پریشانی تھی اور اس فکر کے آثار ان کی پیشانی سے ہویدا تھے جو بت پرست تھے اور کئی ایک چیزوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے۔ یعقوب چاہتے تھے کہ وہ جان لیں کہ کیا اس طور طریقے کی طرف تو کسی کا رحجان اس کے دل کی گہرائیوں میں موجود نہیں۔ لیکن بیٹوں کے جواب کے بعد انہیں سکون قلب نصیب ہوا۔
 یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت اسمعیل ، حضرت یعقوب کے باپ یا دادا نہیں تھے بلکہ ان کے چچا تھے۔ یہاں سے واضح ہوتاہے کہ لغت عرب میں کبھی کبھی لفظ (اب) جس کا معنی باپ ہے چچا کے لئے بھی استعمال ہوتاہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں اگر یہ لفظ آزر کے لئے استعمال ہوا ہے تو یہ اس مفہوم کے خلاف نہیں کہ آزر ابراہیم کا والد نہ تھا بلکہ چچاتھا۔
 زیر نظر دوسری آیت گویا یہودیوں کے ایک اشتباہ کی نفی کرتی ہے کیونکہ وہ اپنے آباء و اجداد، ان کے اعزازات اور خداکے ہاں ان کی عظمت پر بہت بھر و سہ کرتے تھے اور اپنے بارے میں سمجھتے کہ اگر وہ گناہگار ہوں تو بھی ان بزرگوں کی وجہ سے نجات یافتہ ہیں۔ قرآن کہتاہے: بہرحال وہ ایک امت تھے جو تم
 کبھی ان کے اعمال کے جواب دہ نہیں (جیسا کہ وہ تمہارے اعمال کے جواب دہ نہیں ہیں) ( و لا تسئلون عما کانوا یعملون) لہذا بجائے اس کے کہ تم اپنی توانایی اپنے بزرگوں کے متعلق ایسے فخر و مباہات کی تحقیق میں صرف کرو اپنے عقیدہ اور عمل کی اصلاح کرو۔
 اگر چہ ظاہرا اس آیت کے مخاطب اہل کتاب اور یہودی ہیں لیکن واضح ہے کہ یہ حکم انہی سے مخصوص نہیں بلکہ ہم مسلمان بھی اس کے حقیقی مفہوم کے مخاطب ہیں۔۱
 ۱ سادات کرام اس بات کی طرف خاص طور پر توجہ فرمائیں۔ (مترجم)
 ۱۳۵۔ وَقَالُوا کُونُوا ہُودًا اٴَوْ نَصَارَی تَہْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ
 ۱۳۶۔ قُولُوا آمَنَّا بِاللهِ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْنَا وَمَا اٴُنزِلَ إِلَی إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْاٴَسْبَاطِ وَمَا اٴُوتِیَ مُوسَی وَعِیسَی وَمَا اٴُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِنْ رَبِّہِمْ لاَنُفَرِّقُ بَیْنَ اٴَحَدٍ مِنْہُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ
 َ۱۳۷۔فإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُمْ بِہِ فَقَدْ اہْتَدَوا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا ہُمْ فِی شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیکَہُمْ اللهُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیم
 
 ترجمہ
 ۱۳۵۔ (اہل کتاب) کہتے ہیں یہودی بن جاؤ یا عیسائی تا کہ ہدایت پالو کہہ دیجئے (یہ تحریف شدہ مذاہب ہرگز ہدایت بشر کا سبب نہیں بن سکتے) بلکہ ابراہیم کے خالص دین کی پیروی کرو وہ ہرگز مشرکین میں سے نہ تھے۔
 ۱۳۶۔ کہیے ہم خدا پر ایمان لائے ہیں اور اس پر جو ہم پر نازل ہواہے اور اس پر بھی جو ابراہیم ، اسمعیل ، اسحاق، یعقوب اور بنی اسرائیل کے دیگر انبیاء اسباط پر نازل ہواہے اور اسی طرح جو کچھ موسی اور عیسی اور دوسرے پیغمبروں کو پروردگار کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان میں کوئی فرق نہیں سمجھتے اور خدا کے حکم کے سامنے سرتسلیم کرتے خم کرتے ہیں (نسلی تعصبات اور ذاتی اغراض ہمارے لئے سبب نہیں بنتیں کہ ہم بعض کو قبول کریں اور بعض کو چھوڑ دیں)
 ۱۳۷۔ اگر وہ بھی اس پر ایمان لے آئیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو ہدایت یافتہ ہوجائیں گے اور اگر روگردانی کریں گے تو وہ حق سے جداہوں گے اور خدا تم سے ان کے شر کو دور کرے گا کہ وہ سننے والا اور داناہے۔
 شان نزول
 ان آیات کی شان نزول کے بارے میں ابن عباس سے اس طرح منقول ہے:
 چند یہودی علماء اور نجران کے کچھ عیسائی علماء مسلمانوں سے بحث مباحثہ کرتے تھے۔ ان میں سے ہر گروہ اپنے تئیں دین حق پر قرار دیتا اور دوسرے کی نفی کرتاتھا۔ یہودی کہتے کہ ہمارے پیغمبر حضرت موسی دیگر انبیاء سے برتر ہیں اور ہماری کتاب بہترین کتاب ہے۔ اسی طرح عیسائی دعوی کرتے تھے کہ مسیح بہترین رہنماہیں اور انجیل بہترین کتاب ہے۔ ان دو مذاہب کے پیرو کاروں میں سے ہر ایک مسلمانوں کو اپنے مذہب کی طرف دعوت دیتاتھا۔ یہ آیات اس موقع پر ان کے جواب میں نازل ہوئیں۔
 

صرف ہم حق پر ہیںحضرت ابراهیم انسان نمونه
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma