حضرت ابراهیم انسان نمونه

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
سب اپنے اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں پیغمبر انہی میں سے ہو:

گذشتہ آیات میں حضرت ابراہیم کی شخصیت کا کچھ تعارف کرایا گیاہے ان میں حضرت ابراہیم کی بعض خدمات اور کچھ درخواستیں جو مادی و معنوی پہلوؤں کی جامع تھیں کا ذکر کیاگیاہے۔ ان تمام ابحاث سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابراہیم اس قابل ہیں کہ عالمین کے تمام طالبان حق انہیں اپنے لئے اسوہ اور نمونہ قرار دیں۔ چاہیے کہ ان کے مکتب کو ایک انسان ساز مکتب تسلیم کرکے اس سے استفادہ کیاجائے۔ اسی بنیاد پر زیر نظر آیات میں گفتگو اس طرح سے آگے بڑھتی ہے: احمق و نادان افراد کے سوا کو ن شخص ابراہیم کے آئین پاک سے روگردانی کرے گا (وَمَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاہِیمَ إِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہُ
کیا یہ حماقت اور بیوقوفی نہیں کہ انسان اس پاک و روشن دین کو چھوڑ دے اور کفر اور شرک اور فساد کی کجرا ہوں میں جا پڑے ۔ وہ آئین جو انسان کی روح و فطرت سے آشنا سازگار ہو اور عقل و خرد سے ہم آہنگ ہو اور وہ آئین جس میں آخرت بھی ہو اور دنیا بھی اسے چھوڑ کر ایسے منصوبوں کے پیچھے لگنا جو دشمن عقل، مخالف فطرت اور دین و دنیا کی تباہی کا باعث ہوں حماقت نہیں تو اور کیاہے۔
مزید فرمایا: ہم نے دنیا میں ابراہیم کو (ان عظیم خصوصیات و امتیازات کی بناء پر) منتخب کیا اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہوگا (و لقد اصطفینہ فی الدنیا و انہ فی الاخرة لمن الصلحین
ابراہیم خدا کے چنے ہوئے اور صالحین کے سردار ہیں۔ اسی بناء پر انہیں اسوہ و نمونہ قرار دیاجانا چاہئیے ۔ بعد کی آیت میں اسی مفہوم پر تاکید کرتے ہوئے ابراہیم کی برگزیدہ صفات میں سے ایک خصوصیت جو حقیقت میں ان تمام صفات کی بنیاد ہے کا تذکرہ کیا گیاہے: یاد کرو اس وقت کو جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا کہ ہمارے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرو۔ انہوں نے کہا میں عالمین کے پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوں (إِذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ اٴَسْلِمْ قَالَ اٴَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ)۔
ہاں وہ ابراہیم جو فداکاری کا سراپا اور ایثار کا پتلا ہے جب اپنے ہی اندر سے آواز فطرت سنتاہے کہ پروردگار اس سے فرمارہاہے کہ سرتسلیم خم کرو تو وہ کاملا سر تسلیم خم کرتاہے۔ ابراہیم اپنی فکر و ادراک سے سمجھتے ہیں کہ ستارے، آفتاب اور ماہتاب سب نکلتے ہیں اور ڈوب جاتے ہیں اور قانون آفرینش کے تابع ہیں لہذا کہتے ہیں کہ یہ میرے خدا نہیں ہیں۔
إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ حَنِیفًا وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ
میں نے اپنا رخ خدا کی طرف کرلیاہے ، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیاہے اور اس عقیدہ کی راہ میں اپنے تئیں خالص کردیاہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ (انعام۔ ۷۹)
گذشتہ آیات میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل جب خانہ کعبہ تعمیر کرچکے تو قبولیت اعمال کی دعا کے بعد جو پہلی درخواست کی وہ یہ تھی کہ واقعا وہ فرمان خدا کے سامنے سرتسلیم خم ہوں اور ان کی اولاد میں سے بھی ایک امت مسلمہ اٹھ کھڑی ہو۔ در حقیقت نوع انسانی بلکہ تمام مخلوق میں پہلی بات جو کسی کی قدر و قیمت بڑھاتی ہے وہ خلوص اور پاکیزگی ہے۔ اس لئے جب حضرت ابراہیم نے کاملا اپنے تئیں فرمان حق کے سامنے سرنگوں کرلیا تو محبوب خدا ہوگئے اور خدانے انہیں چن لیا اور اسی عنوان سے ان کا اور ان کے مکتب کا تعارف کرایا۔ حضرت ابراہیم نے آغاز زندگی سے آخر تک ایسے ایسے کام کئے ہیں جو کم نظیر ہیں بلکہ بعض تو بے نظیر ہیں بت پرستوں اور ستارہ پرستوں سے ان کا لا جواب جہاد اور ان کا آگ میں کو دجانا کہ جس سے ان کا سخت ترین دشمن نمرود تک متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور بے اختیار بول اٹھا:
من اتخذ الھا فلیتخذ الھا مثل الہ ابراہیم
اگر کوئی خدا کا انتخاب کرنا چاہے تو وہ ابراہیم کے خدا جیسا خدا منتخب کرے۔۱
اسی طرح بیوی اور شیرخوار بچے کو اس خشک اور جلادینے والے بیابان میں سرزمین مقدس میں لاکر چھوڑ دینا، خانہ کعبہ کی تعمیر اور اپنے جو ان بیٹے کو قربان گاہ پرلے جانا ان میں سے ہر امر حضرت ابراہیم کی راہ و روش کو جاننے کے لئے ایک نمونہ ہے۔
جو وصیت اور نصیحت آپ نے اپنی آخری عمر میں اپنے فرزندان گرامی سے کی وہ بھی نمونہ ہے جس کا ذکر زیر نظر آیات میں سے آخر میں آیاہے۔ جس میں فرمایا گیا ہے کہ ابراہیم اور یعقوب نے عمر کے آخری لمحات میں اپنی اولاد کو توحید کے مکتب مقدس کی وصیت کی (وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوب
ہر ایک نے اپنی اولاد سے کہا: اے میرے فرزند ! خدا نے اس آئین توحید کو تمہارے لئے منتخب کیاہے ( یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین
اس وصیت ابراہیمی کا ذکر کرتے ہوئے قرآن گویا اس حقیقت کو بیان کرنا چاہتا کہ اے انسان! تم فقط آج کے لئے اپنی اولاد کے لئے جوا ب دہ نہیں بلکہ اس کے آئندہ کے بھی جواب دہ ہو۔ اس جہان سے آنکھوں کو بند کرتے وقت اپنی اولاد کی مادی زندگی ہی کے لئے فکر نہ کرو بلکہ ان کی معنوی و روحانی زندگی کے لئے بھی فکر کرو۔
یہ وصیت حضرت ابراہیم ہی نے نہیں کی بلکہ ان کے پوتے حضرت یعقوب نے بھی اپنے دادا کی اس روش کو جاری رکھا اور انہوں نے بھی اپنی آخری عمر میں اپنی اولاد کو سمجھایاکہ دیکھو! تمہاری کامیابی و کامرانی اور سعادت ایک چھوٹے سے جملے میںپوشیدہ ہے اور وہ ہے حق کے سامنے سرتسلیم خم کرنا۔
تمام انبیاء میں یہاں حضرت ابراہیم کے ساتھ صرف حضرت یعقوب کا ذکر آیاہے شاید یہ اس مقصد کے لئے ہوکہ یہود و نصاری کہ جن میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی طرح اپنے تئیں حضرت یعقوب سے وابستہ کرتے ہیں انہیں سمجھایا جائے کہ تمہارا یہ شرک آلود طور طریقہ اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کی تمہاری ہٹ اس شخصیت کے طریقے سے نہیں ملتی جس سے اپنا ربط جوڑتے ہو۔
۱۳۳۔ اٴَمْ کُنتُمْ شُہَدَاءَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ
۱۳۴۔ تِلْکَ اٴُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَا کَسَبْتُمْ وَلاَتُسْاٴَلُونَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُون
ترجمہ
۱۳۳۔ کیا تم موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا: میرے بعد کس کی پرستش کروگے۔ انہوں نے کہا: آپ کے خدا کی اور اس اکیلے خدا کی جو آپ کے آباء ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا خداہے اور ہم اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔
۱۳۴۔ (بہر حال) وہ ایک امت تھے کہ گذشتہ زمانے میں ان کے اعمال ان سے مربوط تھے اور تمہارے اعمال بھی خود تم سے مربوط ہیں اور ان کے اعمال کی باز پرس کبھی تم سے نہ ہوگی۔
شان نزول یہودیوں کی ایک جماعت کا عقیدہ تھا کہ حضرت یعقوب نے اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد کو اسی دین کی وصیت کی جس کے یہودی معتقد ہیں (اس کی تمام تحریفوں کے ساتھ) خدائے تعالی نے ان کے اس عقیدے کی تردید میں یہ آیات نازل کیں۔2


 
۱ نور الثقلین، ج۳، ص۴۳۹
2  تفسیر ابو الفتوح رازی


 

سب اپنے اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں پیغمبر انہی میں سے ہو:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma