خوش خبری دینا اور ڈرانا۔ دواہم تربیتی اصول:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
وہ ہرگز راضی نہ ہوں گے ان کے دل ایک جیسے ہیں:

خوش خبری دینا اور ڈرانا دوسرے لفظوں میں تشویق و تہدید تمام تربیتی اور معاشرتی پروگراموں کی بنیاد ہیں۔ اچھے کام کی انجام دہی پر جزا کی رغبت اور برے کام کی انجام دہی پرسزا کا خوف ضروری ہے تا کہ راہ خیر پر چلنے کا زیادہ و لولہ و جذبہ پیدا ہو اور قدم برے راستے پر اٹھنے سے بازرہ سکیں۔
صرف شوق دلانا فرد یا معاشرے کے تکامل کے لئے کافی نہیں کیونکہ انسان اگر صرف بشارتوں کا امید وار ہو اور ان پر مطمئن ہوجائے تو ممکن ہے کہ جرائم کی طرف ہاتھ بڑھائے چونکہ اسے اطمینان ہے اور کوئی خطرہ نہیں ہے۔
مثلا ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل عیسائی فدیہ کا عقیدہ رکھتے ہیں یعنی ان کا عقیدہ ہے کہ عیسی ان کے گناہوں کا فدیہ ہو گئے ہیں۔ ان کے رہبر کبھی انہیں جنت کی سند بیچتے ہیں اور کبھی خدا کی طرف سے ان کے گناہ بخش دیتے ہیں۔ مسلم ہے کہ ایسے لوگ آسانی سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
قاموس کتاب مقدس میں ہے:
خدا نیز اشارہ ہے مسیح کے گراں بہا خون کے کفارہ کی طرف جب کہ ہم سب کے گناہ ان پر رکھ دیئے گئے اور ہمارے گناہوں کے ضمن میں انہوں نے اپنے آپ کو صلیب کے لئے پیش کردیا۔
یہ منطق اس تحریف شدہ مذہب کے پیرو کاروں کے لئے گناہوں میں جسارت و جرات کا سبب بنتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ جو سمجھتے ہیں کہ تشویق ہی انسان کے لئے (چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا) کافی ہے اور تنبیہ و تہدید اور سزا و عذاب کا ذکر بالکل ایک طرف رکھ دینا چاہئیے وہ بڑے اشتباہ کا شکار ہیں جیسا کہ وہ لوگ جو تربیت کی بنیاد صرف خوف و تہدید پر رکھتے ہیں اور تشویق کے پہلوؤں سے غافل ہیں وہ بھی گمراہ اور بے خبر ہیں۔
یہ دونوں گروہ انسان کو پہچاننے میں اشتباہ اور غلطی کرگئے ہیں وہ متوجہ نہیں کہ انسان خوف اور امید، ذات کی محبت، زندگی سے عشق اور فنا و نابودی سے نفرت کا مجموعہ ہے۔ وہ کشش منفعت اور دفع ضرر کا مرتکب ہے۔ وہ انسان جوان دونوں پہلووں کا حامل ہے کیسے ممکن ہے کہ اس کی تربیت کی بنیاد صرف ایک پہلو پر رکھی جائے۔
ان دونوں میں ایک توازن ضروری ہے۔ اگر تشویق و امید حدسے بڑھ جائے۔ تو جرا ت و غفلت کا باعث ہے اور اگر خوف و اندیشہ حدسے گذرجائے تو اس کا نتیجہ یاس و ناامیدی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیات قرآن میں نذیر و بشیر یا انذار و بشارت کا ایک ساتھ ذکر ہے بلکہ یہ بھی ملحوظ رکھا گیاہے کہ کبھی بشارت کو انذار پر مقدم رکھا گیاہے اور کبھی انذار کو بشارت پر زیر بحث آیت میں، بشیرا و نذیرا ہے اور سورہ اعراف آیہ ۱۸۸ ہے:
إِنْ اٴَنَا إِلاَّ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ
میں ایمان لانے والے کے لئے نذیرا ور بشیرہوں۔
البتہ اکثر آیات قرآن میں بشیر، بشارت یا مبشر کو مقدم رکھا گیاہے اور کم آیات میں نذیر مقدم ہے۔ ممکن ہے یہ اس لئے ہوکہ مجموعی طور پر رحمت خدا اس کے عذاب پر سبقت رکھتی ہے:
یا من سبقت رحمتہ غضبہ
اے وہ کہ جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔
۱۲۰۔وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الْیَہُودُ وَلاَالنَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ قُلْ إِنَّ ہُدَی اللهِ ہُوَ الْہُدَی وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ اٴَہْوَائَہُمْ بَعْدَ الَّذِی جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنْ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیر
۱۲۱۔ الَّذِینَ آتَیْنَاہُمْ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلاَوَتِہِ اٴُوْلَئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَمَنْ یَکْفُرْ بِہِ فَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْخَاسِرُونَ
ترجمہ
۱۲۰۔ یہود و نصاری آپ سے کبھی راضی نہیں ہوں گے جب تک آپ (ان کی غلط خواہشات کے سامنے طرح سرتسلیم خم نہ کریں اور) ان کے (تحریف شدہ) مذہب کی پیروی نہ کریں۔ کہیے ہدایت کامل صرف خدا کی ہدایت ہے۔ اگر آگاہی کے بعد بھی ان کی ہوا و ہوس کی پیروی کی تو خدا کی طرف سے تمہارے لئے کوئی سرپرست و مددگار نہ ہوگا۔
۱۲۱۔ و ہ لوگ (یہود و نصاری) جنہیں ہم نے آسمانی کتاب دی ہے اور وہ اسے غور سے پڑھتے ہیں۔ پیغمبر اسلام پر ایمان لے آئیں گے اور جوان سے کفر اختیار کریں گے وہ خسارے میں ہیں۔
شان نزول
پہلی آیت کی شان نزول کے بارے میں ابن عباس سے اس طرح منقول ہے:
مدینہ کے یہودیوں اور نجران کے عیسائیوں کا خیال تھا کہ قبلہ کے بارے میں پیغمبر اسلام ہمیشہ ان سے موافقت رکھیں گے جب خدا نے بیت المقدس کے بجائے کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا۔ تو وہ پیغمبر اکرم سے مایوس ہوگئے (اس دوران شاید مسلمانوں میں سے بعض لوگ بھی معترض تھے کہ ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جو یہود و نصاری کی رنجش کا باعث ہو ( ۱)۔
اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی۔ جس میں مسلمانوں کو بتایاگیا کہ قبلہ کی ہم آہنگی کا معاملہ ہو یا کوئی اور مسئلہ یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ گروہ تم سے کبھی راضی نہیں ہوگا یہاں تک کے تم ان کے مذہب کو پورے طور پر تسلیم نہ کرلو۔
بعض دوسرے لوگوں نے نقل کیاہے کہ پیغمبر اکرم چاہتے تھے کہ ان دونوں گروہوں کو راضی کیاجائے شاید یہ اسلام قبول کرلیں اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ آپ یہ بات ذہن سے نکال دیں کیونکہ وہ کسی قیمت پر آپ سے راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے مذہب کی پیروی نہ کرنے لگیں۔2
دوسری آےت کی شان نزول میں مختلف روایات ہیں۔ مفسرین کا نظریہ ہے کہ یہ آیات ان افراد کے بارے میں ہے جو جناب جعفر ابن ابوطالب کے ساتھ حبشہ سے آئے تھے اور وہ لوگ وہاں جاکر جناب جعفر سے مل گئے تھے۔ ان کی تعداد چالیس تھی۔ بتیس افراد حبشہ سے تھے اور آٹھ افراد شام کے راہب تھے جن میں مشہور راہب بحیرا بھی شامل تھا۔
بعض کہتے ہیں کہ یہودیوں میں سے چند افراد کے لئے یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ مثلا عبد اللہ بن سلام، سعید بن عمر و اور تمام بن یہودا و غیرہ جنہوں نے اسلام قبول کیاتھا۔3


 

 
۱ تفسیر ابو الفتوح رازی اور تفسیر فخر رازی (کچھ فرق کے ساتھ)
2! تفسیر ابو الفتوح اور مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں۔
3 مجمع البیان ۔ زیر بحث آیت کے ذیل میں۔
 

وہ ہرگز راضی نہ ہوں گے ان کے دل ایک جیسے ہیں:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma